اپنے بچوں کے ساتھ بھرپور وقت گزاریںکہ یہی آپ کی سرمایہ کاری ہے اور بڑھاپے کا سہارا بھی’’آج آپ پانچ دفعہ پیغام بھجوانے کے بعد ملنے آئی ہیںـ‘‘۔
’’ڈاکٹر احمد! آپ کو پتہ تو ہے کہ میری نوکری کی نوعیت ہی ایسی ہے کبھی اس شہر تو کبھی اس شہر، کبھی میٹنگ تو کبھی سیمینار، وقت ہی نہیں ملتا کہ اشعر کے اسکول آئوں۔ ویسے مجھے آنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ میرا بیٹا ہے ہی اتنا ذہین تو اس کو بھلا آپ کے پاس سیشن کے لیے آنے کی کیا ضرورت؟‘‘
’’مگر اس بار ایسا نہیں ہے، کیا پچھلے چند ماہ سے آپ کو اس کی شخصیت میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی؟‘‘
’’میں نے تو ایسا کچھ بھی محسوس نہیں کیاـ‘‘۔
’’یا پھر آپ کو محسوس کرنے کا وقت ہی کہاں ملا ہوگا!!! خیر یہ ویڈیو دیکھیں۔ یوں تو ہمارے اسکول کے اصولوں کے خلاف ہے کہ ہم کسی بھی بچے کے ساتھ سیشن میں ہونے والی ذاتی باتیں کسی اور پر افشا کریں لیکن کیونکہ آپ ماں ہیں اور شاید اس مسئلے کو حل بھی کر سکیں۔ اس لیے اس ساری ویڈیو کو دیکھیں اور اس کرب کو محسوس کریں، جس میں آپ کا بیٹا مبتلا ہے‘‘۔
’’اشعر بیٹا! آپ کی کلاس ٹیچر کہہ رہی تھیں کہ آپ آج کل بہت غصہ کرنے لگے ہیں، ان سے بدتمیزی کرتے ہیں، اپنے دوستوں سے بھی جھگڑتے ہیں۔ کل تو آپ نے اپنے دوست کو مار مار کر لہولہان کر دیا۔ وین والے انکل سے بھی تلخ کلامی کی۔ آپ ایسے تو نہیں تھے۔ بولیں… ایسا کیوں ہے؟ اشعر میں آپ سے پوچھ رہا ہوں‘‘۔
سر! جب کوئی میرا ہے ہی نہیں تو کسی سے باتیں کیوں کروں؟ کسی کے بھی ساتھ نرمی سے پیش کیوں آئوں‘‘؟
’’بیٹا! ایسے نہیں کہتے۔ آپ کے امی ابو دوست سب آپ سے پیار کرتے ہیں‘‘۔
جی نہیں سر! آپ کن امی ابو کی بات کر رہے ہیں؟ جن کی شکل دیکھنے کے لیے مجھے ویک اینڈ کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ امی کے پاس جائوں تو وہ تھکاوٹ کا کہہ کر ابو کے پاس بھیج دیتی ہیں اورابو کی نظر میں تو میری کوئی اہمیت ہی نہیں۔ جب بھی میں کوئی کام کرتا ہوں تو اکثر میری توہین اور سرزنش کردیتے ہیں۔ کسی کام میں مجھے شریک نہیں کرتے اور اگر میں خود سے کچھ اچھا بھی کروں تو اس میں کیڑے نکالتے اور دوستوں کے سامنے میری بے عزتی کردیتے ہیں۔ اپنے آپ پر مجھے اعتماد نہیں۔ جائوں تو کس کے پاس؟ کام والی رضیہ بھی اب میرا خیال نہیں کرتی، سارا دن میری چھوٹی بہن کو سنبھالتی ہے اور میرا کھانا میز پر لگا جاتی ہے۔ میں اکیلا کیا کروں‘‘؟
’’بیٹا! آپ پڑھائی پر دھیان دیں اور آپ کے پاس تو ڈھیروں کھلونے ہیں، ان سے کھیلا کریں‘‘۔
پیسہ پیار کا نعم البدل نہیں
مانا کہ جب مائیں زیادہ اچھا کماتی ہیں تو وہ بچوں کے کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ اور مہنگی سے مہنگی اشیاء خریدنے کے قابل ہوتی ہیں، لیکن مہنگی اشیاء محبت و توجہ کا نعم البدل نہیں۔ اگر آپ ان سب چیزوں کے ساتھ ساتھ اُسے وقت نہیں دیں گی تو یہ سب بےکار جائے گا۔ اس کے برعکس اگر آپ انھیں سستی چیزیں پہنا ئیں لیکن ان کے ساتھ رہیں اور گھر کا بنا سادہ کھانا بھرپور پیار اور محبت سے کھلائیں تو اس کا اثر ان کی شخصیت پر بہت مثبت ہو گا۔
عام طور پر نوکری کرنے کا ایک یہ جواز بھی بنایا جاتا ہے کہ تعلیم حاصل ہی کس لیے کی اگر ہم نے نوکری نہیں کرنی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تعلیم کا مقصد عقل، شعور اور فہم و فراست حاصل کرنے کے ساتھ اپنے خاندان اور اولاد کی اچھی تربیت کرنا ہوتا ہے تا کہ اچھے پیسے کمانا۔ پیسے تو خواتین زندگی کے کسی بھی حصے میں کما سکتی ہیں۔ گھر رہ کر بھی کام کر سکتی ہیں لیکن اولاد میں پیدا ہو جانے والی احساسِ کمتری کو کبھی ختم نہیں کر سکتیں۔ ایک اندازے کے مطابق صرف ۱۰۰ میں سے ۲ ملازمت پیشہ مائیں ایسی ہوتی ہیں جن کے بچے کامیاب اور اچھے انسان بنتے ہیں ورنہ عموماً مائوں کی لاپروائی بچوں کا مستقبل تاریک کر دیتی ہے۔ اولاد جیسی نعمت کی بے قدری یا ان کے سلسلے میں غفلت سے کام لے کر آپ اپنے ساتھ ساتھ ملک و قوم کا مستقبل بھی تباہ کر دیتی ہیں۔ اس لیے کل کو پچھتانے سے بہترہے آپ آج تھوڑی سی قربانی دے لیں۔ اپنے آج کے لیے کل کو داؤ پر مت لگائیں۔