روئے زمیں پر کئی ایسے بادشاہ ہوگذرے ہیں جنھوں نے کامل فقیروں کے آستانوں پر حاضریاں دیں سجدے کئے اورمرادیں پائیں۔ کسی فقیرکامل نے مطلب براری کیلئے بادشاہ وقت کے آگے ہاتھ پھیلایا ہو ایسی کوئی مثال نہیں ۔ خدارسیدہ فقیرسوائے رب العالمین کے کسی اورکے درپرسجدہ کرے یہ ناممکن امرہے ۔پاگل جانوروں کے کاٹے لوگوں کے مسیحا بابا فیض بخش شاہ بھی ایسے ہی خدارسیدہ فقیرتھے جن کی متبرک درگاہ مندروں کے شہرجموں سے 30 کلومیٹر کی دوری پراکھنورکے آگے جوڑیاں ۔پلانوالہ سڑک کے کنارے دائیں طرف گوڑہ براہمناں (بل باغ ) گائوں میں مقام شفا کادرجہ رکھتی ہے۔اس درگاہ میں ابدی نیند سورہے’’ حضرت فیض بخش شاہ بخاری ‘‘کی جائے پیدائش، سن پیدائش یاسن وفات بارے کوئی مصدقہ جانکاری یاکوئی تورایخی ثبوت دستیاب نہ ہے۔ اس فقیرکامل کے خاندان کے کسی فرد، کسی مرید یادرگاہ کے گدی نشینوں میں سے کسی شخص نے درگاہ میں مدفون درویش بارے کھوج کرنے ، مواداکٹھاکرنے کی طرف دھیان نہ دیاہے۔ جوبھی تحریرکیاجارہاہے ، سینہ بہ سینہ سُنی سنائی یادداشت پراورآنجہانی سجادہ نشین درگاہ 9 سالہ ’محمدعبداللہ ‘‘ کی بیان کردہ کہانی پرمنحصر ہے۔ ایک خدارسیدہ درویش کاکہناہے کہ 470سال قبل بابافیض بخش شاہ کی پیدائش سعودی عرب میں ہوئی۔ بچپن اُدھرہی گذرا، خداپرستی کارجحان ورثہ میں ملا۔جوانی کی دہلیزپرقدم رکھتے ہی بخارہ چلے آئے۔عین جوانی کے عالم میں بخارہ کوخیربادکہہ، حق کی تلاش میں افغانستان سے ہوتے ہوئے سرزمین ہندپرقدم رکھے۔ ایک کہاوت مطابق لگ بھگ چارسوسال پہلے کچھ مست مولافقیروں کے ہمراہ ’’فیض بخش شاہ‘‘ جموں آئے۔موجودہ ’’ریہاڑ ی کالونی‘‘ میں تب ’رہاڑ‘ نامی درختوں کا جنگل ہواکرتاتھا۔ اسی جنگل میں بابافیض بخش شاہ اورساتھی فقیروں نے آن ڈیرہ لگایا اورعبادت الٰہی میں محورہنے لگا۔ ساتھی فقیرنزدیک دکاندارسے آٹادال نمک وغیرہ ادھار لاروکھی سوکھی کھاگذراوقات کرتے۔جب کوئی عقیدت مند کچھ چڑھاواچڑھاجاتا وہ پیسے دوکاندارکودے دیتے۔ خداکی قدرت بہت دنوں تک کوئی عقیدت مندنہ آیا۔اُدھار معمول سے زیادہ ہی ہوگیا۔ دوکاندارنے آ’’بابا فیض بخش شاہ ‘‘ سے اپنی رقم کاتقاضاکیا۔نہایت تحمل سے ’’بابا‘‘ نے کہا۔بھائی دوکانداراس وقت تجھے دینے کوتوکچھ ہے نہیں۔ البتہ کل شام تک پائی پائی اداکردی جائے گی۔ ذراتلخی سے دوکاندارنے کہا۔ ’’اس وقت ہے نہیں، کل کہاں سے آئیگا؟‘‘ فقیرنے جواب دیا’’تیری سوچ، تیری عقل سے اوپربھی کوئی طاقت ہے، وہ اللہ بڑاکارسازہے ، وہ بھیج ہی دیگا‘‘۔ اسی دن چندباولے (پاگل ) گیدڑوں نے بستی میں گھس لوگوں اورمویشیوں کوکاٹناشروع کردیا ، ہرطرف ہاہاکار مچ گیا۔لوگ لٹھ لئے انہیں مارنے دوڑے ، ایک پاگل گیدڑ فقیر کی جھونپڑی کی طرف بھاگاآیا، لوگ لٹھ تھامے اُس کاپیچھاکررہے تھے ، بابافیض بخش شاہ ، دِگرکی نمازکی غرض سے ’’باڑی‘‘ تھامے وضوکرنے جھونپڑی سے نکلا، وہ پاگل جانورآیا’’بابا‘‘ کے قدموں میں آن گرا۔ مانوزندگی کی بھیک مانگ رہاہو ۔ رحم دِل فقیرنے ’’باڑی ‘‘ کے پانی کاایک چھینٹا اُس جانور پرمارا، وہ پاگل جانوردرویش کے پائوں چاٹنے لگ گیا۔
