اشفاق سعید
سرینگر //جموں وکشمیر کے پانیوں سے پیدا ہونے والی بجلی نہ صرف بیرون ریاستوں کو ملتی ہے بلکہ یہاں بجلی نہ ہونے کے باوجود بھی سمارٹ میٹروں کی تنصیب ہو رہی ہے جو کہ ملک میں کسی دوسری ریاست میں نہیں ہے۔ یہاں لگائے گئے پروجیکٹوں سے جموں کشمیر کو رائلٹی کے طور پر صرف 12فیصد بجلی مل رہی ہے ، مفت بجلی کی تو بہت دور کی بات ہے۔لیکن اب کی بار اسمبلی انتخابات کے آغاز سے پہلے سے جموں کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار مفت بجلی کی فراہمی کو فوقیت دی گئی ہے۔انتخابی منشور جاری کئے گئے ہیں اور مفت بجلی انکا نکتہ آغاز ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جموں کشمیر میں2023 میں فی کس سالانہ آمدنی کی شرح صرف 14.8فیصد ہے جو کہ بھارت کی سبھی ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں میں 27ویں نمبر پر ہے۔لیکن اسکے باوجود یہاں بجلی کا شعبہ پیسہ کھانے والا سفید ہاتھی کہلایا جاتا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ دہلی میں قریب 10سال سے 200یونٹ بجلی مفت دی جارہی ہے۔ ہماچل پردیش، پنجاب، کرنا ٹک، تلنگانہ، راجستھان سمیت کئی ریاستوں میں بھی 200یا اس سے زیادہ یونٹوں تک لوگوں کو مفت بجلی فراہم کی جارہی ہے۔گوا اور کیرالہ اس میںنئے داخلے ہیں جنہوں نے 2020-21 میں بجلی کی سبسڈی کی پیشکش شروع کی، جبکہ سکم اور تریپورہ نے 2019-20 میں شروع کیا ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سبسڈی کی پیشکش کرنے والے 27 ریاستوں میں سے صرف 5 میں اخراجات میں معمولی کمی دیکھی گئی ہے، جب کہ گجرات، تلنگانہ، میگھالیہ اور جموں و کشمیر نے تین سال کی مدت کے دوران بجلی کی سبسڈی پر اپنا بجٹ یکساں رکھا ہے۔جموں وکشمیر پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن پچھلے 10سال سے اس بات کا دعویٰ کررہی ہے کہ وہ صارفین کو ہندوستان میں سب سے کم ریٹ پر فی یونٹ بجلی فراہم کررہی ہے لیکن یہ سچ نہیں ہے بلکہ بھارت میں سب سے سستی بجلی چھتیس گڑھ میں دی جارہی ہے اور ایک درجن سے زائد ریاستوں میں لوگوں کو مفت بجلی فراہم کی جارہی ہے۔اب ایسا لگ رہا ہے کہ جموں کشمیر کی مقامی سیاسی جماعتوں نے بجلی جیسے اہم مدعے پر توجہ مرکوز کی ہے اور انہیں بھی ایسا لگ رہا ہے کہ سمارٹ میٹروں کی تنصیب سے لوگوں کے جیب کھالی کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔بجلی فیس میں اضافہ اور کارپوریشن کی طرف سے سمارٹ میٹروںکی تنصیب دیہات اور شہروں میں لگاکر اس بات کو قطعی طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے کہ جموں کشمیر کے 70فیصد علاقوں میں موسم سرما میں کڑاکے کی سردی پڑتی ہے جہاں لوگ گرم آلات کا استعمال کرنے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔لوگوں کا کہنا ہے کہ جموں کشمیر کی خصوصی موسمی صورتحال دھیان میں رکھ کر یہاں بھی فلاحی ریاست کے تصور کیساتھ لوگوں کو 200یونٹ تک مفت بجلی فراہم کی جاتی تاکہ انکی مالی حالت زیادہ کمزور نہیں ہوجاتی۔اسمبلی انتخابات کے دوران مقامی سیاسی جماعتوں کی جانب سے 200یونٹ مفت بجلی کی فراہمی کا وعدہ لوگوں کو ضرور للچا رہا ہے۔اس ضمن میں ’ اپنی پارٹی‘ سربراہ سید الطاف بخاری سے سب سے پہلے پہل کی اور 200یونٹ فری الیکٹرسٹی فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ اب نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے بھی 200 یونٹ مفت بجلی دینے کی یقین دہانی اپنے انتخابی منشور میں کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ محکمہ بجلی جس شدت کیساتھ لوگوں پر بجلی چوری کا الزام لگاکر انکے گھروں میں دن کے اجالے اور رات کے اندھیرے میں گھستے ہیں،سیاسی جماعتوں کی جانب سے اقتدار میں آکر لوگوں کو مفت بجلی کی راحت دینے سے کون سا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا۔عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ انتخابات کے دوران بجلی کی مفت فراہمی بہت بڑا مدعا بن گیا ہے اور ہر ایک مقامی سیاسی جماعت نے اپنے چناوی منشور میں اسے پہلا نکتہ بنایا ہے۔یاد رہے کہ این ایچ پی سی کے پاس ملک بھر کے25 پاورہاوسز سے 7144.20 میگاواٹ پیدا کرنے کی صلاحیت ہے جس میں سے جموں وکشمیر سے 2160میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے ،جبکہ 3015میگاواٹ کے بڑے منصوبوں پر کام جاری ہے اور کل ملا کر ملک کیلئے 50فیصد بجلی یعنی5000میگاواٹ صرف جموں وکشمیر سے حاصل کی جا رہی ہے، لیکن اس کے باوجود بھی یہاں بجلی کا بحران رہتا ہے ۔