1916 میں پہلی جنگ عظیم کے بعد فرانس، برطانیہ اور رُوس کی سلطنتوں نے جنوب مغربی ایشیاء میں مسلم علاقوں کے حصے بخرے کرکے مسلم دنیا کے شکم میں تشدد، تخریب کاری، غیریقینی اور عدم استحکام کا خنجر گھونپ دیا۔برطانوی سفارت کار مارک سائیکس اور اُن کے فرانسیسی ہم منصب فرینکوائس جارج پیکو نے نقشہ پر چند لکیریں کھینچ کر مشہور ِعالم معاہدہ رقم کیا جو اب ’’سائیکس۔پیکو معاہدہ ‘‘کے نام سے موسوم ہے۔پہلی جنگ عظیم کے دوران اپنی فتح سے پہلے ہی فرانس اور برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کے بڑے حصے وہاں کے لوگوں کی رائے کے بغیر ہی آپس میں بانٹ لئے تھے۔فرانس کے حصے میں موجودہ ترکی کے جنوب مشرق سے لے کرشمالی عراق، شام اور لبنان تک کے حصے آئے تھے جبکہ جنوبی علاقے ، جو کہ آج کے عراق کے وسط تک پھیلے ہوئے تھے، برطانیہ نے اپنے حصے کے طور رکھ لئے تھے۔
اُدھر جرمنی اپنے دشمنوں کو مشرق وسطیٰ میں زیر کرنا چاہتا تھا۔ جرمن چونکہ سلطنت عثمانیہ کے اتحادی تھے، انہوں نے ترکی کے سنی خلیفہ کو مدد فراہم کرکے عربوں کو برطانیہ کے خلاف ـ’’مقدس جہاد‘‘ کے لئے تیار کرنے کا کام سونپا۔دوسری طرف برطانیہ نے شریف مکہ(اُس وقت شریف مکہ ترکی کے سلطان کے بعد بڑا دوسرا بڑا منصب تھا)حسین بن علی کو یہ پیش کش کی کہ اگر عرب برطانیہ کی حمایت کریں گے تو نہ صرف عربوںکی سلطنت کے قیام میں برطانیہ مدد کرے گا بلکہ شریف مکہ کی مرضی کے مطابق مخصوص عرب علاقوں کو اُس کی سلطنت میں شامل کیا جائے گا۔واقعتا ایسا ہی ہوا، اور برطانوی ایجنٹ تھامس ایڈورڈ لارنس (لارنس آف عربیہ)کے ساتھ مل کر فیصل بن حسین نے عثمانیوں کو شکست دے دی۔
بالآخر پیرس میں امن کانفرنس کے دوران سائیکس پیکو معاہدہ ظہور پذیر ہوا، اور عربوں کی سلطنت کا خاکہ تسلیم کیا گیا، لیکن علاقے انہیں اپنی مرضی کے مطابق نہیں بلکہ برطانیہ اور فرانس کے معاشی مفادات کے زیرنظر دئے گئے۔اس معاہدے کے ذریعہ پہلے شام اور عراق کی ریاستیں قائم کی گئیں، اور 1922میں لبنان کی ریاست وجود پذیر ہوئی۔اسی سال بین الاقوامی برادری نے ’’یہودی لوگوں کے لئے قومی گھر‘‘ کا نظریہ سامنے لایا اور اسطرح صرف ربع صدی کے عرصہ میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔1923میں برطانیہ نے امارتِ شرق اردن کو فلسطین سے الگ کردیا اور اس طرح موجودہ اُردن یا جارڈن کی بنیاد پڑی۔اس کے ساتھ ہی کویت کو بھی آزاد ریاست بنایا گیا۔
برطانیہ اور فرانس کے اس کھیل کے باعث ایک نیا ورلڈ آرڈر تشکیل دیا گیا جس میں مسلم ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں تھیں اور خانہ جنگی و خون خرابہ کا وہ سلسلہ چل پڑا جو اب بھی جاری ہے۔
لبنان کی خانہ جنگی 1975سے 1990تک جاری رہی،ایران اور عراق کی جنگ ہوئی، 1990میں عراق نے کویت پر حملہ کرکے پہلی خلیجی جنگ کو چھیڑا۔اسی طرح ترکی، عراق اور شام کے کرد علاقوں میں بھی کشیدگی ایک معمول بن گئی۔بعدازاں اُسامہ بن لادن اور صدام حسین کو ٹھکانے لگانے کے لئے اس صدی کے آغاز میں ہی افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی گئی۔ اس یکطرفہ جنگ کے بطن سے دہشت گرد گروپ داعش نے جنم لیا ۔ قابل ذکر ہے داعش نے اپنی تحریک کی شروعات کو ’’سائیکس پیکو معاہدہ کا اختتام ‘‘ قرار دیا تھا۔ لیکن داعش نے انسان دشمنی، برادر کشی اور بربریت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اسی داعش کو ختم کرنے کیلئے ایران،سعودی عرب، امریکہ اور روس کے متوازی اتحادوں نے لاکھوں مسلمانوں کو تہہ تیغ کردیا ہے، اور اب مشرق وسطیٰ میں جاری اس سوسالہ آگ پر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس اعلان سے تیل ڈال دیا ہے کہ یروشلم ہی اسرائیل کا دارالحکومت ہے۔
