یہ اس دنیاکی زندگی کی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو قوم اپنے نصب العین اور مقصد زندگی کو پس پشت ڈال دیتی ہے ،ا س کے تقاضوںاور ضروریات کے مطابق طرز عمل اختیار نہیں کرتی اور ان کے حصول کیلئے مسلسل ایثار و قربانی اور جد وجہد کرنے کیلئے کمر بستہ نہیں رہتی، اس کا صفحہ ٔہستی سے مٹ جانا اسی طرح یقینی ہوتا ہے جس طرح تیل ختم ہو جانے کے بعد چراغ کاگل ہوجانا یقینی ہوتا ہے ۔حدیث مبارکہ ہے: ’’مسلمان اور اس کے ایمان کی مثال ایک کھونٹے سے بندھے ہوئے گھوڑے کی سی ہے جو خواہ کتنا ہی اِدھر اُدھر گھومے پھرے لیکن اپنی رسی کی حد کے اندر رہتا ہے۔‘‘
لیکن ہم تو اپنی رسی کی حد سے باہر چلے گئے ہیں ۔ ہم اپنے دین کی رسی کو توڑ کر اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسولﷺکی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کر گئے ہیں ۔ دنیا میں اس وقت اَربوں کی تعداد میں مسلمان موجود ہیں مگر اس کے باوجود وہ اسلامی نظامِ زندگی جس پر وہ ایمان رکھتے ہیں، کہیں بھی نافذ نظر نہیں آتا۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ آج دنیا میں مسلمانوں کی پستی و ناکامی،ذلت و رسوائی، خواری و ناداری اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمان اپنے نصب العین اورمقصد زندگی سے ہٹ گئے ہیں اور قرآن و سنت سے بے بہرہ دور گمراہی و جہالت کی تارکیوں میں بھٹک رہے ہیں۔
ہر مہذب اور باشعور قوم کا نظام ِ حیات اس کے بنیادی عقائد و نظریات ، اقدار و روایات، اصول و ضوابط اور نظریۂ حیات کا آئینہ دار ہوتاہے ،اس لیے اگر آج مسلمانوں میں اسلامی نظام ِ حیات رائج نہیں تو ماننا پڑے گا کہ انہوں نے اسلام کو محض زبانی دعوئوں اور ایمان کے کھوکھلے نعروں کے علاوہ اسے ایک دین ، ایک مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے قبول ہی نہیں کیا، اسے ایک کامل دین اور ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے اپنے دل و دماغ میں جگہ ہی نہیں دی ۔ اس کی بجائے جو ضابطۂ حیات ہم نے اختیار کیا وہ ہمارے اجتماعی نظام (معاشرت، معیشت، عدل و انصاف، قانون وسیاست) وغیرہ سے صاف ظاہرہے۔اسے جو چاہے نام دیں مگر یہ ایک اسلامی نظام ِ حیات ہرگز نہیں ۔ کیا قرآن و سنت ( اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسولﷺ کا تعین کردہ نظام نعوذباللہ حق نہیں ؟ اگر حق ہے تو آپ خود ہی بتائیں کہ حق کو چھوڑ دینے کے بعد ضلالت و گمراہی اور جہالت کے سوا اور رہ ہی کیا جاتا ہے؟
’’نظام حق کو چھوڑ دینے کے بعد گمراہی اور جہالت کے سوا اور کیا رہ جاتا ہے؟ تو تم کہاں بہکے جاتے ہو؟‘‘ (یونس32 )۔
’’بے شک قرآن ہی وہ راہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھی ہے اور خوشخبری سناتا ہے ایمان والوں کو جو اچھے، نیک اور صالح کام کریں ۔بے شک ان کے لئے بڑا اجروثواب ہے۔‘‘(بنی اسرائیل9)
بلاشبہ قرآن ہی سیدھا راستہ ہے، لیکن آپ دیکھیں کہ ہمارا کیا حال ہے؟ ہم قرآن و سنت سے بے بہرہ دورِگمراہی و جہالت کے اندھیاروں میں بھٹک رہے ہیں ، کوئی راہ راست دکھانے والا یا اپنانے والا نہیں ، سب اپنی اپنی دُھن میں مگن ہیں اور برائیوں پر برائیاں کئے جارہے ہیں۔ کسی کو ذرا بھراحساس نہیں کہ ایک دن اسے اپنے رب کے ہاں جواب دہی کیلئے حاضر ہونا ہے اور اپنی زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے بار بار عہد اور اقرارکو استوار کرکے اسے پس پشت ڈال دینے اور دن میں کئی کئی مرتبہ یاد دہانی یعنی(’’اذان‘‘ جو دن میں 5 مرتبہ آدمی کو یاد دہانی کراتی ہے۔اس کے باوجود اپنے حلفِ و فاداری کو بھول جانے والوں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ عنقریب ان کے کانوں میں یہ صدا گونجے گی۔ فرمایا جائے گا:’’ آج ہم تمہیں اسی طرح بھلا دیں گے جس طرح تم نے ہمیں اور ہماری آج کے دن کی اس ملاقات کو بھلا رکھا تھا، اب تمہارا ٹھکانہ دوزخ ہے اور تمہارا کوئی مددگار نہیں ( جو تمہیں اس درد ناک عذاب سے نجات دے ) ۔اس لیے کہ دنیا کی زندگی کی عیش و عشرت میں تم نے ہماری آیتوں کو مذاق بنا رکھا تھا،اب نہ ہی تمہیں اس آگ سے نکالا جائے گااور نہ ہی کوئی عذر قبول کیا جائے گا۔‘‘ (الجاثیہ34-35)
اگر خود کو اللہ واحد القوی القہار کے غضب سے بچانا ہے تو ہمیں قرآن و سنت کی مکمل پیروی کرنا ہوگی۔ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ ٔحیات کی حیثیت سے اپنے دل و دماغ اور عملی زندگی کے ہر شعبے میں پہلی اور آخری جگہ دینی ہو گی اور اسے اپنی روزمرہ زندگی میں عملی طور پر اپنانا ہو گااور جہاد فی سبیل اللہ کی راہ اختیار کرنا ہوگی ۔