مغل شاہراہ پر سفر کرنے والے لوگوں کی ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ ان سے مسافت کے لحاظ سے بہت زیادہ کرایہ وصول کیاجاتاہے ۔بفلیاز سے لیکر شوپیاں تک اس سڑک کی کل مسافت محض 84کلو میٹر ہے جس کا عام حالات میں 300روپے کرایہ لیاجاتاہے جبکہ سرنکوٹ سے سرینگر تک کیلئے 400روپے،راجوری اور پونچھ سے سرینگر تک کیلئے فی سواری 500روپے وصول کرلئے جاتے ہیں۔تاہم اس پر ستم ظریفی یہ ہے کہ مسافروں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈرائیور تب تب ان سے منہ مانگا کرایہ وصول کرتے ہیں جب جب گاڑیاں کم اورسفر کرنے کے خواہش مند لوگ زیادہ ہوں ۔گزشتہ دنوں عید الاضحی سے قبل بہت بڑی تعداد میں لوگوں کو کشمیر سے خطہ پیر پنچال کا سفر کرناتھا جس کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹاٹاسومو اور دیگر چھوٹی مسافر گاڑیوں کے ڈرائیوروں نے من مانے کرائے وصول کر کے لوگوں کو دو دو ہاتھوں لوٹ لیا۔مسافروں کومجبور پاکرعید سے ایک دن قبل شوپیاں سے سرنکوٹ تک 500روپے سے 700روپے تک کرایہ وصول کرلیاگیا۔اسی طرح سے راجوری اور پونچھ کے دیگر مقامات کو چلنے والی گاڑیوں میں بھی دو گناکرایہ وصول کیاگیا لیکن چونکہ عید کے پیش نظر ہر شخص گھر پہنچنے کیلئے بے تاب تھا اس لئے وہ یہ کرایہ اداکرنے پر مجبور ہوا۔مغل شاہراہ پر یہ ایسی صورتحال ہے جس کا سامنا ہر ایک کو کرناپڑتاہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس روڈ پر صرف اور صرف ٹرانسپورٹرو ں کا قانون چلتا ہے۔ جہاں وہ جب بھی چاہئے کسی روک ٹوک کے بغیر من مرضی کے کرائے آسانی سے وصول کرلیتے ہیں وہیں سواریوں کے چکر میں کئی کئی گھنٹے گاڑیاں کھڑی کررکھتے ہیں اور تب تک گاڑی سٹینڈسے باہر نہیں نکالتے جب تک کہ ان کی گاڑیاں مسافروں سے بھر نہ جائیں ،بھلے ہی اسکے لئے کتنا ہی وقت صرف کیوں نہ ہو۔اتنا ہی نہیں بلکہ قانونی طور پر منظور شدہ نو سواریوں کی جگہ و ہ گاڑی میں دس سواریاں بھرے بغیر کبھی نکلتے ہی نہیں۔ڈرائیوروں کی من مانی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ اگر کوئی مسافراس بات پر اعتراض کرے کہ درمیان والی سیٹ پر تین ہی سواریاں بٹھائی جاسکتی ہیں تو اسے سیدھا گاڑی سے ہی اترنے کے لئے کہاجاتاہے اور بغیر کسی دلیل اور قانونی جواز کے یہ کہاجاتاہے کہ وہ ہمیشہ اس سیٹ پر چار سواریاں بٹھاتے ہیں ۔بلاشبہ اس سڑک پر ٹریفک کا سلسلہ شروع ہونے سے دونوں خطوں خاص طور پر خطہ پیر پنچال کے لوگوں کو سفر کرنے میں آسانی ہوئی ہے اور بیروزگار نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیداہونے سمیت خطے میں اقتصادی ترقی کے امکانات بھی پیدا ہوئے ہیں اور ہر ایک کی دلی خواہش بھی یہی ہے کہ اس روڈ پر اس سے بھی زیادہ گاڑیاں دوڑیں اور اسے ٹنل تعمیر کرکے سال بھر ٹریفک کیلئے کھلارکھاجائے، تاہم بدقسمتی سے حکام کی طرف سے قانونی تقاضے پورے نہیں کئے جارہے اورٹرانسپورٹروں کومن مانی کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے، جو مسافروں کو دو دو ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔اگرچہ شاہراہ کی دونوں طرف چندی مڑھ اور دبجن علاقوں میں عموماًٹریفک پولیس کا ناکہ لگاہوتاہے تاہم کبھی بھی یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ ناکے پر موجود اہلکاروں نے مسافروں سے کرایہ کے بارے میں شکایت سنی ہو یا پھر ڈرائیوروں سے اس بات کی باز پرس کی ہو کہ انہوں نے اضافی سواریاں کیوں کر سوار کی ہوئی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپسی لین دین کے توسط سے وہ اپنے فرائض سے آنکھیں موندھ لیتے ہیں اور ہفتہ وصولی کے اسی چکر میں پریشانیاں مسافروں کو اٹھاناپڑتی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس شاہراہ پر لئے جارہے کرایہ پر نظرثانی کی جائے اور مسافت کے لحاظ سے کرایہ مختص کرکے ڈرائیوروں کو قانون کا پابند بنایاجائے نہیں، تو لوگوں کی یہ شکایات ہمیشہ سامنے آتی رہیں گی کہ اگر دیگر جگہوں پرفی کلومیٹر کے حساب سے کرایہ لیاجاتاہے تو پھر کیوں مغل شاہراہ کیلئے ایسا کوئی قانون نافذ العمل نہیں ہوسکتا۔