کچھ عرصہ قبل مشہور میگزین ’’فوربس،،نے ارب پتیوں کی سالانہ فہرست جاری کردی ،اس فہرست میں ۱۸۱۰ ؍امیر ترین افراد کو جگہ دی گئی ہے ۔گزشتہ ۲۲برسوں میں ۱۷ ویں دفعہ اول نمبر پر رہنے والے مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس ۷۵ ارب ڈالر کی مجموعی دولت کے ساتھ اس سال بھی نمبر ایک پر برقرار ہے ؛وہیں دوسال قبل کے ارب پتیوں کی فہرست میں ۸۴ ہندوستانیوں کے نام درج ہیں،جس میں ریلائنس انڈیسٹریز کے سربراہ مکیش امبانی نے ہندوستان میں اول اور بین الاقوامی طور ۳۶ ؍واں مقام حاصل کیا ۔ میگزین نے مکیش امبانی کی دولت کا تخمینہ ۲۰۔۶ارب ڈالر (تقریباًایک لاکھ ۳۹ہزار کروڑ روپے)لگایا ۔دیگر لوگوں میں دلیپ سانگھوی ۴۴؍وپرو کے چیئرمین عظیم پریم جی ۵۵ ،لکشمی متل ،ساوتری جندل ،این آر مورتی اور گوتم اڈانی بھی شامل ہیں۔یہ وہی گوتم اڈانی ہے جس کو چند سال قبل تک لوگ نہیں جانتے تھے ، کہتے ہیں نریندر مودی جی کی کرپا سے اس وقت دنیا کے امیر ترین لوگوں میں اپنا نام لکھوا چکا ہے اور ہندوستان میں وہ ۸ ؍واں سب سے امیر شخص ہے ۔۲۰۱۵ کی فہرست میں ہندوستان کے ۶۸ افراد امیر ترین قرار دئے گئے تھے اور عالمی سطح پر ہندوستان کاساتواں مقام تھا ۔۲۰۱۴ میں ۱۰۰ ا؍مراء کے ساتھ چھٹا درجہ تھا یعنی موجودہ وقت میں سوئزرلینڈ،ہانگ کانگ اور فرانس سے زیادہ ہندوستان میں امراء رہتے ہیں ۔ویسے آج بھی ارب پتیوں کی سب سے زیادہ تعداد امریکہ میں ہے، اس کے بعد چین اور برطانیہ کانمبر آتا ہے ۔ ایک سروے کے مطابق ۲۰۲۳ تک دنیا میں ارب پتیوں کی تعداد میں ۳۸ فیصد کا اضافہ ہوگا اور ابھرتی ہوئی معیشت پر ان ہی امراء کا مکمل کنٹرول ہوگا ۔قابل غور بات یہ ہے کہ اس وقت بھی دنیا کی آدھی دولت کے مالک فقط ۸۰ ڑلوگ ہی ہیں۔امراء کے یہ مختصر اعداد و شمار میں اس لئے تحریر کر رہا ہوں تاکہ پتہ چلے کہ موجودہ دور کا نظام معیشت کس قدر گھٹیا ہے جہاں عالمی پیمانے پر امیر امیر ترین ہوتے جا رہے ہیں ،دولتوں کے انبار لگ رہے ہیں اور غربا غریب تر ہوتے جا رہے ہیں ،نوالے نوالے کو ترس رہے ہیں ۔
یہ ٹھیک ہے کہ امریکہ اب بھی ۵۴۰ ؍ارب پتیوںکے ساتھ اول مقام حاصل کئے ہوا ہے، تاہم یہ بھی خوف ناک سچائی ہے کہ ہردس میں سے چارامریکی بچے خط غربت سے نیچے یا اس کے آس پاس زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور یہ تعداد مرور ایام کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے ۔کولمبیا یونیورسٹی میں واقع نیشنل سینٹر چلڈرن ان پاورٹی(nccp)کی تحقیق کی جانب سے تیار کردہ رپورٹ کے مطابق ۱۔ ۳ کروڑ سے زیادہ بچے غذائی قلت اور طبی سہولیات سے محروم ہیں ۔اس کمیٹی کی ایک رکن اینی ولسن نے کہا ہے کہ :۲۰۰۸ سے ۲۰۱۴ تک ۱۸ ؍فیصد غریب بچوں کا اضافہ ہوا ہے جب کہ جنوبی ایشیا خصوصاً ہندوستا ن، پاکستا ن اور بنگلہ دیش کی حالت اس سے بھی تشویش ناک ہے ۔ا ن ممالک میںکسان ۶۰ فیصد ،زمین دار ۲۰ فیصد اور باقی شہروں کی کچی آبادیوں اور جھگی بستیوں میں مقیم افرادخط غربت کے نیچے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں کسان کھیتی کرنا چھوڑ رہے ہیں اورخودکشی کرنے پرمجبور ہو رہے ہیںلیکن اقتدار پر قابض سفید پوش لٹیرے اس خودکشی کو فیشن قرار دے رہے ہیں ۔