خطہ پیر پنچال کو کشمیر سے جوڑنے والی مغل شاہراہ کی دیکھ ریکھ نہ ہونے کے باعث اس کی حالت اس قدر خراب ہوگئی ہے کہ کئی مقامات پر سڑک کانام و نشان ہی مٹ چکاہے ۔639کروڑ روپے کی خطیر رقم سے 2010میں تعمیر کی گئی اس شاہراہ کی حالت انتہائی خراب ہے اور متعلقہ حکام کسی سنجیدہ کارروائی کے بجائے زبانی جمع خرچ سے کام لینے میں مصروف ہیں ۔روڈ کے کنارے بنائی گئی نالیاں بند ہوچکی ہیں اور جگہ جگہ کھڈے بن چکے ہیںجبکہ کئی جگہوں پر پتھر اور ملبہ گرگر کر سڑک ہی باقی نہیں بچی ہے ۔قابل ذکر ہے کہ حکومت اس شاہراہ کو جموں اور کشمیر کے درمیان متبادل سڑک کا درجہ دینے کے اعلان کرچکی ہے اور اسے قومی شاہراہ بھی بنانے کاکہاجارہاہے ۔پی ڈی پی اور بی جے پی نے اپنے کم از کم مشترکہ پروگرام میں مغل شاہراہ کو بارہ مہینے چالو رکھنے کیلئے اس پر چھتہ پانی سے ززی ناڑ تک ٹنل تعمیر کرنے کا اعلان بھی کررکھاہے اور اس حوالے سے گزشتہ برس مرکزی حکومت کی طرف سے ڈی پی آر تیار کرنے کے بعد کافی زیادہ تشہیر بھی کی گئی تھی ۔تاہم ابھی تک کسی بھی اعلان پر عمل درآمد نہیںہو ااور سڑک ختم ہونے کی دہلیز تک پہنچ چکی ہے ۔مغل شاہراہ خطہ پیر پنچال کی ترقی کیلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اوراس کے تعمیر سے خطے کے لوگوں کو بے پناہ فوائد حاصل ہوئے ہیں ۔جہاں دونوں خطوں کے درمیان تجارتی تعلقات میں اضافہ ہواہے وہیں نہ صرف پرانی رشتے بحال ہوئے ہیں بلکہ آپس میں نئے نئے رشتے قائم ہورہے ہیں اور دونوں خطوں کے درمیان ہر طرح کی درمیان دوریاں مٹتی جارہی ہیں ۔یہی نہیں بلکہ پیر پنچال کے لوگوں کا کشمیر سفر بہت ہی آسان بن گیاہے اور جو سفر تین دنوں میں طے ہواکرتاتھاوہی اب تین گھنٹوں میں ہی طے کیاجاسکتاہے ۔اس شاہراہ کی اس قدر اہمیت کے باوجود حکام کی طرف سے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی اور اسی کانتیجہ ہے کہ اس روڈ کا آج تک سرکاری طور پر افتتاح بھی نہیں ہوسکا۔نہ جانے وہ کونسی غیبی طاقتیں ہیں جو اس روڈ کی تعمیر سے اب تک اس کی مخالف رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان طاقتوں کے دبائو میںآکر حکام نے مغل شاہراہ کو لاوارث چھوڑ دیاہے اور اس کی دیکھ ریکھ نا کے برابر ہورہی ہے ۔اگرچہ شاہراہ پر چند جے سی بی مشینیں کھڑی رہتی ہیں جو ملبہ یا پتھر گرنے پر حرکت میں آتی ہیں لیکن نہ ہی اس روڈ کی مرمت کی جارہی ہے اور نہ ہی ان مقامات سے دوبارہ روڈ نکالنے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں جہاںسے روڈ پسیوں اور پتھروں تلے د ب گیا ہے ۔حکام کی طرف سے 57کروڑ روپے کا پروجیکٹ منظوری کیلئے روانہ بھی کیاگیا لیکن اس حوالے سے بھی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ۔حکومتی عدم توجہی کاشکار بن کر یہ شاہراہ ایک لنک روڈ کی شکل اختیار کرگئی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی حالت خراب ہوتی جارہی ہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اپنے ہی اعلانات پر عمل کرے اور ٹنل کی تعمیر کے ساتھ ساتھ شاہراہ کی دیکھ ریکھ کی خاطر خصوصی توجہ دی جائے تاکہ کروڑوں روپے سے تعمیر ہونے والاایک بہت قیمتی اثاثہ تباہ ہونے سے بچ سکے اور ہر دو خطوں کے درمیان پھر سے دوریاں پیدا نہ ہونے پائیں۔