وہ چڑیوں کی چہچہاہٹ کے شور سے علی الصباح گہری نیند سے بیدار ہوا۔ جنگل کے سبزہ پر اور اونچے درخت کے نیچے وہ سونے کا عادی ہوچکا تھا۔ شبنم کے قطرے موتیوں کی طرح حد نظر تک چمک رہے تھے۔ اس نے ادھر ادھر دیکھکر پھر آنکھیں بند کی ں۔ آج پھر اس نے وہی خواب دیکھا تھا ۔ وہ دلکش فضاؤں میں پرواز کررہا ہے۔ آسمان سرخ نقوش سے منقش ہے اور ہر طرف اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ وہ کچھ دیر انہیں سوچوں میں گم رہا کہ اچانک اسے بہن کی شادی کا پیغام یاد آیا ۔ ثریا نے اپنے اکلوتے بھائی سے التجا کی تھی کہ اسکی شادی میں ضرور شریک ہو اور اسکی رخصتی کرے ۔
ساحل نے جنگل میں بہہ رہی ندی پر وضو کرکے نماز پڑھی اور ثریا سے ملنے چل پڑا۔ ادھر دلہن بنی ثریا بہت مغموم اپنے بھائی کی منتظر تھی۔ اسے ماضی کی تلخ یادیں ستا رہی تھیں، جن کے انجام سے اسکا بھائی باغی ہونے پر مجبور ہوا تھا۔ اپنے والد کا لہولہان وجود، جسے صاحبِ مسند حضرات نے جھوٹے الزام میں پھنسا کر بے رحمی سے قتل کر دیا تھا اسکے صبر کی زنجیروں کو توڑ رہا تھا۔ اسکے بھائی کے ساتھ ہوئی زیادتیوں کو وہ اب تک بھول نہیں پائی تھی ۔ پھر اچانک ایک دن اسکا بھائی گھر نہیں لوٹا اور کچھ دن بعد اسکے فرار ہونے کی خبر نے سوگوار گھر کی فضا میں سکتہ طاری کر دیا ۔ شوہر کی موت اور اکلوتے بیٹے کی جدائی نے ان کی بوڑھی ماں کی سانسیں توڈ دی تھیں ۔ اب پورے خاندان میں بس یہی دو رہ گئے تھے ۔ ثریا کی کفالت اب یتیم خانے میں ہورہی تھی اور وہیں یہ اسکی شادی طے پائی تھی ۔ زندگی کے اس اہم پڑاؤ میں وہ اپنے بھائی کا ساتھ چاہتی تھی۔ وہ خوشی میں بھی مغموم تھی، اسے اپنے بھائی کی فکر ہر لمحہ اندر سے کاٹ رہی تھی ۔ وہ ہر زوردار آواز سے ڈر جاتی اور دعائیں کرتی کہ اسکا بھائی سلامت ہو ۔
ادھر ساحل اپنی بہن کی شادی کی خبر سن کر بہت خوش تھا ۔ وہ چہرے پر نقاب اوڑھے بازار گیااور اپنی بہن کیلئے بہت سارے تحفے لئے مصلیٰ، قرآن شریف کا نسخہ، چند ملبوسات اور بہت کچھ۔ زیورات کی دکان کے سامنے سے گزرا تو آنکھوں سے آنسوؤں کا ریلا نکل آیا کہ آج بہن کچھ زیور دیتا مگر اسکے پاس اتنے پیسے نہیں تھے ۔ ثریا کو بچپن میں زیورات پہنے کا بہت شوق تھا ۔
خریداری کے بعد گاؤں کی طرف بڑھا تو راستے میں عبداللہ چاچا کی ریڑھی دکھی ۔ وہ کچھ دیر وہاں رکا اور بچپن کی یادوں کی دُنیا میں چند آن ٹھہر کر سوچنے لگا کہ کیسے وہ دونوں بھائی بہن گھر سے دو روپے لے کر دوڑتے دوڑتے عبداللہ چاچا سے آلو پکوڑے خریدتے اور پھر ثریا ضد کرتی کہ مجھے سارے کے سارے چاہیں۔ کافی لڑائی کے بعد جب ثریا رونے لگتی تو ساحل اسے سارے پکوڑے دے دیتا ۔ پھر وہ قہقہہ لگا کر چلی جاتی اور کہیں چھپ کر کھا لیتی ۔ ساحل ابھی یادوں کے جہاں میں بھٹک ہی رہا تھا کہ عبداللہ چاچا کی کھانسی نے اسے چونکا دیا۔
ساحل آگے بڑھا ۔ کچھ قدم چلنے کے بعد پھر لوٹا اور بیس روپئے کے پکوڑے خریدے ۔
یتیم خانے کے بچھواڑے باغ میں ثریا اسکا انتظار کررہی تھی ۔ جب اس نے ساحل کو آتے دیکھا تو دوڑ کر اُس سے لپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
" بھیا ۔ آپ کیسے ہیں ۔ لوٹ آئے نا ۔ "
"ثریا ۔ میں ٹھیک ہوں اور میں نے تم سے کہا ہے نا کہ قوم کے ماتھے سے زلت کی سیاہی آنسوؤں سے نہیں، خون سے دھوئی جاتی ہے ۔ دیکھ میں تمہارے لئے کیا کچھ لایا ہوں ۔ "
دونوں بیٹھ کر چیزیں دیکھنے لگے اور ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی ۔ کبھی زور زور سے ہنستے اور کبھی رونے لگتے ۔ باتوں باتوں میں ساحل نے جیب سے پکوڑے نکالے اور ثریا کی طرف بڑھائے ۔ ثریا کی سرخ آنکھیں کھل گئیں اور چہرے پر ہلکی سی مسکان نے اپنا دامن بکھیرا ۔
ثریا نے مہندی کا کٹورہ سامنے رکھ کر ہاتھ ساحل کی طرف بڑھائے ۔
"بھیا ۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ مجھے میری شادی میں مہندی لگائیں گے ۔ لگائیے نا۔ "
ساحل کی آنکھیں نم ہوئیں اور وہ ثریا کی ہتھیلی پر مہندی سجانے لگا ۔ دونوں باتیں کرتے رہے کہ اچانک تڑاخ کی ایک خوفناک آواز نے انہیں چونکا دیا ۔ ثریا سنبھلی ۔ گولی ساحل کی پیٹھ میں پیوست ہوچکی تھی ۔ ثریا چیختی رہی اور سامنے والوں سے رحم کی بھیک مانگنے لگی ۔ وہ اپنے بھائی کے سامنے کھڑے ہوکر اسکی ڈھال بن گئی، مگر گولیاں تھیں کہ رکتی نہیں تھیں۔ و ہ کبھی پیٹھ کے زخم کا لہو روکنا چاہتی تو گولی سینے کو چھلنی کردیتی ۔ سینے پر ہاتھ رکھتی تو پیٹھ چھلنی ہو جاتی ۔ لہولہان ساحل کے چہرے کی مسکان سے صاف جھلک رہا تھا کہ اسکے بدن سے ٹپکتا لہو کا ہر قطرہ حق کی راہ میں لکھ دیا گیا ہے اور وہ اپنے خواب کی تعبیر پا چکا ہے۔ ثریا پاگلوں کی طرح روتی ، بھاگتی ، اپنے بھائی کو چیخ چیخ کر بلاتی کہ تبھی تڑاخ کی ایک اور آواز آئی تو ثریا کے سینے میں جلن محسوس ہونے لگی اور وہ خاموش ہوگئی ۔
شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی
ہندوارہ (کپوارہ) کشمیر
موبائل نمبر؛9596253135