غربت کے خاتمے کے خلاف تنظیم’’آکسفا،، کے مطابق ہندوستان کی تقریباً ۳۸ فیصد جائداد پر صرف پانچ یا چھ فیصد لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ماہرین کا خیال ہے کہ ہندوستان میں ۴۵ کروڑ سے زیادہ غریب ہیں جن کی آمدنی یومیہ دو ڈالر(عالمی معیارکے مطابق غریب وہ ہے جس کی آمدنی یومیہ دو ڈالر سے کم ہو ) سے کم ہے اور جن کوبمشکل ایک وقت کا کھانا میسر ہوتا ہے ۔اگر اس بھیانک سچائی کا مشاہدہ کرنا ہے تو کبھی ان دیہاتوں میں جائیں جہاں بجلی کی روشنی لوگوں نے نہیں دیکھی ہے ،سڑک کا وجود نہیں ہے، ندیوں اورتالابوں سے پانی لا کر پیتے ہیں ۔اگر یہ امرائے ہند اپنی بلیک منی بدیسوں سے لے آئیں اور ایمانداری سے ٹیکس ادا کریں،حکومت منصفانہ طریقے سے غریبوں پر خرچ کرے تو ہندوستان میں کو ئی بھی غریب نہیں رہے گا ،لیکن نہ حکومت ایماندار ہے اور نہ ہی خزانوں کے مالک۔ بی جے پی نے بھی پارلیمنٹ الیکشن کے وقت وعدہ کیا تھا کہ اگر بی جے پی اقتدار میں آئی تو سارے کالے دھن واپس لائی گی اور ہر ایک کے کھاتے میں پندرہ پندرہ لاکھ روپئے جمع کر وا ئے گی ۔کالا دھن پر چیخنے والے سراپا کالا دھن (رام دیو)نہ جانے کہاں نوبل ایوارڈ حاصل کرنے کے لئے گورا بننے میںمشغول ہے ؟ سپریم کورٹ کے معروف وکیل پرشانت بھوشن نے درست کہا تھا کہ :ہندوستان میں صرف ۱۷ لوگ دو لاکھ کروڑ ٹیکس دبائے ہوئے ہیں اور حکومت ان کے خلاف عمداً کوئی کارروائی نہیں کر رہی ہے ۔ حکومت وقت کا امراء پر مہربانی کا عالم یہ ہے کہ ان کے کھربوں روپے کے قرض معاف کر دئے گئے ،لیکن معمولی قرض لینے والے کسانوں پر دبائو اس قدر بنایا جا رہا ہے کہ وہ خود کشی پر مجبور ہو رہے ہیں۔
۱۹۹۳ سے ہر سال۱۷؍اکتوبر کو بین الاقوامی طور پر ’’یوم اختتام غربت،،منایا جاتا ہے ۔اس دن بڑے بڑے سیمینار اور خصوصی پروگرام ہوتے ہیں ،منصوبے بنتے ہیں لیکن عملی
طور پر کچھ نہ ہونے کی وجہ سے آج بھی دو ارب چالیس کروڑ افراد خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ ان کے پاس نہ اسباب و وسائل ہیں اور نہ اہل و عیال کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے روپے،بیمار ہو جائیں تو علاج کے لئے دوا نہیں ،سر چھپانے کو چھت نہیں ،بھوکے بچوں کو پلانے کے لئے دودھ تک میسرنہیں ۔آج غربت کا عالم یہ ہے کہ روزانہ ۲۴ ہزار افراد بھوک سے ہلاک ہو رہے ہیں ،امارت و غربت میں اتنی لمبی کھائی اس لئے بن گئی ہے کہ معاشی اور اقتصادی نا انصافیاں پائوں پسارے بیٹھی ہیں ،عدم مساوات کا بول بالا ہے ، صنعتی اصلاحات کا فقدان ہے ،سود کینسر کی طرح سماج میں سرایت کر گیاہے ، غیروں میں ٹیکس کی عدم ادائیگی تو مسلمانوں میں زکوٰۃ و صدقات کے اخراج کا عدم رجحان ہے ،حالانکہ ہم ایسے عہد میں سانس لے رہے ہیں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی روز بروز ترقیات کے منازل طے کر رہی ہے ،چاند و سورج پر کمندیں ڈالی جا چکی ہیں ۔اگر خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے افراد کو عالمی اور ملکی سطح پر مواقع اور سہولتیں فراہم نہیں کریں گے ،ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں پر عمل در آمد نہیں کریں گے تو ہمیشہ امراء کا دبدبہ بڑھتا چلا جائے گا اور غربت کا خاتمہ کبھی نہیں ہو گا ، پھر ہم اس سچائی کو بچشم دیکھیں گے اور کہیں گے ؎
غریب شہر ترستا ہے اک نوالے کو
امیر شہر کے کتے بھی راج کرتے ہیں