عیدالفطرکی آمد آمد ہے اور ساری مسلم آبادی عید کی تیاریوں میں مصروف ہے ۔عمومی طور پر عید مسلمانوں کیلئے خوشی کا تہوار ہے لیکن جس ماحول میں عیدجموںو کشمیر پر سایہ فگن ہورہی ہے ،وہ ماحول کوئی خوشی بھرا ماحول نہیں ہے۔ لوگ کربناک حالات سے دوچار ہیں، آہوں اور سسکیوں کی آواز یں ہمارے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ کورونا وائرس کی وباء سے دنیا کا نظام تہہ وبالا ہوچکا ہے ۔لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوچکے ہیں ۔گھروں کے ٹوٹے درودیوار،ٹوٹے کھڑکیاں،تباہ شدہ املاک اور اربوں روپے کی مالی قربانی زبان حال سے ہمارے ضمیرکوجھنجوڑ رہی ہے۔ ان جان گسل حالات سے دوچارکوئی قوم کس طرح اس امر کی متحمل ہوسکتی ہے کہ وہ عید کی خوشیاں اس اندازسے منائے جیسے عام حالات میں منائی جاتی ہیں ۔آج جب ہم عید کی خریداری کیلئے دکانوں کا رخ کریں تو ان مفلوک الحال لوگوں کو کیسے بھول سکتے ہیں جن کو موجودہ حالات نے کافی حد تک مالی بدحالی کا شکار بنایا ہے ۔صورتحال انتہائی مخدوش ہے ۔ کمر توڑ مہنگائی اورکورونا وائرس کی مارسے عوام کو جانوں کے لالے پڑے ہیں ۔ان جاں گسل حالات میں کشمیریوں کی عید کہاں ؟۔ایک طرف کورونا وباء نے پھر سر ابھارنا شروع کردیا ہے جبکہ دوسری جانب تنگ دستی نے لوگوںکا جینا دوبھرکردیاہے۔ آج بھی ہزاروں بچے یتیم خانوں میں زیر کفالت ہیںاور وہیں اپنی بے بسی پر ماتم کناں ہیں۔عید کی خوشی کا اظہار ہر مسلم کا حق ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی معنوں میں عید کی اصل خوشی کا حقدار کون ہے ۔آج جب کہ ہم عید کی مناسبت سے لذیذ زیافتیں پکانے اور عمدہ لباس تیار کرنے میں مگن ہیں اور ہماری کوشش ہے کہ ہمارے اہل خانہ کی عید اچھی ہو،ایسے میں عیدکے ان پُر مسرت لمحات میں ہمیں اپنے اڑوس پڑوس میں اُن یتیم بچوں ،بیوائوں اور محتاجوں کو بھی نہیں بھولنا چاہئے جو عید منانا چاہتے ہیں لیکن ان کے ہاں کھانے تک کیلئے کچھ نہیں ہے۔فلاحی اداروں کا قیام احسن اقدام ہے لیکن اگر اسلام کے تابع اپنی زندگی بنائی جائے تو شاید ہمیں بازاروں میں چندہ جمع کرنے اور لائوڈ سپیکروں کے ذریعے لوگوں سے منت سماجت کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے ۔فلاحی اداروں اور یتیم خاتوں کا قیام تو جدید دور کی سوچ ہے جبکہ رسول اللہ ؐ کے وقت میں یتیم خانے تھے ،نہ فلاحی ادارے بلکہ اُس وقت صحابہ کرام ؓ یتیموں کی کفالت کا ذمہ اٹھاتے ،یہاں تک خود رسول اللہ ؐ کئی یتیموں کی کفالت کرتے رہے ہیں اورمحتاجوں کیلئے بیت المال کی صورت میں مقامی سطح پر فلاحی ادارے ہوتے تھے جو محتاجوںکی دلجوئی کرتے تھے۔کتنا ہی اچھا ہوتا کہ ہم مقامی سطح پر محلہ ،گائوں اور قصبہ میں اپنے آس پاس کے یتیموں،بیوائوں اور محتاجوں کا خیال رکھتے تو شاید آج نوبت یہاں تک نہ آپہنچتی ۔یتیموں اور بیوائوں و محتاجوں کی پرورش و اعانت حقوق العباد میں آتی ہے ۔اللہ اپنے حقوق میں غفلت معاف کرسکتا ہے لیکن حقوق العباد میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔پرآشوب حالات کی وجہ سے وادی میں یتیموں ،ناداروں ،بیوائوں اور محتاجوں کی ایک فوج پہلے ہی تیارتھی کہ اب کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے محتاجوں کی اس فوج میں کئی گنااضافہ ہوچکا ہے۔ایسے میں ہم پر زیادہ ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں کہ ہم اپنی خوشی کے ساتھ ساتھ ان کی خوشیوں کا بھی خیال رکھیں ۔اس وقت سینکڑوں لوگ جیلوں میں مقید ہیں ،ان کے اہل خانہ بھی کسمپرسی کی حالت میں ۔عید کے ان ایام میں ہمیں قومی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں بھی نہیں بھولنا چاہئے بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہوسکیں ۔ مقامی اور عالمی سطح پر عالم انسانیت کو بالعموم او رمسلم امہ کوبالخصوص درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ کسی بھی طور جائز نہیں کہ ہم اصراف سے کام لیں ۔اخلاق کا تقاضا ہے کہ عید سادگی سے منائی جائے اور کوشش کی جائے کہ مفلسوں و محتاجوں کو عید منانے کے قابل بنایا جائے۔اُسی میں ہماری دنیا وی واُخروی بھلائی کا راز پنہاں ہے۔
۔۔۔۔