نیوزی لینڈ المیہ کے ایک ہفتہ بعد ۲۲؍مارچ کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے تشریف لے جاتے ہوئےعالم اسلام کے ایک جیدعالم دین،معروف دانش ور ، مشہور مصنف، کامیاب مبلغ اور داعی مفتی محمد تقی عثمانی پر کراچی کے شہر کورنگی میں ایک قاتلانہ حملہ ہوامگر بفضل تعالیٰ آپ بال بال بچ گئے ،البتہ آپ کا ذاتی محافظ اور ڈرائیور اللہ کو پیارے ہوگئے ۔ آپ کے ہمراہ نماز جمعہ اداکر نے جارہی آپ کی اہلیہ اور پوتی بھی موٹر سائیکل سوار قاتلوں کے ہاتھوں کوئی گزند پہنچنےسے محفوظ رہے۔اس حملے کاذمہ دار کون ہے، اس کا ابھی تک خلاصہ نہ ہو ا، البتہ عالم اسلام میں اس کے خلاف شدید ردعمل ظاہر ہوا۔
مفتی محمد تقی عثمانی (پیدائش: 27 اکتوبر 1943ء) عالم اسلام کے مشہور عالم اور جید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار عالم اسلام کی چند چوٹی کی علمی شخصیات میں ہوتا ہے۔ آپ 1980ء سے 1982ء تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982ء سے 2002ء تک عدالت عظمیٰ پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے ہیں۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔ اس کے علاوہ آپ آٹھ اسلامی بینکوں میں بحیثت مشیر کام کر رہے ہیں۔
پیدائش : مفتی محمد تقی احمد عثمانی مفتی ٔاعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی ( مرحوم )کے سب سے چھوٹے فرزند اور موجودہ مفتیٔ اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ آپ کی پیدائش 27 اکتوبر 1943ء کو سہارنپوراُترپردیش کے مشہور قصبہ دیوبند میں ہوئی۔
تعلیم : آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم مرکزی جامع مسجد تھانوی جیکب لائن کراچی میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کے قائم کردہ مدرسۂ اشرفیہ میں حاصل کی اور پھر آپ نے اپنے والد بزرگوار کی نگرانی میں دار العلوم کراچی سے درس نظامی کی تعلیم مکمل کی جس کے بعد 1961 میں اسی ادارے سے ہی فقہ میں تخصص کیا۔ بعد ازاں جامعہ پنجاب میں عربی ادب میں ماسٹرز اور جامعہ کراچی سے وکالت کا امتحان نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔
اجازت : آپ نے اپنے وقت کے تقریباً تمام جید علما سے حدیث کی اجازت حاصل کی۔ ان علما میں خود ان کے والد مفتی محمد شفیع عثمانیؒ کے علاوہ مولانا ادریس کاندھلویؒ اور محمد زکریا کاندھلوی ؒشامل ہیں۔ تصوف و معرفت : مفتی صاحب کے والد ہمیشہ آپ کی روحانی تربیت کے حوالے سے فکر مند رہتے تھے۔ اسی بابت آپ نے مفتی صاحب کو اپنے وقت کے سب سے بڑے شیخ اور عارف بااللہ ڈاکٹر عبدالحئی ؒ کی صحبت اختیار کرنے اور ان سے روحانی تعلق استوار کرنے کا حکم دیا۔ آپ نے والد کے حکم پر شیخ کی صحبت اختیار کی تو کچھ ہی عرصے ان کی شخصیت سے اتنے متاثر ہوئے کہ فوراً ہی ان سے بیعت ہو گئے۔ کچھ ہی عرصے میں آپ اپنے شیخ کے خاص مریدوں میں شمار ہونے لگے۔ عارف باللہ ڈاکٹر عبد الحئی ؒکے انتقال کے بعد آپ ان کے خلیفہ مجاز ہیں۔
تدریس : مفتی تقی عثمانی مدظلہ العالی درس وتدریس کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔ آپ دار العلوم کراچی میں صحیح بخاری، فقہ اور اسلامی اصول معیشت پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف ملکی و غیر ملکی جامعات وقتاً فوقتاً اپنے یہاں آپ کے خطبات کا انتظام کرتی رہتی ہیں۔ آپ چند سالوں سے جامعہ دار العلوم کراچی میں درس بخاری دے رہے ہیں، پہلے آپ ایک فقیہ کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور اب دنیا آپ کو ایک محدث کی حیثیت سے بھی جانتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علما نے آپ کو شیخ الاسلام کا لقب عطا کیا ہے۔
رکن اسلامی نظریاتی کونسل: جنرل ضیاء الحق نے 1977 میں 1973 کے دستور کو نئےخطوط پر ڈھالنے کے لیے 1973 کے آئین کی روشنی میں ایک مشاورتی باڈی اسلامی نظریاتی کونسل کی بنیاد رکھی، مفتی تقی احمد عثمانی اس کونسل کے بانی ارکان میں سے تھے۔ آپ نے قرآن مجید میں بیان کردہ اللہ کی حدود اور ان کی سزاؤں پر عمل د درآمد کے لیے حدود آرڈینینس کی تیاری میں اہم کردا ر ادا کیا۔ آپ نے سودی نظام بنک کاری کے خاتمے کے لیے بھی کئی سفارشات پیش کیں۔
