روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار کے بارے میںجتنا کچھ کہا جائے، پھر بھی وہ تفصیلات ان کے مصائب کی حقیقی منظر کشی سے قاصر ہوںگی۔ ان بد نصیبوںکی بابت جتنے وڈیو کلپس اور جس قدر تصاویر منظر عام پر اب تک آگئی ہیں وہ اس عذاب کی حقیقت کی جزوی ترجمان ہوسکتی ہیں جن سے وہ میانمار اور دارالہجرہ میں دو چار ہوئے ہیں۔ میرے اس دعوے کو سمجھنے کیلئے ایک مثال کافی ہوگی جس سے آپ میانمار کے ایک انسان کے حقیقی دُکھ درد کو محسوس کرسکتے ہیں۔ تصور کیجئے کہ اللہ نہ کرے آپ کے بیٹے کو آپ کے ہاتھ سے چھین کر آپ کی آنکھوں کے سامنے آگ میں ڈال دیا جائے اور وہ تڑپ تڑپ کر دیکھتے ہی دیکھتے راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائے۔ یہ مثال مبالغہ آمیز نہیں بلکہ حق اور سچ پر مبنی ہے کہ یہ تصویر ورہنگیا کے خلاف روا رکھے گئے جبر و تشدد کی کل حقیقت کا ایک معمولی سا حصہ ہےاور مظلوم ومقہور مسلمانوں کے ساتھ پیش آنے والے والے بھیانک مظالم کا ایک معمولی سا نمونہ ہے۔سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ نے اس بدترین انسانی بحران کے مختلف پہلوؤں کو پیش کرنے کی جو کوششیں کی ہیں، اُس نے اس المیے کو ہمارے لئے گویا ایک عام خبرکا عنوان بناکر رکھ دیا۔ ان ٹی وی مناظرکے حوالے سے عرض ہے کہ انہوں نے ہمیں پناہ گزینوں کے کیمپوں میں درد وکرب کی ماری کسی ماں کے آنسو دکھائے جو اپنے پورے خاندان کی ہلاکت پر بہا رہی تھی کہ کم نصیب خاندان کا ایک ایک فرد اس کی آنکھوں کے سامنے بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا۔ ابھی ہم اس درد کی ٹیس کو کنٹرول بھی نہیں کر پائے تھے کہ ٹی وی نے ہمیں ایک دوسرا منظر دکھایا جو سراسر تفریحی فوٹیج کا نمونہ تھا۔ اس متضاد صورت حال سے ہمارے آنسو اور دکھ درد تفریحاتی مناطر میںخلط ملط ہوںتو روہنگیا کاالمیہ کہاں ہمارے ذہن اور ضمیر میں اُجاگر ہوگا۔
روہنگیا کے مذہب سے قطع نظر اُن کے نسلی انتساب اور سیاسی مسائل سے ہٹ کر بھی اگر دیکھا جائے، غور کیا جائے تو یہ بات بخوبی سامنے آتی ہے کہ روہنگیا کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ انسانیت کی پیشانی پر بدنما داغ ہے۔ یہ انسانی حقوق کی علمبردار جماعتوں، تنظیموں اور انسانوں کے منہ پر زبردست طمانچہ ہے۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ روہنگیا لوگوں کے ساتھ جبر و تشدد کی سرپرست خاتون کو نوبل امن ایوارڈ عطا کردیا گیا۔ گویا اس خاتون کو بے قصور انسانوں کے قتل کا اجازت نامہ دے دیا گیا۔انسانی ضمیر کو نام نہاد امدادی اسکیموں کے ذریعے خاموش کرنا مسئلے کا حل نہیں۔ امدادی عمل بجائے خود اہم ہے لیکن اس سے مصیبت کے ماروں کے دکھ اور مصائب ختم نہیں ہوسکتے۔ جب بھی مسئلے کے ظاہری حالات پر توجہ مرکوز کی جائے گی اور مسئلے کو جڑ سمیت حل کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی ،تب تب صورت حال دھماکہ خیز بنے گی۔ میرا کہنا تو یہ ہے کہ عالمی نظام چلانے والے ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو ٹھوس بنیادو ںپر حل کرائیں۔ آنے والا مورخ اُن کی اس غفلت شعاری کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ چین ، امریکہ، روس اور یورپی یونین میں شامل ممالک میانمار کی حکومت پر سیاسی حل تھوپ سکتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کررہے ۔اگر آپ مجھ سے مسلم ممالک اور اسلامی تعاون تنظیم کی بابت دریافت کر یں تو میں یہی کہوں گا کہ ایسے ممالک کو اس قسم کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرانا جو خود 21؍ویں صدی میں انسانی مسائل کا شکار ہوں، قرین انصاف نہیں۔ یہ ممالک جب جب امدادی اور سیاسی اعتبار سے کسی کام کا عَلم بلند کرتے ہیں تو ایسے ممالک جن کے ہاتھ میں مسائل کا حل ہوتا ہے ،وہ ان کے سامنے دیوار چین بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ او آئی سی کے ماتحت اقتصادی، سماجی و تربیتی تحقیقی مرکز” سسرک“ نے اعدادوشمارجاری کرکے بتایا ہے کہ پوری دنیا میں پناہ گزینوں کی 61.5فیصد تعداداو آئی سی کے رُکن ممالک سے تعلق رکھتی ہے۔71فیصد لوگ جنہیں امداد کی اشد ضرورت ہے، ان میں سے 8.9ملین کا تعلق بھی او آئی سی سے ہے۔ پناہ گزینوں کی سب سے زیادہ مدد کرنے والے 10بڑے ممالک میں 7کا تعلق مسلم دنیا سے ہے۔میں ایک عام مبصر ہوتے ہوئے مسلم اُمہ کے خلاف سازش کی بات کرنے کا مجاز نہیں، البتہ میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی دنیا ان دنوں جن مصائب سے دوچار ہے ،ان سے اللہ تعالیٰ اور افرادی قوت کے فرو غ کے سوا کوئی اور طاقت نہیں نکال سکتی۔ اس کے علاوہ جو بھی حل پیش کئے جائیں گے وہ وہم ہیں۔ اگر آپ کے یہاں علمی ، فکری اور ہنر کے لحاظ سے آراستہ انسان نہیں ہوں گے، اگر آپ کے یہاں مثبت شکل میں کام کرنے والے نہیں ہوں گے تو مسائل حل نہیں ہوں گے۔ اسی لئے میں پورے اعتماد سے کہتا ہوں کہ مسلم دنیا کے مسائل کے حل کی تمام تر ذمہ داری اساتذہ کے کندھوں پر ہے۔ احقر ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ ماضی میں انہوں نے کیا کچھ کیا مگر تاریخ ان سے مستقبل کے حوالے سے احتساب ضرورت کرے گی۔ یاد رکھئے کہ کوئی بھی ملک ایسا نہیں جس کے بارے میں یہ گارنٹی دی جاسکتی ہو کہ وہ روہنگیا جیسے آفات و مصائب کے شکار ممالک کی فہرست سے خارج ہے یا آئندہ رہے گا۔