پہلی بار کشمیری متحد ہوکر کھڑے ہوئے،جامع مسجد میں 2 منٹ کی خاموشی کوئی عام عمل نہیں:وزیر اعلیٰ
جموں// وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پیر کو قانون ساز اسمبلی کو بتایا کہ ملی ٹینسی کے آغاز کے بعد پہلی بار کشمیر نے پہلگام حملے کے بعد “دہشت گردی کے خلاف بغاوت” کی ہے۔انہوں نے کہا’’میرے پاس ایسے الفاظ نہیں ہیں کہ میں اپنے پیاروں کو کھونے والے خاندانوں سے معافی مانگوں،” ۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پاس غمزدہ خاندانوں کو پیش کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہیں، ان خاندانوں کا کیا قصور تھا؟ وہ یہاں پہلی بار سکون پانے کے لیے آئے تھے؟ اور انہیں اتنی بھاری قیمت چکانی پڑی۔”
لوگوں کی آواز
ایک خصوصی اسمبلی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، عمر نے کہا کہ کشمیر بھر میں غم اور مذمت کی بے ساختہ آواز خطے میں “دہشت گردی کے خاتمے کا آغاز” ہے۔وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ26 سالوں میں پہلی بار میں نے جموں و کشمیر کے لوگوں کو کھڑا ہوتے ہوئے دیکھا، ‘میرے کہنے پر نہیں، وہ اپنے طور پر نکلے، کسی سیاسی جماعت نے انہیں منظم نہیں کیا، کسی حکومتی حکم نے انہیں مجبور نہیں کیا، وہ موم بتیاں جلائے، بینرز اٹھائے اور مجرموں کو یہ بتانے کے لیے سڑکوں پر خاموشی سے چلتے رہے، اوردہشت گردانہ حملے کی مذمت کی۔عبداللہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس تبدیلی کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا، ہمیں اتحاد، ہمدردی اور لچک کے اس جذبے کو فروغ دینا اور پروان چڑھانا چاہیے جو خود لوگوں میں سے ابھرا ہے۔انہوں نے کہا “کئی سالوں میں پہلی بار، میں نے ایسے مظاہروں کا مشاہدہ کیا جو واقعی متحد تھے، کسی سیاسی جماعت یا رہنما نے ان کا انعقاد نہیں کیا، اور نہ ہی کوئی منظم بینرز یا موم بتی مارچ کی منصوبہ بندی کی گئی، غم و غصہ بے ساختہ تھا، جو براہ راست لوگوں کے دلوں سے نکل رہا تھا، ہر مسجد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی”۔وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جامع مسجد میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کرنا غیر معمولی عمل ہے۔
ماضی
عمر نے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کشمیر کی بھاری قیمت کے بارے میں بات کی۔ اکتوبر 2001 میں اسی اسمبلی کمپلیکس پر ہونے والے حملے میں ہم نے لوگوں کو کھو دیا تھا، کیمپوں پر حملے کیے گئے ، پنڈتوں کی بستیوں، سکھ کالونیوں میں،کسی کو بھی نہیں بخشا گیا ۔ ہم نے سوچا کہ وہ دن اب ختم ہو گئے ہیں، لیکن 22 اپریل کے حملے نے ڈرائونا خواب دوبارہ بنا دیا۔”
امید کی کرن
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ خونریزی کے درمیان بھی امید کی کرن نظر آئی۔ عمر نے کہا، “پہلی بار، کشمیریوں نے معقولیت، جواز یا خاموشی اختیار نہیں کی، انہوں نے بلند آواز اور واضح الفاظ میں مذمت کی۔ عمر نے کہا’’دہشت گردی صرف بندوقوں یا سیکورٹی فورسز کی وجہ سے ختم نہیں ہوگی، یہ تب ختم ہوگی جب لوگ ہمارے ساتھ چلیں گے،اور اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہمارے پاس آنا شروع ہو گئے ہیں،” ۔عمر نے بتایا کہ شاید سب سے زیادہ علامتی لمحہ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد سے آیا ۔ “نماز جمعہ سے پہلے، مسجد ،ایک ایسی جگہ جو اکثر شعلہ بیان سیاسی خطبوں سے منسلک ہوتی ہے ، خاموش ہوگئی، نمازیوں نے متاثرین کی یاد میں 2 منٹ کی خاموشی اختیار کی”۔
