Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
گوشہ خواتین

مقالاتِ حالیؔ۔ایک نادر ذخیرہ

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: October 28, 2021 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
14 Min Read
SHARE
سرزمین ہندوستان کو یہ عظمت اور رفعت حاصل ہے کہ اس کی درتی پر ایسے بلند و بالا شخصیات نے جنم لیاہے، جن کی ہمہ گیری مسّلم ہے اور جن کی پزیرائی دیر پا ہے۔ ماضی قریب کے ایسے ہی نفوس قدسیوں اور رجحان سازوں میں مولاناالطاف حسین حالیؔ کی شخصیت ایسی ہے جنھوں نے فکر و خیال میں انقلاب پیدا کیا اور آئندہ نسلوں کے لیے نشان راہ چھوڑ گیا جو انہیں اصل منزل کا پتہ دیتا رہا۔’’مسدس حالی‘‘ کے خالق مولانا حالیؔ اپنے زمانے کے ان نامور اصحاب میں سے ہیں جو مسلمانوں کی زبوں حالی پر خون کے آنسوں رو کر انہیں اس پستی سے نکالنے کی ہرممکنہ کوشش انجام دیتے تھے۔وہ بیک وقت سلیس اور سادہ بیان شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اہم تنقیدی سونچ کے مالک بھی ہیں۔ادبیات کی دنیا میں وہ جہاں ایک بڑی پہچان اور شناخت رکھتے ہیں وہیں  وہ ایک اچھی خاصی سیرت کے مالک بھی ہیں۔مولوی عبدالحق ان کی شخصی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے یوں دعویٰ کرتے ہیں:
’’مجھے اپنے زمانے کے نامور اصحاب اور اپنی قوم کے بڑے شخصوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔ لیکن مولانا حالیؔجیسے پاک سیرت اور خصائل کا بزرگ مجھے ابھی تک کوئی نہیں ملا۔ نواب عماد الملک فرمایا کرتے تھے کہ سرسیّد کی جماعت میں بہ حیثیت انسان کے  مولانا حالیؔ کا پایہ بہت بلند تھا۔‘‘
(بحوالہ چند ہم عصر)  
مولانا حالیؔ ایک فرشتہ صفت انسان تھے۔ وہ ایک بہترین نظم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ اردو نثر کے معمار ہونے کے حوالے سے بھی اہم ہیں۔ ان کی پہلی نثری تصنیف ’مجالس النساء‘ ہے۔ مجالس النساء ، حیات سعدی ، حیات جاوید، یاد گارِ غالب جیسی ممتاز نثری کتابوں کے علاوہ آپ درجنوں چھوٹے بڑے مقالوں کے مالک ہیں۔ان کے مقالات کو ’’مقالات حالی‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ یہ مقالات ۱۸۷۵؁ء سے لیکر۱۹۰۱؁ء تک کے زمانے پر محیط ہیں جو حالی نے سُپردِ قلم کیے۔ یہ انتہائی اہم اور قیمتی مقالات ہیں لیکن سوئے قسمت انہیں ادبی میدان میں کچھ حد تک نظر انداز کیا گیا ہے۔
جہاں تک مقالات حالی کا تعلق ہے تو اس کا پہلا مجموعہ مولوی عبدالحق کی تحقیق کے مطابق وحید الدین سلیم ؔ نے شائع کیا تھا۔ اس کے بعد تلاش بسیار سے کام لیکر شیخ اسماعیل پانی پتی نے مقالات حالی کو دو حصوں میں مرتب کیا۔۱۹۳۴؁ء میں انجمن ترقی اردو کی جانب سے مولوی عبد الحق نے ’’مقالات حالی‘‘ اپنے تین صفحے دیباچے کے ساتھ شائع کیا۔
مقالات حالی کے تعلق سے سب سے اہم قابل غور بات یہ ہے کہ ان کے مطالعے کے بغیر حالی کے جملہ احوال کے ساتھ ساتھ ان کے ادبی خدمات کے متعلق ہماری تشنگی بر قرار رہتی ہے۔حالی کے افکار و خیالات اور نظریات تک مکمل رسائی کے لیے مقالات حالی کا مطالعہ بے حد اہم اور ضروری ہے۔مقالات حالی کے مطالعے سے ان کے حالات و کوائف کے متعلق بھی جانکاری فراہم ہوتی ہے۔حالی کو تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔ لیکن ماں کی وفات سے جو ان کے دل پر چوٹ لگی اس کی تلافی کسی حد تک بھائی خواجہ امداد حسین اور بہنوں کے پیار اور شفقت نے کی۔ لیکن تعلیم حاصل کرنے کا جو والہانہ شوق اس کے دل کے نہاں خانوں میں پنہاں تھا وہ کسی حد تک من عن پورا نہ ہوا۔ مقالات حالی میں اس پر یوں معلومات فراہم ہوتی ہے:
’’اگر چہ تعلیم کا شوق خود میرے دل میں حد سے ذیادہ تھا مگر مجھے باقاعدہ اور مسلسل تعلیم کا موقع نہ ملا۔‘‘
