وزیر اعظم نریندر مودی ہر بار ہر بات نئی کرکے وہ دکھانا چاہتے ہیں جو اُن کے دماغ میں بیٹھا ہوا ہے کہ اب تک جو ہوا وہ غلط ہوا اور اب جو ہوگا وہ صحیح ہوگا۔ انہوں نے بجٹ اجلاس میں ایک بڑی تبدیلی پہلے یہ کی تھی کہ ریلوے کا بجٹ جو ابتداء سے الگ ہوا کرتا تھا، اُسے ختم کرکے عام بجٹ کا حصہ بنا دیا تھا۔ اس بار وہ مختصر بجٹ اجلاس کرکے یہ ثابت کررہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں وقت برباد کرنے سے بہتر یہ ہے کہ ایک دوسرے کو چہرہ دکھانے کے لئے کبھی کبھی پارلیمنٹ میں آجائو ورنہ باہر رہو اور پورے ملک پر حکومت کے بارے میں سوچو۔
بجٹ اجلاس کو خطاب کرنے کے لئے صدر صاحب تشریف لائے تو وہی کر ّوفر تھا، لمبی کار بھی تھی بگھی اور گھوڑے بھی تھے اور وہ سب جو انگریز بتا گئے تھے۔ اس کے بعد موصوف نے خطبہ پڑھا تو پہلے مودی سرکار کے ہر کام کی تعریف کی چاہے وہ کتنی ہی تنقید کے قابل ہوں۔ سب سے پہلا مسئلہ طلاق ثلاثہ بل کو بتایا اور کہا کہ اسے پاس کرادیا جائے۔ پہلی بات تو یہ کہ طلاق ثلاثہ اسلامی شریعت کا حصہ ہے جسے حکومت ہاتھ بھی نہیں لگا سکتی۔ مسئلہ طلاق کا نہیں ایک وقت میں تین طلاق کا ہے ،ہر جگہ بل سے ’’ایک بار میں‘‘ کا لفظ نکال کر صرف طلاق ثلاثہ کہا جارہا ہے۔ یہ فریب ہے اور سازش ہے اور دوسری بات یہ کہ اسے اخلاقی جرم بناکر اور پولیس کو اختیار دے کر اتنا خطرناک بنا دیا گیا ہے کہ یہ ہزاروں نوجوان مسلمانوں کی زندگی برباد کردے گا۔ حیرت کی بات ہے کہ مٹھی بھر’’ مسلم‘‘ عورتوں کی طرف سے حکومت اتنی فکر مند ہے کہ اسے صدر کی تقریر کا پہلا حصہ بنا دیا جب کہ لاکھوں غیرمسلم عورتیں ہیں جو نہ شوہر کے پاس ہیں، نہ انہیں طلاق دی گئی ہے اور ان کے بارے میں صدر صاحب نے ذکر تک نہیں کیا۔
صدر صاحب نے وزیراعظم کی اس تجویز کا بھی ذکر کیا جو اس وقت ان کے اوپر چھائی ہوئی ہے کہ ایک ملک ایک الیکشن۔ اس بارے میں وہ جو بیان کرتے ہیں ،وہ سب ان کا اپنا طریقہ ہے ورنہ 1967ء کے بعد پچاس سال سے یہی ہورہا ہے کہ پارلیمنٹ کا الیکشن الگ اور صوبوں کے اپنے اپنے وقت پر ہوتے ہیں۔ ہم نے پارلیمنٹ کے الیکشن میں بھی حصہ لیا ہے اور صوبوں کے الیکشن میں بھی ۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ سارا کام اتنے دنوں ٹھپ رہتا ہے، اس لئے مودی جی سے پہلے وہ الیکشن تھے اور اب وہ جنگ بن گئے ہیں۔اندرا گاندھی رہی ہوں یا اٹل جی انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اگر صوبہ میں ہار گئے تو صوبہ چین یا پاکستان کو مل جائے گا ۔یہ مودی جی کی سوچ ہے کہ ہارنا نہیں ہے چاہے سارے کام بگڑ جائیں، ملک رُک کر ایک جگہ کھڑا ہوجائے الیکشن جیتنا ہے۔
