حال و احوال
ساحل احمد لون
گزشتہ کئی دنوں سے سینکڑوں طلبہ بشمول معلمین دارلحکومت دلی میں اسٹاف سلیکشن کمیشن (ایس ایس سی) کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ احتجاجی علَم بلند کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ایس ایس سی کی جانب سے چند عرصہ قبل سلیکشن پوسٹ (پھیز 13) کا امتحان منعقد کیا گیا۔ اس امتحان کے ذریعے مرکزی وزارتوں کی کئی چھوٹی بڑی اسامیاں پُر کی جاتی ہیں۔ امسال ایس ایس سی نے یہ اور باقی امتحانات منعقد کرنے کا ٹھیکہ Eduquity نامی کمپنی کو دیا۔ اس سے قبل یہ کام ٹاٹا کنسلٹنسنگ سروسز (TCS) نامی کمپنی انجام دیتی تھی۔ ایک کمپنی کو چھوڑ کر دوسری کمپنی کو امتحان منعقد کرانے کا ٹھیکہ دینا کوئی اچھنبے کی بات نہیں، البتہ حیران کن بات یہ ہے کہ Eduquity نامی یہ کمپنی بلیک لسٹ میں ڈالی جاچکی ہے کیونکہ بدعنوانی اور بدانتظامی کے کئی معاملات میں یہ کمپنی مبینہ طور پر ملوث پائی جاچکی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کمپنی کا ماضی تاریک رہ چکا ہو، اُسے ایک مرتبہ پھر کس طرح مرکزی سطح کا امتحان منعقد کرنے کا ٹھیکہ دیاگیا؟ بات یہی پر ختم نہیں ہوتی، ستم بالائے ستم یہ کہ جب اُمیدوار سرکاری نوکری پانے کا خواب سجائے امتحانی مراکز پر پہنچے تو ناقابل یقین بدانتظامیوں نے اُن کے سپنوں اور دن رات کی محنت پر پانی پھیر دیا۔ کئی طلاب نے گوہار لگائی کہ امتحانی مراکز پر کمپیوٹر صحیح طریقے سے کام نہیں کر رہے تھے۔ ایک امتحانی مرکز مبینہ طور پر مویشیوں کے تبیلے کی اوپری منزل پر رکھا گیا تھا۔ راجستھان سے تعلق رکھنے والے ایک امیدوار کا مرکز اندومان نیکوبار جزیرے پر رکھا گیا تھا۔ کئی امیدوار گھر سے دور، ان مراکز پر پہنچ بھی گئے تو وہاں پہنچ کر اُنہیں اطلاع ملی کہ امتحان ہی رد ہوگیا۔ ان چند مثالوں سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُمیدواروں کو کس ذہنی کوفت و اذیت کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ تنگ آمد بجنگ آمد، طلاب بشمول معلمین سڑکوں پر اُتر آئے۔ کئی اساتذہ اور طلاب کا زدوکوب کرکے اُنہیں گرفتار کیا گیا۔ بعد میں ابھینے سر نامی ریاضی کے ایک اُستاد نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی ملاقات ایس ایس سی کے کسی عہدیدار سے ہوئی جن کے سامنے اُمیدواروں کی شکایتوں کو رکھا گیا۔ مذکورہ اُستاد کے بقول عہدیدار نے جو جوابات دئے، اُنہیں پڑھ کر قارئین کرام بھی شائد یہ آہ بھرنے پر مجبور ہوجائے کہ،’’حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘۔مثلاً مذکورہ معلم نے جب پوچھا کہ CP0 امتحان کا نتیجہ کیوں منظر عام پر نہیں آیا، جواب مبینہ طور پر یہ ملا کہ’’یہ پڑا ہے لیپ ٹاپ لے جاؤ‘‘ ایک اور سوال یہ تھا کہ آپ غلط سوال پوچھ لیتے ہیں اور پھر امیدواروں سے تصحیح کرانے کے عوض پیسے وصولتے ہو۔ اس کا جواب کچھ یوں ملا کہ’’یہ الزام ہم پر مت لگائیے۔ یہ پیسہ سرکار کو جاتا ہے، جس سے سڑکیں بنتی ہیں۔‘‘ اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجیے کہ بچوں کے مستقبل کے حوالے سے کس سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