(مقالات حالی، حصہ اول ، ص  ۲۶۲)
یہ تھی تعلیم و تربیت کی بات مقالات حالی کے حوالے سے۔حالی ایک فرشتہ صفت انسان تھے۔ ان میں شرافت ، خلوص اورہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں:
’’مولانا پرانے زمانے کے یاد گار لوگوں میں تھے۔ نہایت خلیق و ملنسار، حلیم الطبع اور سچے فدائی قوم تھے، دنیوی جاہ و ثروت کا خیال ان کے دل میں مطلق نہ تھا۔‘‘
اگر رام بابو سکسینہ کے ان الفاظ کو مقالات حالی کی کسوٹی پر تولا جائے تو مقالات حالی میں حالی اپنے خالق و مالک کے حضور یوں التجا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
’’الہٰی! تیرا کرم وسیع، تیری عنایت شامل، تیرا فیض عام، تیرے ہاتھ کشادہ، تیری نعمتیں سرمدی۔ تجھ سے کیا کیا مانگیں؟ اور کہاں تک مانگیں؟ تجھ سے دولت کونین پر راضی ہونا ایسا ہے جیسے بحر قلزم سے پیاسا پھرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
آنچہ  خواہندو  و  بیا بندو  نحوا  ہند  آنرا
ویں سخن  شمہ ای از ہمت درو یشسا نست‘‘
( مقالات حالی ، ص  ۹ا۔۱۰)  
مقالات حالی میں ایک مضمون ’’الدین یسر ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے۔اس میں حالی نے بڑے ہی توازن اور اعتدال سے بغیر تعصب کے دین کے متعلق اپنے خیالات و نظریات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دین اپنی اصل کے اعتبار سے آسان ، سہل ، سادہ اور ہر انسان کے موافق ہے۔ اس میں جو دشواریاں آج نظر آرہیں ہیں وہ اصل میں شر پسند علماء و فضلا کی تاویلات اور تدقیقات کا ثمرہ ہے۔ ورنہ دین اسلام درحقیقت رحمت ہی رحمت ہے۔ اس مضمون کا ایک حصہ پیش خدمت ہے:
’’افسوس ہے کہ ہمارے علماء نے احکام ظاہری میں تعمق اور تدقیق کو اس قدر کام فرمایا کہ شریعت کا موضوع بالکل بدل گیا اور جس دین کی نسبت ، ’’الدین یسر‘‘ کہا گیا تھا، وہ الدین یسر کہنے کا مستحق ہوگیا۔ طہارت اور نجاست کی تحقیق میں اتنا کچھ لکھا گیا کہ انسان کی تمام عمر اس کے دیکھنے ، پڑھنے اور سمجھنے کے لیے کفایت نہیں کرسکتی۔ اگر فقط آمین اور رفع الیدین اور قرأت فاتحہ کی تحقیقات میں کوئی شخص اپنا تمام وقت صرف کرے تو اس کی عمر کا ایک بڑا حصہ اس میں تمام ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  امام شعرانی نے میزان میں لکھا ہے کہ ’’دین میں جتنی آسانیاں ہیں وہ خدا کی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہیں۔ اور جتنی دشواریاں ہیں وہ علما کی طرف سے ہیں ‘‘ واقعی یہ قول نہایت صحیح ہے کیوں کہ پم اپنے عہد کے علما کا حال ایسا ہی دیکھتے ہیں ۔‘‘
( مقالات حالی ، ص  ۷۸۔۷۹)  
حقیقت میں یہ انتہائی اہم تحریریں ہیں۔یہ ایسی فکر انگیز باتیں ہیں جنسے بلا شبہ انکار نہیں کیا جاسکتا۔مقالات حالی کا ایک اور اہم بصیرت افروز مضمون’’مسلمانوں میں عملی قوت کیوں نہیں رہی؟‘‘ہے۔ اس کے علاوہ انہوںنے تدبیر و توکل، حسب اور نسب، اصلاح معاشرت اور مسلمانوں میں خیرات و گداگری کے مسائل پربھی نہایت سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
حالی کے دل میں پوری ملت کا درد موجود تھا۔ وہ ملت کی ترقی و بقا کے انتہائی خواہش مند تھے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ وہ پوری ملت کی روحانی اور مادی استحکام چاہتے  تھے۔ انہیں ملت کی معاشی بہتری کا بھی خیال تھا وہ سمجھتے تھے کہ:
’’ملت کے سب طبقے ملازمت کے نہ اہل ہو سکتے تھے اور نہ سب کے لیے ملازمتیں دستیاب تھیں، اس لیے انہوںنے تجارت ، صنعت و حرفت اور دستکاری جیسے آداد پیشوں کو اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی۔‘‘
( مقالات حالی ، ص  ۲۷۴)  
