جموں میں اگلے چھ ماہ کیلئے سیول سیکریٹریٹ کے دفاتر کھل گئے ہیںتاہم ایک بارپھردربار موئو کا استقبال ملازم تنظیموں کی طرف سے احتجاج اور دھرنوں سے ہوا جو عرصہ دراز سے اپنے مطالبات کے حل کیلئے جدوجہد کررہی ہیں ۔سرمائی راجدھانی میں سیول سیکریٹریٹ اوراس سے منسلک دفاتر کھلنے کے پہلے روز ہی نان گزیٹیڈ پرپزنرز ویلفیئر فورم، آل جموں وکشمیر ایس آر ٹی سی ایمپلائز ایسو سی ایشن، محکمہ بجلی کے عارضی ملازمین ، ایس ایس اے اور رہبر تعلیم اسکیموں کے تحت تعینات اساتذہ اور جمو ں و کشمیر کے خدمت سنٹروں میں کام کررہے نوجونوانوں و دیگر ملازمین نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی دھرنے دیئے اور جلوس نکالے ۔ اگرچہ پولیس نے ان ملازم تنظیموں کی سیکریٹریٹ چلو کال کو ناکام بناتے ہوئے اندراچوک سے ہی انہیں واپس دھکیل دیا تاہم انہوں نے مطالبات پور ے ہونے تک احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنے کا انتباہ دیاہے اورآئندہ دنوں سیول سیکریٹریٹ کی طرف ملازمین کے مارچ اور پولیس کی طرف سے ان کے خلاف کارروائی کے واقعات سامنے آتے رہنے کا اندیشہ برقرارہے ۔سیکریٹریٹ کی جموں منتقلی کے دوران پہلی مرتبہ ہی یہ صورتحال سامنے نہیں آئی بلکہ ماضی میں ہر بار ایسا ہی ہوتاآیاہے اور ملازم تنظیموں کی طرف سے اپنے مطالبات پر دربار کھلنے پر مظاہرے اور احتجاج ہوتے رہے ہیں ۔بدقسمتی سے یہ بھی ایک روایت بن چکی ہے کہ جب تک ملازم سراپا احتجاج نہ ہوں اور ان پر پولیس کی لاٹھیاں نہ برسیں تب تک ان کے مطالبات کو سننے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی اورپھر اگر مطالبات سن کر انہیں حل کرنے کا یقین دے بھی دیاجائے تو ان کے پورے ہونے کیلئے مسلسل دبائو کی ضرورت رہتی ہے وگرنہ حکام چند دنوں کے اندر ہی اپنی یقین دہانیوں کو فراموش کردیتے ہیں اورمجبوراًملازمین کو احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ دوبارہ سے بحال کرناپڑتاہے ۔حکام کی طرف سے وقتی طور پر ہڑتال کو ختم کروانے کیلئے اقدامات تو کئے جاتے ہیں مگرمطالبات کے حل کے حوالے سے کوئی مربوط لائحہ عمل یا پالیسی مرتب نہیں کی جاتی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ ہڑتال اور احتجاجی دھرنے ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ۔جہاں عارضی ملازمین اپنی ملازمت کو باقاعدہ بنانے اور بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے سراپا احتجاج بنےرہتے ہیں وہیں مستقل ملازمین تنخواہوں میں تفاوت ودیگر مطالبات کے حق میں وقت وقت پراحتجاج کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں مگرحقیقی صورتحال یہ ہے کہ عارضی ملازمین کو نہ ہی بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کی یقین دہانیوں پر عمل درآمد ہواہے اور نہ ہی انہیں مستقل ملازمت کے دائرے میںلانے کے وعدے وفا ہوئے ہیں۔اسی طرح سے مستقل ملازمت کے زمرے میں آنے والے ملازمین بھی متعدد معاملات پر حکام سے ناخوش ہیں ۔یہاں یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ آخر کب تک ملازم تنظیموں کو اپنے حقوق اور مطالبات کیلئے سڑکوں پر آکر احتجاج کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔اس طرح نہ صرف معمول کی زندگی متاثر ہوتی ہے بلکہ متعلقہ محکمہ جات کے کام پر بھی بُرا اثرپڑتاہے،نتیجتاًعوام کو مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ باربار کے احتجاج ، ہڑتالوں ،مارچ اور دھرنوں پر پولیس کے ذریعہ بزور طاقت قابو پانے کے بجائے ملازم طبقہ کے جائز مطالبات کے حل کیلئے ایک مربوط پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے ۔امید کی جانی چاہئے کہ ریاستی گورنر ماضی میں کی گئی غلطیوں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ ایک خوشحال مستقبل کیلئے حکمت عملی وضع کرکے اس پر عملی سطح پر اقدامات کریں گے اور ملازم طبقہ کے جائز مسائل کا ازالہ کیاجائے گا۔