1971 ء میں علی گڑھ میں یونس سلیم صاحب الیکشن لڑرہے تھے ،پولنگ سے پندرہ دن پہلے مسٹر دھون کا فون آیا کہ میڈم فلاں تاریخ کی صبح سات بجے علی گڑھ آرہی ہیں۔ دسمبر کا مہینہ کڑاکے کی سردی اور صبح سات بجے جلسہ؟ ہم نے سلیم صاحب سے کہا کہ آپ بات کیجئے کہ یا تو 9 بجے آئیں یا نہ آئیں۔ اگر سات بجے صبح آئیں اور مجمع جمع نہیں ہوا تو ہم ہار جائیں گے۔ سلیم صاحب نے کہا کہ وہ اندرا گاندھی ہیں ،یہ تو ہوسکتا ہے کہ نہ آئیں لیکن وقت نہیں بدل سکتا۔پھر زور شور سے تیاری ہوئی اور آدھے سے زیادہ پارک آدھی رات کو ہی بھر گیا اور وہ صبح سات بجے آئیں آدھا گھنٹہ تقریر کی اور چلی گئیں ۔1969 ء میں یوپی کے الیکشن تھے، چودھری چرن سنگھ سے ہم نے کہا کہ لکھنؤ کو دو دن دے دیجئے۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن ہی ملے گا دن اور وقت تم طے کرلو اور پورے الیکشن میں صرف ایک شام کو جھنڈے والے پارک میں تین گھنٹے تقریر کی اور پانچوں سیٹیں جیت لیں اور صوبہ کا کوئی کام نہیں رُکا۔
ہر کسی کا اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ مودی جی جہاں جاتے ہیں وہاں ان کی حفاظت میں ساری پولیس لگادی جاتی ہے اور وہ جو اپنے ساتھ پچاس وزیر رکھتے ہیںان کی حفاظت میں ہزاروں لگادئے جاتے ہیں ، اگر وہ بھی یہ سوچ کر لڑیں کہ ہاریں یا جیتیں صوبہ میرے قدموں میں ہی رہے گا تو کچھ بھی نہ ہو گا۔حیرت ہے کہ صدر صاحب سے تین باتیں کہلوائی گئیں اور تینوں بالکل معمولی ۔ اب کیا یہ دانائی کی بات ہے کہ حکومت ہند نے بغیر محرم کے عورتوں کو حج کے لئے جانے سے روکا تھا ، کیا یہ کارنامہ مودی سرکار کا ہے کہ اب 45 ؍سال سے زیادہ کی مسلمان عورت گروپ بناکر بغیر محرم کے حج کو جاسکتی ہے جب کہ حکومت ہند نے کوئی اور کبھی پابندی نہیں لگائی ۔ یہ پابندی سعودی حکومت کی تھی، اسی لئے جب پاسپورٹ کی زیادہ سختی نہیں تھی تو ایک ایک نے چار چار پاسپورٹ بنوا رکھے تھے اور وہ دوسروں کی بیویوں کو اپنی بہن یا بیٹی بناکر سعودی عرب چھوڑ آتے تھے اور اسمگلنگ کے ساتھ فیس بھی لیتے تھے۔ جب سے دو پاسپورٹ بنوانا ممکن ہی نہیں رہا تب سے یہ وباء ختم ہوئی۔صدر صاحب سے جو کہلوایا یہ مسائل نہیں ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کروڑوں بے روزگار جن میں ایم اے انجینئر اور ڈگری والے چپراسی کے نوکر کے اشتہار پر شہد کی مکھی کی طرح گرتے ہیں اور وہ بھی نہیں ملتی۔ نوٹ بندی سے جو پچاس لاکھ بے کار ہوئے وہ بھیک مانگ رہے ہیں ،لاکھوں نے فارم بھردیئے جواب نہیں ملتا ۔لاکھوں نے امتحان دے دیئے، نتیجہ نہیں نکلا اور لاکھوں نے سب کرلیا جوائن لیٹر نہیں آتا۔ کروڑوں کسان رو رہے ہیں ،مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے اور مودی جی نے جو کچھ 2014 ء میں کہا تھا وہ اس سے منہ چھپارہے ہیں اور سواسو کروڑ بھارتیوں کو طلاق، بغیر محرم کے حج اور ایک الیکشن نیا موضوع دے کر کہہ رہے ہیں کہ پندرہ لاکھ، اچھے دن، روزگار، کسان کو فصل پر پچاس فیصدی، نقصان کی تلافی، فصل بیمہ، گود لئے گائوں اور ہر ہاتھ میں جھاڑو ۔ ان سب باتوں کو میں بھی بھول گیا تم بھی بھول جائو۔
Mobile No. 9984247500