اس مختصر سے پس منظر کا مقصد اُس فکری مغالطہ کا ازالہ ہے جس کا شکار جدید مسلم دانش ور بھی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ عربوںاور ترکوں نے بھی اپنے وقت میں نوآبادیاتی اہداف حاصل کئے، انہوں نے بھی اپنے حصے کا استعمار ی سلسلہ آگے بڑھایا، لیکن مسلمانوں نے دنیا کو ایک کیک سمجھ کر اس کی بندر بانٹ نہیں کی۔دلچسپ بات ہے کہ اسرائیل کی حمایت کرنے کے باعث پوری مسلم دنیا امریکہ مخالف ہوگئی ہے، لیکن اسرائیل کے قیام میں جو کردار رُوس نے ادا کیا وہ تجزیہ نگاروں کی نظروں سے اوجھل ہے۔1948میں اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد سویت روس نے اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ عربوں کی مزاحمت کے خلاف اس کی دفاعی امداد کی اور اپنی سیٹلائٹ سٹیٹ چیک سلوواکیاسے ہتھیاروں اور دیگر اسلحہ کی کھیپیں اسرائیل پہنچائی گئیں۔اسی طرح جب سویت روس نے وسط ایشیا کے گرم پانیوں تک رسائی کے لئے افغانستان پر چڑھائی کردی تو امریکہ اور روس کے درمیان جاری سرد جنگ ایک پراکسی وار میں بدل گئی اور صدر ریگن نے افغان مجاہدین کو امریکہ کے بانیوں سے بھی مقدس شخصیات قرار دے کر انہیں ہتھیاروں سمیت وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا، جہاں ان کی خاطر مدارات ہوئی۔ایک طرف سو برسوں سے پنپ رہی ظلم او رمحرومی کی آگ ، اور دوسری طرف بیسویں صدی میں بڑی طاقتوں کے درمیان پراکسی وارکا دانستہ یا نادانستہ حصہ بننے کے سانحات، ایسے میں اگر مسلمان کو لگتا ہے کہ پوری دنیا اس کی ہستی کے خلاف ہے تو انتہا پسندی، تشدد اور مسلح مزاحمت ایک فطری ردعمل ہے۔تاریخی حوادث اور سازشوں کے نتیجہ میں برآمد ہونے والے سیاسی ردعمل کے قلابے اسلامی عقائد کے ساتھ ملانے کارجحان ایک سیاسی فیشن ہوسکتا ہے، لیکن یہ حقیقت سے بعید ہے۔ مغرب بیزاری کی جو لہر فی الوقت مسلم دنیا میں جاری ہے، اس کے اسباب خالص تاریخی ہیں اور اکیسویں صدی کے آتے آتے بڑی قوتوں نے اب تہذیبی بنیادوں پر مسلم تہذیب کو قدامت پسند اور پرتشدد ثابت کرنے کے لئے جدید میڈیا کا بھرپور استعمال کیا۔ داعش کی تکفیری مہم یا طالبان کا بودھ مجمسوں کو بموں سے اُڑانا یا ملالہ یوسف زعی پر قاتلانہ حملہ بلاشبہ ان قوتوں کی فرسٹریشن کا مظہر ہے، لیکن جنگ عظیم اول سے اب تک دنیا میں خاک و خون کا جو کھیل کھیلا جارہا ہے، اس کا کلیدی کردار کون ہے؟ مذہب اور عقائد معاشرے میں سیاسی یا اخلاقی تبدیلی لانے کے لئے بنیادی محرک کے طور کام کرتے ہیں، لیکن جب معاشرے مذہب کے نام پر سیاست کرنے لگتے ہیں تو اغیار کو انسانیت کے خلاف اپنے جرائم چھپانے اور مسلمانوں کو فساد کی جڑ قرار دینے کا سنہری موقع ملتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نواستعماری قوتوں کی شعبدہ بازیوں کا جواب سیاسی لہجے میں دیا جائے، اس میں مذہب کو گھسیٹنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ تب ہی ہوگا جب مسلم سیاست بھی کرسچن سیاست کی طرح اپنے تہذیبی اقدار کا دفاع خالص جدید اسلوب اور بیانیہ کے مطابق کرنے کی اہل ہو۔
(بشکریہ ’’ ہفت روزہ نوائے جہلم ‘‘سرینگر)