مسابقتی امتحانات کے حوالے سے فقط ایس ایس سی میں ہوئی بے ضابطگیوں کو ہی اُجاگر کرنا ناانصافی ہوگی۔ مرکزی سطح یا ریاستی سطح پر منعقد کئے جانے والے درجنوں امتحانات ایسے ہیں، جو دھاندلیوں کی نذر ہوگئے۔ اب ملک کے مشکل ترین مانے جانے والے یو پی ایس سی سول سروسز امتحان کو ہی لے لیجیے۔ ایک آئینی ادارہ ہونے کی حیثیت سے یو پی ایس سی کی ایک الگ ساکھ اور مقام ہے۔ اس کے باوجود بھی اس ادارے پر وقتاً فوقتاً اُنگلیاں اُٹھتی رہی ہیں۔تازہ مثال 2024 میں منعقد کئے گئے سول سروسز(پرلمز) امتحان کی ہے۔ اولاً تو ہونا یہ چاہیے کہ امتحان منعقد ہونے کے چند روز بعد ہی کلیدِ جوابات (Answer key) منظر عام پر لائی جائے لیکن پہلے امتحان کے نتائج کا اعلان ہوتا ہے اور پھر تقریباً ایک سال بعد کلید جوابات کو شائع کیا جاتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ امسال 2024 میں منعقد کئے گئے امتحان کی کنجی کو جب شائع کیا گیا تو اس بات کا خلاصہ ہوا کہ اولاً تین سوالات کو بنا کوئی وجہ بتائے رد کیا گیا تھا اور ستم ظریفی یہ کہ صحیح جوابات دینے والوں کے جواب کو رد کردیا گیا اور غلط جواب لکھنے والے صحیح قرار پائے۔ مثال کے طور پر ایک سوال میں نشاندہی کرنی تھی کہ مندرجہ ذیل بیان صحیح ہے یا غلط،’’وزیر خزانہ سالانہ میزانیہ (Budget) وزیر اعظم کے بدلے(On behalf of Prime Miinister) پیش کرتا/کرتی ہے‘‘آئین ہند کی دفعہ 112 کے مطابق صدر ہند(نا کہ وزیر اعظم) میزانیہ کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کراتا/کراتی ہے۔ اس اعتبار سے جن امیدواروں نے سوال میں دئے گئے بیان(statement) کو غلط قرار دیا وہ صحیح تھے لیکن ایک سال کی تاخیر کے بعد جب جوابی کنجی شائع ہوئی تو حیرت انگریز طور پر اس بیان کو صحیح قرار دیا گیا تھا اور جن طلاب نے دفعہ 112 کو مدنظر رکھ کر اسے غلط قرار دیا تھا، یو پی ایس سی نے اُن کے جواب کو غلط مان لیا۔ یہ تو تھی یوپی ایس سی اور ایس ایس سی بات، اب ذرا باقی مسابقتی امتحانات کا سرسری جائزہ لیا جائے۔
ہر سال لاکھوں طلاب ڈاکٹر بننے کا ارمان دل میں سجانے نیٹ(NEET) امتحان میں شامل ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس اُن کے سپنوں پر اُس وقت پانی پھر گیا جب اس امتحان کا دامن بھی داغدار ہونے سے نہ بچ سکا اور مبینہ طور پر دھاندلیاں ہوئی(بالخصوص ریاستِ بہار میں)۔ امتحان کے نتائج کا اعلان متوقع وقت سے پہلے ہی اُس دن ہوا جب لوک سبھا انتخابات کے نتیجے منظر عام پر آئے۔ ملک بھر کے لوگ جب انتخابی نتائج میں مہو تھے، نیٹ کے امیدوار اُس شور و غل میں انصاف کی گوہار لگا رہے تھے۔ ہنگامہ آرائی نے زور پکڑ لیا اور بات جب عدالت عالیہ تک پہنچی تو اس کے بعد سرکار مکمل طور پر حرکت میں آئی اور کاروائی سی بی آئی کو سونپ دی گئی۔ نیٹ کے بعد یو جی سی NET کا امتحان ہوا تو کچھ عرصہ بعد ہی اسے رد کیا گیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ٹیلی گرام نامی ایپلی کیشن پر پرچہ لیک ہوچکا تھا۔
