۔16,179 سکولوں میں 50سے کم طلاب زیر تعلیم،خالی سکولوں میں20000ٹیچر تعینات
پرویز احمد
سرینگر //جموں و کشمیر سمیت بھارت کی دیگر ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں قریب 8ہزار سرکاری سکولوں میں کوئی بھی طلاب علم زیر تعلیم نہیں ہے جبکہ ان سکولوں میں 20ہزار 817اساتذہ تعینا ت ہیں۔ان 8000سکولوں میں جموں و کشمیر کے 146سکول بھی شامل ہیں۔
رپورٹ
مرکزی وزارت شماریات کے مطابق مغربی بنگال میں 17,965اساتذہ 3812ایسے سکولوں میں تعینات ہیں جہاں کوئی بھی بچہ زیر تعلیم نہیں ہے۔ وزارت شماریات کے مطابق گذشتہ سال 2024 کے مقابلے میں سکولوں کی تعداد میں 5000کی کمی واقعہ ہوئی تھی ۔گذشتہ سال مجموعی طور پر 12ہزار 954سکولوں میں کوئی بھی طلاب زیر تعلیم نہیں تھا جبکہ رواں سال ان سکولوں کی تعداد کم ہوکر 7993ہوگئی ہے۔ وزارت کے مطابق جموں و کشمیر کے 146سرکاری سکولوں میں اکتوبر 2025تک کوئی بھی طلاب علم زیر تعلیم نہیں تھا ۔ وزارت شماریات کے مطابق لیکن یہ سکول ابھی بھی کاغذات پر موجود ہیں اور یہاں کم سے کم 61اساتذہ ایسے سکولوں میں تعینات ہیں ،جو جموں و کشمیر میں اساتذہ کی تعیناتی پر سوالیہ ہے۔ جموں و کشمیر میں ایسے 16178سکول موجود ہیں جہاں زیر تعلیم طلاب کی تعداد 50سے کم ہے۔ وزارت شماریات کا کہنا ہے کہ کشمیر میں ایسے سکولوں کی فہرست دستیاب نہیں ہے جہاں صرف 2اساتذہ تعینات ہیں لیکن کئی سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی تعداد 2سے بھی کم ہے۔ کشمیر صوبے کے مختلف اضلاع کے دیہی علاقوں میں کئی سرکاری سکول ایسے بھی ہے جہاں طلبہ و طالبات کی تعداد کافی زیادہ ہے لیکن یہاں صرف 2ہی اساتذہ تعینات ہے۔ رپورٹ میں ایسے سکولوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ بانڈی پورہ، اننت ناگ، کپوارہ اور بارہمولہ میں کئی سکولوں میں طلبہ و طالبات کی تعداد زیادہ ہے لیکن یہاں صرف 2 اساتذہ تعینات ہیں جہاں ایک ہی وقت کئی کلاسوں کو پڑھانا پڑتا ہے۔ بانڈی پورہ ضلع میں ایک سکول میں 5کلاسوں کیلئے 2اساتذہ تعینات ہیں جہاں 60طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ اننت ناگ میں چیف ایجوکیشن؎ آفیسر کا کہنا ہے کہ ضلع میں طلبہ اور اساتذہ کی شرح 100:2ہے یعنی یہاں 100طلبہ کیلئے صرف 2اساتذہ تعینات ہیں۔ کولگام کے ایک سکول میں 50طلبہ کیلئے 2اساتذہ دستیاب ہیں ۔کپوارہ ضلع کے بالائی علاقوں میں دو کمروں میں 8جماعتوں کو پڑھانا ہوتا ہے جبکہ ان میں صرف دو اساتذہ ہی تعینات رہتے ہیں۔ وزارت شماریات کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال بھرتی عمل پر روک، تبادلوں میں ذاتی ترجیحات اور بنیادی ڈھانچے کی کمی کی وجہ سے ہے۔