بہ حیثیت جج: مفتی تقی عثمانی جامعہ کراچی سے وکالت کی سند حاصل کرنے کے بعد طویل عرصے کے لیے پاکستان کے عدالتی نظام سے وابستہ ہو گئے۔ آپ 1980 سے 1982 تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982 سے 2002 تک سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بنچ کے جج رہے ہیں۔ آپ شریعت ایپلیٹ بینچ کے منصف اعظم اور پاکستان کے قائم مقام منصف اعظم بھی رہے۔ آپ نے بہ حیثیت جج کئی اہم فیصلے کیے جن میں سود کو غیر اسلامی قرار دے کر اس پر پابندی کا فیصلہ سب سے مشہور ہے۔ 2002 میں اسی فیصلے کی پاداش میں سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے آپ کو آپ کے عہدے سے برطرف کر دیا تھا۔
اسلامی بنک کاری: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ربا یعنی سود کو حرام قرار دیا ہے۔ ایسی صورت میں جب جدید معاشی نظام کی اساس جدید بنکنگ ہے جس کا پورا ڈھانچہ سود کی بنیادوں پر کھڑا ہے، مسلمان ملکوں میں اللہ کی نافرمانی کی زد میں آئے بغیر معاشی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ایک مستقل مسئلہ تھا لیکن اب مفتی صاحب کی مجدادنہ کوششوں کی بدولت یہ مستقل طور پر حل ہوچکا ہے۔ مفتی صاحب نے شریعت کے حدود میں رہ کر بنک کاری کا ایسا نظام وضع کیا ہے جو عصر حاضر کے تمام معاشی تقاضوں کو پورا کرتا ہے۔ مفتی صاحب کے اس نظام کو اسلامی فقہ اکیڈمی کی منظوری کے بعد ساری دنیا میں نہایت تیزی سے اپنایا جا رہا ہے۔ اس وقت مفتی تقی عثمانی صاحب کے اصولوں پر درجنوں اسلامی بنک کام کر رہے ہیں۔ کینڈا کے کئی اسلامی بنکوں نے ایک سال نہایت کامیابی سے غیر سودی کام کرتے ہوئے دو سو فی صد سے زائد منافع کمایا ہے۔ مفتی صاحب خود آٹھ اسلامی بنکوں کے مشیر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ مفتی صاحب اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاؤنٹنگ اور آڈیٹنگ اورآگنائزیشن کے چیر مین بھی ہیں۔
ملی و سیاسی کردار: مفتی تقی عثمانی صاحب کا نام پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آیا جب آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف بنوری کی ہدایت پر 1974کی قادیانیت مخالف تحریک میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اس تحریک میں آپ نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ایک دستاویز تیار کی جو قادیانیوں کے خلاف پارلیمان میں پیش کی گئی۔ 9/11 کے بعد جب پرویز مشرف کی حکومت پاکستان کو سامراجی مقاصد کے سامنے قربانی کے بکرے کے طور پر پیش کیا گیا تو مفتی صاحب نے اس معاملے پر اپنے کالموں اور بیانوں کے ذریعہ کھل کر مخالفت کی۔ آپ نے افغانستان کی اسلامی ریاست پر امریکہ کے حملہ کو طاغوتی سامراج کا تیسری دنیا کے مما لک کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا۔ حقوق ِنسواں بل میں ترمیم اور لال مسجد کے معاملے پر بھی کھل کر اظہار خیال کیا اور حکومتی موقف کو جھوٹ اور دغا کا پلندہ قرار دیا۔ آپ صلی و علیہ وسلم کی شان میں گستاخی پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور ٹی وی پر آکر ان شیطانی فتنوں کی مذمت کی اور عوام کو توہین کے عمل میں ملوث ممالک کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا فتویٰ دیا۔ مفتی صاحب نے 18 فروری کے انتخابات کے بعد پرویز مشرف سے استعفی کا مطالبہ بھی کیا۔
کتابیں: آسان ترجمہ قرآن (توضیح القرآن) مع تشریحات مکمل تین جلدیں، آسان نیکیاں، اندلس میں چند روز، اسلام اور سیاست ِحاضرہ ،اسلام اور جدت پسندی ،اکابر دیوبند کیا تھے، تقلید کی شرعی حیثیت، پرنور دین، تراشے۔،بائبل کیا ہے، جہاں دیدہ، دنیا میرے آگے، حضرت معاویہ ؓاور تاریخی حقائق، حجتِ حدیث، حضور نے فرمایا، فرد کی اصلاح، علوم القرآن، ہمارا معاشی نظام، نمازیں سنت کے مطابق پڑھیں، عدالتی فیصلے، مسیحیت کیا ہے ، درسِ ترمذی…وغیرہ