جموں سرینگر شاہراہ پر بدترین ٹریفک جام نے ایک بار پھر سے تاریخی مغل روڈ کی اہمیت کو اجاگر کیاہے اور یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اس متبادل شاہراہ پر ٹریفک کا سلسلہ جاری نہ رہے تو مسافروں کو انتہائی مشکلات کاسامنا کرناپڑے اور جموں سرینگر روڈ پر سفرکرنا اوربھی زیادہ اذیت کا باعث ثابت ہوگا۔مغل شاہراہ کی اہمیت حکام کے ساتھ ساتھ ان حلقوں پر بھی واضح ہوچکی ہے جو ہمیشہ اس کی تعمیر کے خلاف رہے اور جن کی وجہ سے آج تک اس پر ٹنل تعمیر نہیں ہوسکا اور نہ ہی اس کو قومی شاہراہ کا درجہ مل پایاہے ۔ سال 2014کے تباہ کن سیلاب سے لیکر اب تک مغل شاہراہ نے جموں سرینگر روڈ کے بھاری ٹریفک بوجھ کم کرنے میں بہت اہم رول اد اکیاہے اور آج بھی جب جموں سرینگر روڈ چٹانیں کھسک آنے کی وجہ سے کئی کئی روزتک بند رہتی ہے یاپھراس پر بدترین ٹریفک جام، جو اب روز کا معمول بن چکاہے ،کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مال بردار،مسافر بردار اور نجی گاڑیوں کا گزر مغل روڈ سے ہوتاہے ،جس سے نیشنل ہائے وے پر ٹریفک کا دبائو کافی حد تک کم ہواہے ۔مغل روڈ کا متبادل سڑک کے طور پر کئی سال سے استعمال ہورہاہے تاہم بدقسمتی سے حکام کی طرف سے ابھی تک اسے سرکاری سطح پرمتبادل شاہراہ کا درجہ نہیں دیاگیا اور نہ ہی آج تک اس کا سرکاری طو رپر افتتاح بھی ہواہے ۔البتہ با امر مجبوری ہی صحیح مگر اس روڈ کو متبادل طور پر استعمال کرنے کیلئے ہر فورم پر بات ہورہی ہے ۔گزشتہ روز ریاستی گورنرکے مشیروں کے وجے کمار اور خورشید احمد گنائی کی صدارت میں ہوئی ایک میٹنگ کے دوران بھی مغل روڈ کی اہمیت اجاگر ہوئی اور اس بات کا فیصلہ لیاگیاکہ جہاں 3000ٹرکوں کی پارکنگ کیلئے جموں سرینگرشاہراہ پر جگہیں مختص کی جائیں گی وہیں شاہراہ سے ناجائز تجاوزات ہٹانے اور مغل شاہراہ کو متبادل کے طور پر استعمال کیاجائے گا ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ جموں سرینگر روڈ پر بانہال سے اودہمپور تک جاری تعمیراتی کام اور کئی مقامات پر تودے گِر آنے ، مختلف مقامات پر ملبہ ہٹانے اور گاڑیوں کے خراب ہونے سے ٹریفک کی نقل و حمل میں آئے روزرکاوٹیں پیش آرہی ہیں جس کا نشانہ عام مسافروں کو بنناپڑتاہے، جو وقت پر اپنی منزل پر نہیں پہنچ پاتے ۔اسی پریشانی کو دیکھتے ہوئے ان دنوں بڑی تعداد میں گاڑیاں مغل شاہراہ سے سفر کررہی ہیں ۔ یہاں تک کہ سیبوں سے لدے ہوئے ٹرک بھی سرینگر سے جموں کیلئے اسی روڈ کے ذریعہ نقل و حمل جاری رکھے ہوئے ہیں جس وجہ سے سڑک پر ٹریفک کا دبائو کافی بڑھ گیاہے اور پہلی بار اس روڑ پر بھی ٹریفک جام لگنے لگے ہیں ۔میٹنگ کے دوران چیف سیکرٹری نے ڈویثرنل کمشنر کشمیر کو ہدایت دی کہ وہ مغل روڈ کے مختلف مقامات پر تجدیدی کام کا معاملہ تعمیرات عامہ محکمہ کے ساتھ اُٹھائیں۔اس روڈ کی حالت حکام کی عدم توجہی کے باعث بگڑ گئی تھی تاہم سابق گورنر کی مداخلت کے بعد اس کی کچھ حد تک مرمت کی گئی ہے اورحکام نے اقدامات کرکے اس میں پیدا ہوئے کھڈبھردیئے ہیں ۔فی الوقت تو یہ سڑک جموں سرینگر شاہراہ کانصف بوجھ برداشت کررہی ہے لیکن آئندہ چند ہفتوں میں ہی برفباری ہونے پر اس کے اگلے چار پانچ ماہ تک بند رہنے کا امکان ہے ،جس سے پھر سے صورتحال جوں کی توں بن جائے گی ۔ اس روڈ کی تعمیر کا مقصد تب تک پورا نہیں ہوسکے گا جب تک کہ اس پر ٹنل تعمیر کرکے اسے سال بھر آمدورفت کے قابل نہ بنایاجائے ۔ٹنل کی تعمیر اور اس روڈ کو قومی شاہراہ کا درجہ دینے کے بارے میں بارہا یقین دہانیاںکی جاتی رہی ہیں اور یہاں تک کہاگیاکہ اس حوالے سے مرکز نے اصولی طور پر اتفاق بھی کرلیاہے مگر ابھی تک عملی سطح پر کوئی اقدام نہیں کیاگیا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مغل شاہراہ کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے قومی شاہراہ کا درجہ دیاجائے اور ساتھ ہی ٹنل کی تعمیر کیلئے فوری طور پر عملی اقدامات شروع کئے جائیں جس سے نہ صرف جموں اور سرینگر کے درمیان ٹریفک کی نقل و حمل میں آسانی ہوگی بلکہ خطہ پیر پنچال کی سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے نئے مواقع بھی پیداہوںگے۔