آج عورتوں پر چلے آرہے صدیوں سے ظلم و جبر کا رونا رویا جاتا ہے کہ ا نہیں مساوی حقوق سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔لیکن مقالات حالی کا مطالعہ کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ حالی عورتوں اور مردوں کی مساوات کے دل سے قائل تھے اور اپنے زمانے کے لحاظ سے ترقی پسند نظریہ رکھتے تھے۔ انہوںنے لڑکیوں پر ہونے والے ظلم کی سخت مخالفت کی ۔اور شادی کے لیے لڑکی کی مرضی کو ضروری اہم اور ضروری گردانا۔اپنے ایک مضمون ’’قرون اولیٰ میں مسلمان عورتوں کی حق گوئی‘‘ میں یوں لکھا ہے:
عورتیں جنگ کے معرکوں میں شریک ہوتی تھی
اپنے جھتوں کا ساتھ دیتی تھی
فصیح و بلیغ خطابات دیتی تھیں، شاعری کرتی تھیں
مقالات حالی کا مطالعہ کرنے سے قاری پر یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ حالی کی نثر کو جو عام طور پر روکھی پھیکی کہا جاتا ہے ، بالکل بے بنیاد ہے۔ان مقالات و مضامیں میں حالی کی نثر نہایت شگفتہ ، شریں اور روان دواں ہے۔ان میں بعض ایسے مضامین بھی شامل ہیں جو انشاپردازی کے رنگ سے مملو ہیں۔ اس ضمن میں ’’مزاح‘‘ ’’زباں گویاں‘‘ اور ’’مناجات بدر گاہ قاضی الحاجات‘‘ کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔’’مناجات ‘‘ کی آخری سطریں ملاحظہ ہوں:
’’الٰہی جس طرح اپنے شریک کو صفحہ امکان سے مٹایا ، اسی طرح نقش غیر ہماری لوحِ خاطر سے محو فرما۔ الٰہی جس طرح ستاروں کو سورج کی روشنی میں کھپایا، اسی طرح ہم کو انوار ذات میں مضمحل کر۔ الٰہی! وہ جلوہ دکھا جس کا حجاب اسی کی یکتائی ہے ، جس کی اوٹ دیدہ تماشائی ہے، جو علم و ادراک کے پروں میں مستور ہے، جس کا منتہائے خفا غائت ظہور ہے ۔ جس کے طالب کو وصول سے قظع نظر ہے، جس کا ملنا حوصلہ توقع سے باہر ہے۔ جو تقریر میں نہ آئے تحریر میں نہ سمائے۔۔۔۔‘‘
( مقالات حالی ، ص  ۱۰)  
حالی سے پہلے اردو نثر کا دائرہ محدود تھا ۔ انہوں نے اپنی نگارشات سے اردو نثر کا دامن وسیع کیا۔مقالات حالی علمی و ادبی نثر کا مجموعہ ہے جو بہر کیف مطالعے کے لائق ہے۔ ان کی نثری مہارت اور کمالات کا اعتراف ان کے ہم عصروں کو بھی تھا اور بالکل آج کے نقادوں کو بھی۔کیوں کہ مولانا حالی نے وہی اسلوب اور لب ولہجہ اختیار کیا ہے جو بالکل ان کے افکار وخیالات اور ان کے پیغام کو پیش کرنے میں ذیادہ مفید اور سود مند ثابت ہو سکتا تھا۔
اب آخر پر ’’زبان گویا ‘‘ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔یہ پورا اقتباس حالی کی مواد اور ہیئت پر دسترس کی غمازی کرتا ہے:
’’اے میری بلبل ہزار داستاں! اے میری طوطی ِ شیوا بیاں!اے میری قاصد ! اے میری ترجماں! اے میری وکیل! اے میری زبان! سچ بتا تو کس درخت کی ٹہنی اور کس چمن کا پودا ہے؟ کہ تیرے ہر پھول کا رنگ جدا اور تیرے ہر پھل میں ایک نیا مزہ ہے۔ کبھی تو ایک ساحر ِ فسوں ساز ہے جس کے سحر کا رد نہ جادو کا اتار۔ کبھی تو ایک افعی جان گذاز ہے جس کے زہر کی دارو نہ کاٹے کا منتر۔ تو وہی زبان ہے کہ بچپن میں کبھی اپنے ادھورے بولوں سے غیروں کا جی لبھاتی تھی۔ اور کبھی اپنی شوخیوں سے اپنے ماں باپ کا دل دکھاتی تھی۔ تو وہی زبان ہے کہ جوانی میں کہیں اپنی نرمی سے دلوں کو شکار کرتی تھی اور کہیں اپنی تیزی سے دلوں کو فگار کرتی تھی۔‘‘
من جملہ طور پر مقالات حالی کے مطالعے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مولانا حالی ایک جید عالم دین ، مفکر، فلسفی اور سماجی اصلاح کار تھے۔ ان کے یہ مقالات دونوں علمی و ادبی اعتبار سے اہم اور مفید ہیں۔ لہذا ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ حالی کو سمجھنے کے لیے ان مقالات کا مطالعہ از بس ضروری ہے۔ اور ان کے مطالعے کے بغیر حالی کے ساتھ انصاف ممکن نہیں۔ 
(شیلت ابن عبدالرزاق شعبۂ اردو ، یونیورسٹی آف کشمیر)
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

