مغل شاہراہ کو بارہ مہینے آمدورفت کے قابل بنانے کیلئے اس پر ٹنل کی تعمیر اور اسے قومی شاہراہ کادرجہ دینے کے اعلانات تو کئے جاتےرہے ہیں لیکن خطہ پیر پنچال کو وادی کشمیر سے ملانے والی اور جموں و کشمیر صوبوں کے درمیان ایک بہترین متبادل ثابت ہونے والی اس سڑک کی تمام تراہمیت کے باوجود اسے عدم توجہی کاشکار بنادیاگیاہے۔اس روڈ کو اس قدر نظرانداز کردیاگیاہے جیسےاس کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہ ہو اور یہی وجہ ہے کہ آج تک اس کا سرکاری طور پر افتتاح عمل میں نہیں لایاجاسکا۔حالیہ کچھ عرصہ سے ریاستی حکومت کی طرف سے اس سڑک کو قومی شاہراہ کا درجہ دے کر اس پر ٹنل تعمیر کرنے کے باربارخواب دکھائے گئے ہیں لیکن سڑک کاچندی مڑھ سے لیکرپیر گلی تک 35کلو میٹر کا حصہ اس قدر تباہ ہوچکاہے کہ ایک گھنٹہ کے سفر میں ڈھائی گھنٹے سے کم صرف نہیں ہوتااوراگرحکام کی عدم توجہی کا یہی حال رہاتو بہت جلد سڑک کا یہ حصہ ختم ہوکر رہ جائے گا۔اس 35کلو میٹر حصے کی نہ ہی تو مرمت کی جارہی ہے اور نہ ہی دیکھ ریکھ کاکوئی انتظام ہے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ موسم گرما کے دوران روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس شاہراہ پر سفر کرتے ہیں جن کو اس کی خراب حالت کی وجہ سے مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے اوران کا قیمتی وقت بھی ضائع ہوجاتاہے۔شاہراہ پر بڑے بڑے کھڈے بن چکے ہیں اور بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں روڈ کا نام و نشان ہی مٹ چکاہے۔یہ روڈ 2009میں تعمیر ہونے سے لیکر اب تک متعلقہ حکام کی بے حسی کاشکار بناہوا ہے اورخطوں کو آپس میں ملانے والے اس پروجیکٹ کے ساتھ وہ سلوک بھی نہیں کیاجارہاجوچند ہزارکی آبادی کیلئے رابطہ سڑک کی حیثیت رکھنے والی روڈ کے ساتھ کیاجاتاہے۔یہ بات حیران کن ہے کہ ریاستی حکومت اس شاہراہ کی اہمیت سے انکار نہیں کرتی اور اس کوجموںسرینگر شاہراہ کے بند ہونے پر بہترین متبادل قرار دیتے ہوئے قومی شاہراہ تک کا درجہ دلانے کی وکالت کرتی ہے لیکن اس کی طرف سے اس کی دیکھ ریکھ اور مرمت کیلئے ادنیٰ سی کوشش بھی بروئے کار نہیں لائی جاتیں۔ بے شک سڑک پر چار سے پانچ مہینے کے دوران برف موجود رہتی ہے جس وجہ سے اس کا بہت سارا حصہ تباہ ہوگیاہے تاہم مناسب رقومات دستیاب رکھ کر اس کی ہر سال مرمت کی جاسکتی تھی مگر اب تک ایسا کچھ بھی نہیں کیاگیا اور ریاستی سرکار شائد اس بات کا انتظار کررہی ہے کہ کب مرکز سے ٹنل کی تعمیر کو حتمی منظوری ملے اور پھر اسے سال بھر قابل آمدورفت رکھنے کیلئے اسی حساب سے اقدامات کئے جائیں گے۔حالانکہ مرکز نے ٹنل کی تعمیر کے حوالے سے اصولی طور پر اتفاق تو کیاہے تاہم یہ ایک ایساسہاناخواب ہے جس کی تعبیر میں نہ جانے کتنا وقت لگے گا۔ریاستی حکومت پر لازم آتاہے کہ مرکز سے ٹنل کی منظوری ملنے تک اس شاہراہ کی مناسب دیکھ ریکھ کی جائے اور اسے مزید تباہ ہونے سے بچایاجائے تاکہ روزانہ اس پر سفر کرنے والے مسافروں کو مشکلات کاسامنانہ کرناپڑے۔شاہراہ کی تباہی کے باعث آج خطہ پیر پنچال سے سرینگر تک کا سفر پورے ایک دن میں طے ہوتاہے جبکہ اس کی تعمیر کے وقت یہی سفر تین سے چار گھنٹوں میں طے ہوجاتاتھا اور لوگ صبح راجوری و پونچھ سے نکل کر دن میں اپنے دفتری کام یا طبی معائنہ کے بعد واپس شام کو اپنے گھروں کو بھی پہنچ جاتے تھے تاہم آج ایسا ممکن نہیں رہا اوریہ سفر طویل تر ہوگیاہے۔بے شک ٹنل کی تعمیر یا روڈ کو قومی شاہراہ کا درجہ دینا مرکز کے ہاتھ میں ہے لیکن اس کی دیکھ ریکھ اور مرمت کاکام تو ریاستی حکومت کے ہی دائرہ اختیار میں ہے سے چشم پوشی کرکے ایک اہم اثاثے کو تباہ کیاجارہاہے۔