اب ذرا جموں و کشمیر کا رخ کرلیجیے۔ نان گزیٹڈ نوکریوں کی بھرتیوں کا کام یہاں سروسز سلیکشن بورڈ کے ذمہ ہے۔ اس ادارے نے چند سال قبل سب انسپکٹر کی بھرتی کے لیے امتحان منعقد کیا۔ امتحان کے بعد یہ بات طشت از بام ہوئی کہ اس امتحان بھی دھاندلیوں کی نذر ہوچکا ۔ امتحان منعقد کرنے کا ذمہ Aptech نامی داغدار کمپنی کو دیا گیا تھا جو پہلے ہی بلیک لسٹ میں ڈالی جاچکی تھی۔ بعد میں سی بی آئی کے ذریعے جانچ ہوئی اور کئی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی۔ محکمہ جنگلات میں بھرتیاں نکلی اُس پر بھی بد عنوانی کا الزام لگا اور سالہا سال گزرنے کے باوجود بھی غالباً تاحال اُس کا امتحان منعقد نہیں ہوا۔ امتحانات وقت پر کرانے کا کوئی ضابطہ کار اپنانے سے یہ ادارہ قاصر ہے۔ کبھی کسی اسامی کی بھرتی چند ہی ماہ کے اندر مکمل ہوتی ہے وہی کچھ اسامیوں کے فارم جمع تو کئے جاتے ہیں لیکن امتحان سالہا سال بعد ہوتا ہے۔
آسمان کو چھوتی بے روزگاری کے بیچ جب ایک تعلیم یافتہ نوجوان کو ان مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اُسے ڈپریشن جیسے امراض لاحق نہ ہو تو اور کیا ہو؟ سوچیے جن والدین نے اپنی پُشتینی زمینیں بیچ کر، اپنا شکم چاک کرکے،محنت مزدوری کرکے اپنی اولاد کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا، وہی اولاد جب انتظامیہ کی نااہلی اور سردمہری کے باعث بے یار و مدد گار در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوجائے تو اُن کے دل پر کیا بیتے گی؟ ایک محنتی اور ذہین غریب طالب علم کا حق جب ایک نااہل امیرزادہ مار جائے تو بتائیے کہ رب ذولجلال کے سوا یہ کس کے در پر دستک دے ؟ایک غریب گھرانے (خاص کر اگر دیہی علاقے سے تعلق رکھتا ہو) کے لیے سرکاری نوکری ہی غربت کے بھنور سے نکلنے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے حالات ناگفتہ بہہ ہے، ایسے میں نجات کی صورت اور ذہنی بگاڈ سے نجات کا راستہ خالق حقیقی پر توکل کرنے میں ہی نظر آتا ہے۔خیر تقاضۂ وقت یہ ہے کہ ملک کے مسابقتی امتحانات کے ڈھانچے کو منہدم کرکے اسے از سر نو تعمیر کیا جائے۔ یہ نو تعمیر شدہ ڈھانچہ شفافیت اور انصاف پسندی کا آئینہ دار ہو۔ ملوثین (خواہ سیاست دان ہو،افسر شاہی یا پھر کوئی اُمید وار ہی سہی) کو کیفر کردار تک پہنچا کر اُنہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ بھرتیوں کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا جائے کہ امتحان کب منعقد کیا جائے گا اور نتائج کب منظر عام پر لائے جائیںگے وغیرہ۔یہ باتیں تصوری (Ideal) ہوسکتی ہیں لیکن حکومت وقت چاہے تو انہیں حقیقت کا لباس پہنا سکتی ہے۔ بتدریج زوال پذیر اس امتحانی نظام پر ورنہ حالیؔ کا یہ شعر برمحل نظر آتا ہے(گوکہ یہ مختلف سیاق میں لکھا گیا تھا) ؎
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے
[email protected]