ریاستی بحالی
جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کی بحالی کے تناظر میں عمر نے کہا کہ وہ سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے اس المیے کا فائدہ نہیں اٹھائیں گے۔میں کس منہ سے 26 بے گناہ لوگوں کی موت کو دہلی جا کر ریاست کا درجہ مانگنے کے لیے استعمال کر سکتا ہوں؟ انہوں نے کہا”کیا میں اتنا سستا ہوں؟ کیا ان زندگیوں کی قیمت اتنی کم ہے کہ میں ان کے سانحے کو سیاسی مفادات کے لیے سودے بازی میں تبدیل کر دوں؟ نہیں، لعنت ہو مجھ پر خواہ میں ایسی بات سوچوں۔”انہوں نے کہا”جموں و کشمیر میں سیکورٹی منتخب حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے، لیکن میں اس موقع (دہشت گردی کے حملے)کو ریاست کا درجہ حاصل کرنے کے لیے استعمال نہیں کروں گا، میں پہلگام دہشت گردانہ حملے کا استعمال کرتے ہوئے ریاستی حیثیت کے لیے کیسے دبا ئوڈال سکتا ہوں؟”۔انہوں نے ایوان کو یقین دلایا کہ مکمل ریاست کے لیے جدوجہد جاری رہے گی لیکن اس بات پر زور دیا کہ آج کا دن سیاسی مطالبات کا دن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا”آج، کوئی سیاست نہیں، ریاست کا کوئی مطالبہ نہیں، صرف ایک چیز’ حملے کی دلی مذمت اور خاندانوں کے ساتھ یکجہتی،” ۔
بہادری
وزیراعلیٰ نے حملے کے دن سے بہادری اور انسانیت کی غیر معمولی داستانیں سنائیں۔ “ایک نوجوان لڑکے نے ایک سیاح خاندان کو فائرنگ کی زد میں چھوڑنے سے انکار کر دیا۔سیاح سے کہا، ‘اس سے پہلے کہ کوئی آپ کی بیوی اور بچے تک پہنچے، وہ میرے پاس سے گزر جائیں’۔ ڈل جھیل میں کشتی والوں نے سیاحوں کو مفت پھل پیش کیے، ٹیکسی ڈرائیوروں اور ہوٹل مالکان نے تشدد سے بھاگنے والے زائرین کے لیے اپنے گھر کھول دیئے، کسی بھی قسم کی ادائیگی سے انکار کیا، یہ کشمیر کی مہمان نوازی ہے، یہ ہمارے جذبے پر فخر ہے‘‘۔
کشمیریوں کی ہراسانی
انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ حملے کے فوری بعد کچھ کشمیریوں کو ملک کے کچھ حصوں میں ہراساں کرنے کا سامنا کرنا پڑا لیکن انہوں نے ریاستی حکومتوں اور پولیس فورسز کی تعریف کی جنہوں نے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لیے تیزی سے کام کیا۔ عمر نے کہا کہ حکومت نے اہم شہروں میں وقف ہیلپ لائن نمبر اور نوڈل افسران قائم کرنے کے اقدامات شروع کیے تاکہ خطرات کا سامنا کرنے والے کشمیری فوری مدد حاصل کر سکیں۔
سوشل میڈیا
انہوں نے سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرنے والوں کو بھی متنبہ کیا کہ وہ غلط بیانی اور جعلی خبریں نہ پھیلائیں جو کشیدگی کو ہوا دے سکتی ہیں۔ اپنی شرارتیں بند کرو۔انہوں نے کہا “جب آپ جھوٹ پھیلاتے ہیں، تو آپ حقیقی متاثرین کو اور زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں، ہم اسے برداشت نہیں کریں گے” ۔