یہ چمتکاردیکھ لوگ’’بابا‘‘ کے پاس آئے اورکہا۔’’اے فرشتہ ٔ رحمت ! ۔ایسے باولے جانوروں نے بستی میں انسانوں اورمویشیوں کوکاٹ کاٹ لہولہان کردیاہے ۔اُن پرکچھ کرم کیجئے‘‘۔ درویش نے کہا’’اِن پاگل جانوروں کاکاٹا جوبھی کل دوپہرتک ادھرآئیگا، خداکے فضل سے اُس پر ان جانوروں کے کاٹنے کااثرنہ ہوگا‘‘۔ یہ خبر سب طرف پھیل گئی۔ دوسرے دن سویرے ہی گیدڑوں کے کاٹے لوگ اورمویشی اوربابا کے عقیدت مند ، آنے شرو ع ہوگئے ۔ درویش فیض بخش شاہ نے اُسی مٹی کی باڑی کے پانی سے ان پر چھینٹے مارے، شفایابی کی دعارب سے کی۔ ہرشخص نے حیثیت اورعقیدت مطابق ایک آدھ سکہ فقیرکے قدموں میں رکھا۔ خاصی رقم جمع ہوگئی۔ دوکاندارکوبلوا، اس درویش نے حکم دیاکہ ’’وہ ادھارکی جملہ رقم معہ سوداٹھالے جاوے‘‘۔ باقیماندہ پیسے باقی فقیروں میں بانٹ سبھی کواپنی اپنی راہ پکڑنے کوکہااورخودخالی ہاتھ وہاں سے چل دریائے چناب کے کنارے آباد گائوں ’گوڑہ پتن ‘ آڈیرہ لگایا۔ ’’بل باغ ‘‘اکھنورکاایک بے اولاد ارائیں کافی عرصہ تک روزانہ دریائے چناب عبورکراُس درویش کودودھ پہنچاتارہا۔ وہی ارائیں اُس فقیرکو اپنے گائوں لے آیا۔ موجودہ مقبرہ والی جگہ ایک جھونپڑی بنوادی۔ جس میں فیض بخش شاہ وہ درویش عبادت میں مصروف رہتا۔ ایک روز دودھ کابرتن تھامے جب وہ ارائیں فقیرکے جھونپڑے میں داخل ہوا، فقیر کو حالتِ عرفان میں پا۔کئی سالوں سے دِل میں دباکر رکھی بات کہہ دی، ’’بارگاہ اِلٰہی سے میرے لئے اولاد کی دُعاکر‘‘ سمادھی ٹوٹنے پرفقیرنے کہا۔دعامنظورہوئی ۔پسرہوگا مگرماں باپ کا سایہ ایام طِفلی میں ہی چھوٹ جاویگا ‘‘۔ ارائیں نے اولادخاطربخوشی عوت قبول کی۔ ایک سال بعدایک چاندسے بیٹے نے جنم لیا۔ ارائیں نے بچہ فقیر کی جھولی میں ڈال دیا۔ بچے کے سرپرہاتھ رکھتے ہوئے بچے کو لوٹاتے بولا۔’’خداکی رس دین ‘‘ ۔مرادبخش ، کو امانت کے طور پاس رکھ، وقت آنے پر سنبھال لوں گا‘‘۔چارسال ہنسی خوشی سے گذرے ، ایک رات اچانک مکان گرا ،ارائیں اوراُس کی بیوی ملبہ میں دب اللہ کوپیارے ہوگئے ۔بچہ ، ’’مرادبخش‘‘ کوخراش تک نہ آئی۔کفن دفن کے بعد حضرت فیض بخش ؒ اُس یتیم بچے کواپنے حجرہ میں لے آئے۔روحانی دولت سے فیض یاب کر جانشین مقرر کر دیا ۔ دوران حیات بابافیض بخش بخاری ؒ نے اپنے جھونپڑے سامنے ایک کنواں کھدوایا۔ ایک بیری کاپیڑلگوادریائے چناب کے کنارے سے ایک بڑاسیاہ رنگ کاگول پتھرلابیری کے پاس رکھا۔ بعدازمرگ ، حسب ہدائت اُس کامل فقیربابافیض بخش شاہ بخاری کواُسی جھونپڑے میں