شدید بارشوں کے باعث امرناتھ یاترا ایک روز کے لیے معطل
تازہ ترین
نجی ہسپتال اس بات کو یقینی بنائیںکہ علاج عام شہری کی پہنچ سے باہر نہ ہو:وزیراعلیٰ نیشنل ہسپتال جموں میں خواتین کی جراحی کی دیکھ بھال پہل ’پروجیکٹ 13-13‘ کا آغا ز
جموں
آپریشنز جاری ،ایک ایک ملی ٹینٹ کو ختم کیاجائیگا بسنت گڑھ میںحال ہی میں4سال سے سرگرم ملی ٹینٹ کمانڈر مارا گیا:پولیس سربراہ
جموں
مشتبہ افراد کی نقل و حرکت | کٹھوعہ میں تلاشی آپریشن
جموں

Related

کالمگوشہ خواتین

دین کی سربلندی میں خواتین کا کردار تاریخی حقائق

July 16, 2025
کالمگوشہ خواتین

بیوی کا اصل گھر شوہر کا دل ہے فکرو فہم

July 16, 2025
کالمگوشہ خواتین

رسم شادی کا یہ غلغلہ ہے فکر انگیز

July 16, 2025
گوشہ خواتین

دلہنیںایک جیسی دِکھتی ہیں کیوں؟ دورِ جدید

July 10, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?