مشتاق الاسلام
پلوامہ //وادی میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے رحجان کے بیچ 2پی ایچ ڈی سکالر اپنی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کیلئے ایک ریڈے پر خشک میوہ جات فروخت کررہے ہیں۔روزگار کمانے کے تلاش اپنی اعلی درجے کی ڈگریوں اور ایک دہائی سے زائد عرصے سے عارضی بنیادوں پر لیکچرار کے طور پر اعلی تعلیم کے محکموں میں خدمات انجام دینے کے باوجود یہ اسکالرز اپنے متعلقہ شعبوں میں ملازمت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں،جس کی وجہ سے وہ اپنی اور اپنے کنبوں کی کفالت کیلئے متبادل طریقے تلاش کرنے پر مجبور ہیں۔بروقت سرکاری ملازمت نہ ملال رکھنے والے پلوامہ اور کولگام سے تعلق رکھنے والے دو اسکالر(نام مخفی)، نے بالترتیب پولیٹیکل سائنس اور اکنامکس مضامین میں ڈاکٹریٹ ڈگریاں حاصل کی ہیں قصبہ شوپیان کے مضافات میں ایک ریڑے پر خشک میوہ جات اور دیگر اشیا فروخت کر رہے ہیں۔پلوامہ کے ایک گائوں سے تعلق رکھنے والے ایک سکالر نے بتایا کہ وہ 13 سال تک محکمہ اعلی تعلیم میں خدمات انجام دینے کے باوجود انہوں نے خود کو ایسی حالت میں پایا ہے۔انہوں نے بتایا کہاکہ کنبے کے اخراجات کو پورا کرنے کیلئے انہیںیہ اقدام گلے لگانا پڑا۔نیٹ،سیٹ اور دیگر امتحانات میں کامیاب ہونے کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی ڈاکٹر کو ایک لوڈکیرئر پر خشک میوہ جات بیچنے کی حالت میں دیکھنا پڑتا ہے۔دو بچوں اور کنبے کے واحد کفیل نے بتایا کہ ان کی بیٹیوں کو یہ معلوم نہیں کہ وہ ایک گاڑی پر خشک میوہ جات فروخت کر رہا ہے۔ایک اورسکالرنے کہا کہ جب حالات ایسے بنتے ہیں تو کچھ کرنا پڑتا ہے اور منصفانہ طریقے سے روزی کمانے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے۔منظور اور منصور دونوں نے کہا کہ وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ کسی کو امید نہیں ہارنی چاہیے ۔ پلوامہ میں انگریزی مضمون میں ڈاکٹریٹ ڈگری حاصل کرنے والے ایک اور سکالر کا کہنا تھا کہ اس نے 10 سال تک اعلی تعلیم محکمے میں بطور عارضی لیکچرار اپنے فرائض انجام دئے،لیکن محکمے کی نظرانداز پالیسی کے سبب وہ ڈاکٹریٹ ڈگریاں حاصل کرنے کے باوجود اپنی شناخت قائم کرنے میں ناکام ثابت رہا اور اس وقت لوڈ کیرئیر پر اپنا روز گار کمانے پر مجبور ہوگیا ہے۔قابل ذکر ہے کہ محکمہ اعلی تعلیم میں دو دہائیوں سے عارضی بنیادوں پر تعینات سینکڑوں لیکچرار اس وقت در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہورہے ہیں۔