دفن کردیاگیا جس میں انہوں نے زندگی کابیشترحصہ یاداِلٰہی میں گذارہ ۔بنی نوع انسان کوبرابری بھائی چارہ کادرس دیا۔ اس فقیرکامل کے اعزازکے طورپریہ عالیشان درگاہ ، خوبصورت گنبدنما عمارت، مغلیہ عہدکے فن تعمیر، کاریگری، نقش نگاری کانادرنمونہ ، کب اورکس نے بنوائی دریں بارہ کوئی تحریریاواضح ثبوت نہ ہے۔ قدیم چترکاری ، عربی، فارسی میں لکھیں تحریریں وقت کے تھپیڑوں سے نابودہوتی جارہی ہیں۔درگاہ کی بناوٹ، گنبدکے اندرونی حصہ میں کی گئی نقش ونگاری قابل دیداورقابل تعریف ہیں۔ جب پاگل کتے یا دیگرپاگل جانور کاکاٹا کوئی فردشفایابی کیلئے اس درگاہ ’’مقام شفا‘‘ پرآتاہے تودرگاہ کامجاور اپناایک پائوں اس گول پتھرپراوردوسرابیری پررکھ کر اُسے سات باراپنی ٹانگوں کے نیچے گذار’’بابافیض بخش سے اُسی شفاوصحت کی دعاکرتاہے۔
ستیہ پال صراف اکھنور،ضلع جموں
ذات پات کی تفریق سماج کیلئے سم قاتل!
قارئین ہر زمانے اور ہر دورمیں ہر قوم کاکوئی نہ کوئی سردار،بادشاہ، سلطان، رہنما، رہبر، قاعد یا سالار ہواہے جو قافلہ قوم کو اپنی منزل مقصود تک پہنچاتا رہا ہے۔ ابتداء میں یہ سردار کے نام سے جاناجاتا تھا اور یہ خطاب اسے قبیلے میں اسے اس کی اعلیٰ انسانی صفات کی بنیاد پہ ملتاتھا۔ بعد میں جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا گیا ۔ انسانی سوچ وفکر میں تغیر آتا گیا اسی کے ساتھ ساتھ اس کی ذمہ داریوں میں تبدیلی اور اضافہ ہوتا گیا پھر اس کانام الگ الگ شعبہ جات کی ذمہ داریوں کی بنیاد پر کبھی سلطان ، بادشاہ ، رہبر ، کبھی سالار، قاعد اوریا پھر آج کے جدید دور میںرہنما کہلایا ۔ ابتداء میں اسکا مقصد انسانوں کی بہمی نزاع اورنفرت کو مٹانا تھا۔ یہی نہیں بلکہ قبیلوں کے انتظامی امور کا تعین کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ بھی اسی کے ہاتھ میں ہوتاتھا ۔ عوام کے ہر معاملے کو حل کرنے کی قوت بھی اسی کے ہاتھ تھی۔ اس کو عوام کے مفاد ونقصان کا پورا پورا خیال ہوتا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ سردار جب قبیلوں کے محدودحلقے سے نکلا تو بادشاہ سلطان یا شاہ کاروپ لے گیا اور ان کو یہ خطاب طاقت کی بنیاد پہ حاصل ہوا ۔ اب جب اسے بادشاہ کا خطاب ملا تو اس کی ذمہ داریوں میںاوراضافہ ہوااور اکیلے میں اسے یہ تمام کام سنبھالنے مشکل ہوگئے تو اس لئے اس نے وزیروں کا انتخاب کیا جو اسے انسانی مسائل سے جڑی سیاسی وسماجی ذمہ داریوں سے آگااہ اورصلاح ومشورہ کرتے ، لیکن وقت اور زمانے کی ترقی یافتہ افتاد کے سامنے اس کا یہ عمل زیادہ دیرپا ثابت نہ ہوا۔ اورآخر معاملہ آج کے دور کی جدید نوعیت کی رہنمائی تک پہنچا۔ آج کے دور میں ان کے چننے اورتعین کرنے کا طریقہ کار اسے قبل کے طریقہ کار سے بہت مختلف ہے۔ آج انہیں عوام کی دلچسپی اور غیر دلچسپی کی بنیاد پر چنا جاتاہے اورعوامی دلچسپی کا مظاہرہ انتخابی صورت میں ہوتاہے اورپھر وہاں سے جو اکثریت میں عوامی حیثیت اورپشت پناہی حاصل کرتاہے وہی رہنما مانا جاتاہے ۔ جہاں ایسے طریقہ کار نے بہت ساری پرانی اور رجعت وقدامت پرست چیزوں سے عوام کو چھٹکارا دلایاہے اورعوام کوانصاف کے لئے طریقہ اور مواقع دیئے ہیں وہیں بہت ساری برائیوں اورنفرتوں کوبھی جنم دیا ہے ۔ جس کا ثبوت پچھلے تقریباً ایک سو سال سے عالم انسانیت دیکھ رہی ہے ۔ اس سے قبل کہ نجی سطح پہ اس کا ثبوت پیش کروں میں ضروری سمجھتا ہوں کہ تھوڑی سے عالمی منظر نامہ پہ نظر ثانی کی جائے۔ تو قارئین ہمارے سامنے سب سے واضح مثال مشرق وسطی کی ہے جہاں ایسے نظام نے امریت پسند رہنماؤں کو جنم دیا جنہوں نے اپنی امریت کا بھرپور مظاہر پیش کیا ۔ اسی نظام نے عالم انسانیت کو سرحدوں میں قید کرکے تعصب اورنفرتوں کوجنم دیا ۔ اس نظام کی تقسیم کاری نے عالم انسانیت کو تہذیب وثقافت ، رسم ورواج ، شکل وصورت طورطریقے، زبان وبولی ، روایات ومذاہب اور علاقائی تشخص کے بعد میں ایسے بانٹ دیا کہ آج ہر قوم دوسری قوم کو طاقت کے بل پوتے پہ اپنے مفاد کے لئے کوئی بھی حربہ استعمال کرکے کام میں لارہی ہے ۔ جس سے مختلف مذاہب،بولی وزبان کے ماننے اور بولنے والے ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو اقتدار کی حوس نے جنم دیا ہے اوراقتدار کی ہوس کسی عام آدمی کو نہیں بلکہ ان رہنماؤں کو ہے ۔ اپنے اس اقتدار کے لئے یہ رہنما کوئی حربہ استعمال کرنے میں پچھلے نہیں ہٹتے بلکہ ایسے مواقعوں کی تلاش میں رہتے جہاں سے ان کی کرسی اقتدار کو مضبوطی ملے اس کے لئے یہ زمین کو سرحدوں میں تقسیم کرتے ہیں اور دنیا کو مذہب ، لسان، اور ذات پات میں تقسیم کرتے ہیں ۔ اسی کی مثال عرب، ترکی ، روس ، ہندوپاک وغیرہ میں ان کے اس عمل نے عوام کو اندھا کردیا ہے عوام کی سوچ کوناپاک کردیا ہے انسانی اقدار کو تباہ کردیا ہے انسانیت کے جذبے کو مذہب اورسرحد میں ایسے بانٹا ہے کہ ہرطرف ایک انتشاری اور استحصالی رویے پروان چڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو آج کے عالم انسانیت کے لئے خطرہ بن چکے ہیں۔ اس کے اثرات آج واضح طورپہو ہر شعبے اور ہرمعاملے میں دکھائی دیتے ہیں جہاں تک سوال ہے اس کے نجی سطح پہ اثرات کا تو قارئین اس طریقہ عمل نے عوام کو ایسے ماحول میں یہ پرورش پانے کے لئے چھوڑ دیا ہے جہاں سے ان کی ذہنی غذا ، نفرت ، تعصب اور ذات پات کی بنیاد پرتیار ہو۔ رہنما اقتدار حاصل کرنے کے لئے اس مظلوم ومعتوب عوام کوا پنے ہر ناپاک ارادے کو عملانے کے لئے کسی بھی وقت کسی بھی صورت میں استعمال کرتے رہتے ہیں جس سے عوامی اختلاف دن بہ دن تعصب ونفرت کی صورت میں بڑھتا جارہاہے۔ رہنماان کے ذات جذبات کو بڑھا کر دوسروں کے ذاتی حقوق کو پامال کرنے پہ مجبور کردیتے ہیں ان کی نفرت سے بھری تقریرں عوام جذبات کو بر انگیختہ کرتی رہتیں ہیں جس کارد عمل ملک کے اقلیتی طبقے کو ہر زمانے اور ہر دور میں جھیلنا پڑتا ہے ۔ اقلیتی طبقہ اکثر ان کے اس عمل کا شکار بنتا ہے اپنے املاق وآبرو سے بے نیاز کر دیا جاتاہے۔ ان تمام چیزوں کو انجام دے کر یہ رہنما اپنے آپ کو اکثریتی طبقے کاخیر خواہ ثابت کرنے میں تو کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن ملک کو ترقی کی نئی راہوں سے آشنا کرانے میں کسی بھی طرح کا میاب نہیں ہوتے جس کانتیجہ ملک غریبی اورافلاس کی صورت میں دیکھتا ہے۔ ان تمام وجوہات کا سبب یہاں کے نظر یہ سازوں کے پیش کردہ اصول ہیں وہ اس میں کسی بھی صورت میں تبدیل اورتغیر کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ نظریہ سازوں کے ساتھ ساتھ تعلیمی اسباق بھی ہے جو بھائی چارہ ، انسانی اقدار ، وحدانیت ، ترقی یافتہ خیالات سے بالکل عاری ہے ۔ ہماری عوام اکثررہنماؤں کو اُن کی اہلیت کی بنیاد پر نہیں چنتے بلکہ ان کے تحریب کارانہ اصولوں کی بنیاد پہ تعین کرتے ہیں دوسرا ہماری قوم میںذات پات امیر غریب کا تصور اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اچھے اور برے کافرق کرپانا ہمارے لئے بہت مشکل ہے ۔ حق وانصاف کو آج کے انسان کی کم ہمتی اور مظلومیت سے تعبیر کیاجاتاہے ۔ حق وانصاف کی بات کرنے والوں کو ہرمحفل ، ہر مجلس اور ہر حلقے میں ذلیل کیاجاتا ہے یہاں تک کہ انصاف مہیاکرانے والے ادارے بھی شک وشبہات کو بڑھاوا دینے میں پیش پیش ہیں ۔ ہر طرف مادیت پرستی کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں تو ایسے ماحول کے عوامی سوچ کو پرگندہ کردیاہے ان کی پراگندگی آج کے رہنماؤں کے اعمال بات چیت عوامی فلاح کے لئے اٹھائے گئے اقدامات ،ان کے عوامی خطابات کی صورت میں نمایاں ہورہے ہیں چونکہ اس نظام میںان کے لئے کوئی مخصوص تعلیمی حد بندی نہیں دکھی گئی ہے اس لئے یہ عوام کوکوئی حربہ یا اصول ناقص سامنے رکھ کر ان کی دلجوئی حاصل کرلیتے ہیں جس کا اثر بعد میں بے روگاری کی صورت میں دکھائی دیتا ہے ۔ ذات پات اوربولی وزبان اور مذہب کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرنے والے ان رہنماؤں کے سامنے کوئی مثبت لائحہ عمل نہیں ہوتا سوائے عوامی جذبات کو بر انگیختہ کرنے کے جو ان کی سیاسی لغت کاخاص الحاص مواد ہوتاہے۔ ایسے رہنماؤں کی وجہ سے آئے دن عوم طرح طرح کے مسائل سے جو جھ رہی ہے اوران کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہاہے فکر وسوچ کے پیمانے مفقود ہوتے جارہے ہیں ملک اندرونی سطح پہ کمزور ہوتا جارہاہے ایک ملک اندر سے کئی ملکوں کو جنم دے رہاہے ۔ ان تمام مسائل کا ذمہ داریہاں کی قیادت ہے جو اپنے مفادات کی خاطر ملک کو اور ملک میں بسنے والی عوام کو استعمال میں لاکر اپنے پراگندہ عزائم کی آبیاری کررہے ہیں۔ میرا ماننا ہے کہ آج بھی اگر یہ عوام صحیح وقت پہ صحیح فیصلہ لینا سیکھ لے تو اس طرح کے مسائل نہیں پیدا ہوسکتے یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم رنگ ونسل، قوم ومذہب اورذات پات سے اوپر اٹھ کر بہ صلاحیت لوگوں کو مواقع فراہم کریں گیں۔ عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ ملک وقوم کی ترقی کے پیش نظر اچھے اچھے لوگوںکو قیادت واقتدار کی ذمہ داریاں سونپے تاکہ ہم بھی ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ چلنے کے قابل بن سکیں۔
رخسارپروین…7051211938
سرنکوٹ ،ضلع پونچھ