میم دانش
امرناتھ جی کی غار، جو کہ جموں و کشمیر کے عظیم ہمالیہ پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے، ہندو مذہب کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ اس غار میں ہر سال قدرتی طور پر برف سے شیو لنگ بنتا ہے جسے بھگوان شیو کا ظہور مانا جاتا ہے۔ ہر سال ہزاروں عقیدت مند اس کٹھن اور روحانی سفر’ امرناتھ یاترا‘ پر روانہ ہوتے ہیں تاکہ اس برفانی تجلی کو خراج عقیدت پیش کرسکیں۔امرناتھ جی کی یہ غار سطحِ سمندر سے تقریباً ۱۲،۶۵۷ فٹ کی بلندی اور کشمیر کے دارالخلافہ سرینگر سے ۱۴۱؍ کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے ۔یہ نہ صرف مذہبی عقیدے کی گہرائیوں کو ظاہر کرتا ہے بلکہ ہندو اور مسلمان برادریوں کے درمیان باہمی تعاون اور بھائی چارے کی ایک خوبصورت مثال بھی پیش کرتا ہے۔
امرناتھ جی کی اہمیت ہندو اساطیر میں گہرائی سے پیوست ہے۔ روایت کے مطابق یہی وہ غار ہے جہاں بھگوان شیو نے اپنی اہلیہ دیوی پاروتی کو امرت (امر ہونے) کا راز بتایا تھا۔ اس بات کو خفیہ رکھنے کے لئے، شیو نے تمام دنیوی عناصر کو چھوڑ دیاتھا۔کہا جاتا ہے کہ شیو نے ’’کالاگنی‘‘ نامی آگ پیدا کی تاکہ کوئی جاندار راز کو نہ سن سکے۔ مگر ایک جوڑا کبوتر اس راز کو سننے میں کامیاب ہو گیا اور یوں اُن کبوتروں کو یہ امرت حاصل ہوا۔ آج بھی بہت سے زائرین اس مقام پر ان کبوتروں کو دیکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں جو شدید سردی کے باوجود بھی زندہ ہوتے ہیں۔غار میں ہر سال نمودار ہونے والا شیو لنگ’’سویَم بھو‘‘ یعنی قدرتی طور پر ظاہر ہونے والا مانا جاتا ہے۔
اگرچہ امرناتھ جی کی کہانیاں قدیم زمانے سے ہیں لیکن اس یاترا کی تاریخ کا تحریری ذکر ۱۱؍ویں صدی میں ’’راج ترنگنی‘‘ (کلہن کی تحریر) میں ملتا ہے۔ جدید دور میں اس غار کی دوبارہ دریافت ۱۵؍ویں صدی میں ہوئی اوریہ ایک مسلمان چرواہے ’’بوٹا ملک‘‘ سے منسوب ہے۔روایت کے مطابق بوٹا ملک کو ایک درویش نے کوئلوں کی ایک تھیلی دی جو گھر پہنچنے پر سونے میں تبدیل ہو گئی۔ جب وہ دوبارہ درویش کو تلاش کرنے واپس گیا تو اسے درویش کی جگہ امرناتھ کی غار اور اس میں برف کا شیو لنگ ملا۔ اس دن سے یہ غار مقدس مانا جانے لگا اور بوٹا ملک کے خاندان کی نسل در نسل یاترا کے انتظام میں اہم خدمات انجام دینے لگی جو آج تک جاری ہیں۔
امر ناتھ جی یاترا ہر سال ہندو کیلنڈر کے مہینے شراون (جولائی تا اگست) میں منعقد ہوتی ہے۔ یہ سفر دو راستوں سے ہوتا ہے ایک پہلگام دوسرا بالتل جس کی لمبائی ۶۳ سے ۸۴ کلومیٹر تک ہے۔ زائرین (یاتری) دشوار گزار پہاڑی راستوں، آکسیجن کی کمی، غیر متوقع موسم اور خطرناک چڑھائیوں کے باوجود اس مقدس غار تک پہنچتے ہیں۔یہ یاترا صرف مذہبی فریضہ نہیں بلکہ روحانی تلاش اور عمر بھر کی ایک منفرد یادگار ہوتی ہے۔ اس کا انتظام شری امرناتھ شرائن بورڈ سنبھالتا ہے جو حکومت، فوج، پولیس اور مقامی رضاکاروں کے تعاون سے سکیورٹی اور سہولیات فراہم کرتا ہے۔
امر ناتھ یاترا کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ہندو مسلم ہم آہنگی کی روشن مثال ہے۔ کشمیر میں مختلف قسم کے تناؤ کے باوجود، مسلمان برادری اس یاترا کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔گھوڑے والے، پالکی بردار، سامان اٹھانے والے اور خیمہ لگانے والے اکثر مقامی مسلمان ہوتے ہیں جو یاتریوں کے ساتھ جذباتی رشتہ قائم کر لیتے ہیں۔کئی مسلمان خاندان سال بھر یاترا کا انتظار کرتے ہیں، نہ صرف روزی کے لئے بلکہ وہ اس خدمت کو روحانی عمل بھی سمجھتے ہیں۔دیہاتوں میں رہنے والے مسلمان یاتریوں کو پانی، پناہ اور طبی امداد فراہم کرنے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔ اس یاترا کو الٰہی مہمان نوازی کی علامت بھی مانا جاتا ہے۔
اگرچہ یاترا کی حفاظت ریاستی سکیورٹی ادارے کرتے ہیں لیکن مقامی مسلمان بھی زائرین کوخطرات سے خبردار کراتے ہیں جیسے زمین کھسکنے یا موسمی خطرات وغیرہ۔ قدرتی آفات کی صورت میں مسلمان اپنی جان جوکھم میں ڈال کر یاتریوں کو محفوظ رکھنے میں ہمہ تن جڑ جاتے ہیں اور ان کی بہادری کی کہانیاں عقیدت سے سنائی جاتی ہیں۔بوٹا ملک کی اولاد جو کہ مسلمان ہے، کو یاترا کی شروعات میں عزت سے یاد کیا جاتا ہے۔کشمیری مسلمان شعرا نے یاتریوں کی روحانیت اور استقامت پر نظمیں اور اشعار بھی کہے ہیں۔مختلف چیلنجز کے باوجود، اس زیارت کی روح قائم ہے اور ہر سال ہزاروں زائرین کشمیر کے لوگوں، ہندو ہوں یا مسلمان، کی مہمان نوازی کے ساتھ یادگار تجربات لے کر واپس جاتے ہیں۔
امرناتھ جی کا شیو لنگ صرف ایک قدرتی یا مذہبی مظہر نہیں بلکہ ایمان، قربانی اور بین المذاہب اتحاد کی جیتی جاگتی علامت ہے۔ غار میں شیو کی پاروتی سے سرگوشی، اس زیارت کی روحانی بنیاد ہے لیکن مسلمانوں کی محبت، خدمت اور تحفظ نے اس سفر کو ایک الگ ہی روح بخشی ہے۔ہندوستان جیسے ملک میں، جہاں ایسا تنوع موجود ہے، امرناتھ یاترا اس سچائی کو ظاہر کرتی ہے کہ جب ایمان باہمی عزت و وقار اور تعاون سے ملے تو وہ مذہب کی حدیں پار کر سکتا ہے اور یہی ہے ’’کشمیریت‘‘ کا اصل جوہر۔
[email protected]