مقدس پیشے میں کاروباری نظام کے لچَھن! | شعبۂ طِب میں غیر ذمہ داری اور اخلاقی بحران کی صورت ِ حال

Towseef
6 Min Read

حسبِ حال

ملک توفیق حسین

جموں و کشمیر میں صحت کا شعبہ، جو کبھی انسانی خدمت کا مظہر ہوا کرتا تھا، آج ایک پیچیدہ کاروباری نظام کا حصہ بن چکا ہے۔ ہسپتال جو کہ مریضوں کے لیے امید کی جگہ ہوتے ہیں، وہاں اب مایوسی، بے رخی اور غیر ذمہ داری کا عالم ہے۔ آئے دن جو خبریں وادی کے مختلف ہسپتالوں سے سننے کو ملتی ہیں، وہ نہ صرف افسوسناک بلکہ نظام کی جڑوں میں پڑتی دراڑوں کا واضح ثبوت ہیں۔ میں اپنے مشاہدے کی بنیاد پر بات کروں تو میرے والد صاحب پلوامہ ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ میں نے خود دنوں نہیں بلکہ ہفتوں تک یہ صورتحال قریب سے دیکھی کہ کس طرح وہاں ایمرجنسی وارڈ میں اصل علاج پوسٹ گریجویٹ (PG) اسٹوڈنٹس کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ ان نوجوان ڈاکٹروں کو مقامی زبان یعنی کشمیری نہیں آتی ہے اور نہ ہی وہ ہمارے بزرگوں کی بات سمجھنے کے اہل ہوتے ہیں۔ کئی بار میرے والد کے عمر کے مریض بے بسی سے کہتے،’’ڈاکٹر صاب میہ چھ میادس توس باسا ن‘‘ یا پھر’’راتہ پئٹھ چھم انہ گوٹ بآسانی‘‘ ( وہ اپنی حالت اُسے بتانا چاہتا ہے، لیکن اُسی بات کو اردو زبان میں سمجھانا ان کے لیے ناممکن ہوتی ہے) اب آپ خود سوچئے کہ جب مریض اور معالج کے درمیان زبان کا پل ہی نہ ہو، تو تشخیص کیسے ممکن ہے؟ اور اگر تشخیص ہی کمزور ہو، تو علاج تو سراسر اندازے پر مبنی ہو گا۔مریض اندر سے امیر خسرو کا یہ شعر گنگناتے ہونگے ؎

زبان یار من ترکی و من ترکی نمیدانم
چه خوش بودی اگر بودی زبانش در دهان من
My beloved’s tongue is Turkish & I don’t know Turkish How lovely would it be, if her tongue was in my mouth

اصل مسئلہ صرف زبان کا نہیں بلکہ سینئر ڈاکٹروں کی غیرحاضری بھی ہے۔ جنہیں وارڈ میں ہونا چاہئے، وہ یا تو اپنے پرائیویٹ کلینک پر بیٹھے ہوتے ہیں یا پھر کسی نجی ہسپتال میں مصروف۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہسپتال کے اصل مریض اُن کے تجربے سے محروم رہتے ہیں اور سارا بوجھ نو آموز PG اسٹوڈنٹس پر آ جاتا ہے حد تو یہ ہے کہ اگر کوئی مریض کسی اور لیبارٹری سے ٹیسٹ کرواتا ہے تو ہسپتال کا ڈاکٹر اسے قبول نہیں کرتا۔ وہ بضد ہوتا ہے کہ ٹیسٹ اُس مخصوص لیب سے کرایا جائے جس سے اُسے ممکنہ طور پر کمیشن ملتا ہے۔ دواؤں کے معاملے میں بھی یہی حال ہے وہی کمپنیاں جن سے مفاد وابستہ ہوتا ہے، اُن کی مہنگی دواؤں کی فہرست مریض کے ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے، چاہے سستی اور مؤثر دوا دستیاب ہی کیوں نہ ہو یہ بات ماننے والی ہے کہ بعض مریض غصے میں آکر ڈاکٹروں سے بدتمیزی کرتے ہیں یا ہاتھا پائی پر اُتر آتے ہیں، جو کسی بھی لحاظ سے قابلِ حمایت نہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ روزانہ کتنی قیمتی جانیں اس نظام کی غفلت کی نذر ہو رہی ہیں؟اُن معصوم مریضوں کا کیا قصور جو محض اس لیے جان سے جاتے ہیں کہ وقت پر علاج نہیں ہوا یا ذمہ دار شخص موجود نہیں تھا؟ ہمارے معاشرے میں دو شعبے ایسے تھے جنہیں ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ’’تعلیم اور صحت ‘‘یہ وہ میدان تھے جنہیں عبادت سمجھ کر اپنایا جاتا تھا۔ بدقسمتی سے آج یہ دونوں شعبے بڑے پیمانے پر بزنس بن چکے ہیں۔ پیسہ کمانے کی دوڑ میں نہ طالب علم محفوظ ہے نہ مریض۔ تعلیم کے میدان میں کوچنگ سینٹروں نے پیسے کی بنیاد پر قابلیت ناپنی شروع کر دی اور صحت کے شعبے میں دواؤں اور لیب ٹیسٹس نے مریض کو ایک ’’گاہک ‘‘بنا دیا ہے۔حکومت وقت کو بھی ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ صرف اعلانات اور پالیسیوں سے کچھ نہیں ہوتا، زمینی سطح پر تبدیلی لانا ہوگی۔ سرکاری ہسپتالوں میں حاضری کے باقاعدہ نظام، زبان کی تربیت، اخلاقی تربیت، اور شفاف دوائی و لیب پالیسی جیسے اقدامات از حد ضروری ہو چکے ہیں۔ڈاکٹروں کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اگر وہ انگریزی نہ بھی بول سکیں تو کوئی بات نہیں، لیکن اخلاقیات اور رحمدلی کا مظاہرہ ضرور کریں۔ ایک نرم لہجہ، ایک ہمدرد نگاہ اور ایک خلوص بھرے جملے سے بھی مریض کا آدھا علاج ممکن ہو سکتا ہے اور مریضوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھیں، نظام سے شکایت کریں لیکن کسی بھی حال میں تشدد یا بدتمیزی کا راستہ اختیار نہ کریں۔آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہم میڈیکل کو کاروبار اور مریض کو صرف گاہک سمجھنے لگے، تو اللہ کی رحمت ہم سے دور ہو جائے گی۔ ہمارے سامنے جان دینے والوں کی فریاد بھی سنائی نہ دے گی۔
[email protected]

Share This Article