حیدرآباد// اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر ڈاکٹر حسن روحانی نے گزشتہ شب حیدرآباد میں جنوبی ہند کے علماء مشائخ اور معزز شخصیتوں کے ایک نمائندہ اجتماع سے خطاب کیا جس میں تلنگانہ ' اے پی ' کرناٹک ' تاملناڈو وغیرہ جنوبی ریاستوں کے علماء مشائخ ' سیاسی شخصیتیں ' مختلف شعبہ جات کے ماہرین اور معزز افراد شریک تھے ۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے حسن روحانی نے کہا کہ ایران امن کا خواہاں ہے ' صرف اسلامی ممالک ہی نہیں بلکہ اقوام عالم سے امن کامتقاضی ہے ۔ ایران کا یہ ایقان ہے کہ جنگ ' تشدد اور ہتھیار مسائل کا حل نہیں ہیں ' بات چیت اور سفارتی کوششوں سے ہی مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔عالم اسلام میں اتحاد نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا شیرازہ بکھر گیا ہے ' مغربی ممالک نے مسلمانوں اور مسلم ممالک کو آپس میں تقسیم کردیا ہے ۔ ایران تمام اسلامی ممالک میں اتحاد چاہتاہے اور یہ نہیں چاہتا کہ اسلامی ممالک میں آپس میں دوری برقرار رہے ۔شام ' یمن اور دیگر ممالک کے مسلمانوں کے مسائل کی یکسوئی صرف اتحاد کے ذریعہ کی جاسکتی ہے ۔صدر ایران ڈاکٹر حسن روحانی نے کہا کہ دشمنان اسلام کی جانب سے اسلام کو تشدد کا دین بتایا جارہا ہے جبکہ اسلام دین رحمت اور معتدل دین ہے ۔ اسلام کے حقیقی پیام کو نہ صرف سمجھنے کی ضرورت ہے بلکہ اسے دنیا کے روبرو صحیح پس منظر میں پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ انقلاب اسلامی ایران نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اسلام صرف اپنے گھر ' خاندان ' علاقہ کے لئے نہیں آیا ہے بلکہ وہ دنیائے انسانیت کی بھلائی کرسکتا ہے ۔ اسلام میں قانون انسانیت موجود ہے ۔ اسلام میں سیاسی ' سماجی ' معاشی نظام موجود ہے ۔ رسول رحمتؐ ہمیشہ کے لئے تمام عالموں کے لئے رحمت بناکر بھیجے گئے ہیں۔ رسول اکرمؐ میں دنیائے انسانیت کے لئے ایک کشش موجود ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن مجید کے پیام کو دنیا اور نوجوان نسل کے سامنے پیش کرکے ہم انہیں سیدھی راہ دکھاسکتے ہیں۔ اگر اسلام کا پیام رحمت ہم دنیا اور نوجوانوں کے سامنے پیش نہیں کرسکے اور وہ گمراہ ہوجائیں تو اس کی ذمہ داری ہم پر عائد ہوگی۔صدر ایران نے کہا کہ ہم تاریخ کے ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں سے ہم نئی تبدیلیاں لاسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن ' رسول اکرمؐ کی سیرت پاک اور اسوہ حسنہ کو ہم اپنے لئے مشعل راہ بنائیں۔ اسلام کی تعلیمات کے مقاصد نہایت بلند ہیں جو کسی خاص مذہب یا علاقہ کے لئے محدود نہیں ہیں۔ اللہ کے نیک بندوں نے ہمیشہ نیکی کا حکم دیا اور برائیوں سے روکنے کا کام کیا ۔ نیکیوں کا حکم دینا اس لئے ضروری ہے کہ اسلام کی تمام خوبیاں دنیا کو بتائی جاسکے اور برائیوں سے روکنا اس لئے ضروری ہے کہ کرئہ ارض سے برائیوں کا خاتمہ کیا جاسکے ۔ انہوں نے حدیث پاک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کوئی مسلمان دنیا کے اگر کسی خطہ میں رہتا ہے اور وہ کوئی مصیبت میں مبتلا ہو یا مصیبت میں مبتلا کوئی قوم بھی مسلمانوں سے مدد طلب کرے اور مسلمان ان کی مدد نہ کرے تو یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان عظیم الشان ماضی کے حامل ہیں۔ اسلاف نے رسول اکرمؐ کے قول پر علم کو دنیا تک پہنچایا۔ مسلمانوں نے مغرب کو علم عطا کیا۔ مغرب کے ساتھ تعلقات رکھے لیکن مغرب نے اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ خلیج میں بالخصوص عراق میں کرد' سنی' شیعہ آپس میں مل جل کر رہا کرتے تھے ۔ ملک شام میں مختلف مسالک کے درمیان برادرانہ تعلقات تھے ۔ خود ہندوستان بھی کثرت میں وحدت کا بہترین نمونہ ہے جہاں تمام مذاہب کے ماننے والے مل جل کر ہزاروں برس سے زندگی گزار رہے ہیں ان میں صوفی' سنی' شیعہ' ہندو' سکھ' عیسائی شامل ہیں۔ ان تمام نے مل کر ہندوستان کو ترقی دی لیکن آج مغربی ممالک کی جانب سے سازشوں کے طور پر ایسے تکفیری گروپس کو وجود میں لایا جارہا ہے جو مختلف اقوام ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی آپس میں تقسیم کررہے ہیں۔ کلمہ پڑھنے والوں' اہل بیتؓ سے محبت رکھنے والوں اور قبلہ واحد پر متفق مسلمانوں کو منتشر کررہے ہیں۔اسلامی جمہوریہ ایران نے گزشتہ 40برسوں سے یہ کوشش جاری رکھی ہے کہ اتحاد برقرار رہے ۔ جنگ اور تشدد کا خاتمہ کیا جاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ استعمار اور سامراجیت پسند طاقتیں جو اس وقت ٹکنالوجی اور خام مال کے حامل ہیں' ترقی پذیر ممالک کو بھاری قیمت میں ٹکنالوجی فروخت کررہے ہیں۔ غریب ممالک کا استحصال کررہے ہیں۔ عوام پر جنگ کو مسلط کیا جارہا ہے ۔ موجودہ دور انفارمیشن ٹکنالوجی کا ہے اور انفارمیشن ٹکنالوجی کا صحیح استعمال کرتے ہوئے مسلم نوجوان اسلام کا شاندار ماضی دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں نوجوان انفارمیشن ٹکنالوجی کی بدولت گھر میں اپنے والدین کے ساتھ اگر ایک گھنٹہ وقت گزارتے ہیں تو مابقی اوقات اپنے موبائیل فون میں گزاردیتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اسلامی اقدار کے ساتھ جدید تعلیم حاصل کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ 1979ء میں ایران اسلامی انقلاب سے ہمکنار ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ہند۔ ایران کے مابین صرف سفارتی تعلقات ہی نہیں ہیں بلکہ دونوں ممالک کے مابین صدیوں سے تہذیبی' تمدنی' ثقافتی رشتے رہے ہیں۔انہوں نے ہندوستان کو ایک خوبصورت ملک قرار دیا اور کہا کہ مسلمانان حیدرآباد کی خدمت میں وہ ایرانی عوام کے نمائندے کی حیثیت سے حاضر ہوئے ہیں۔ رواداری اور محبت کا پیام لائے ہیں اور اس بات کے خواہاں ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات مستحکم ہوں۔ روابط میں اضافہ ہو۔مولانا مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ اسلام امن و سلامتی کا پیام لایا۔ اسلام کی نگاہ میں علاقہ' زبان' تہذیب ثانوی حیثیت رکھتی ہے ۔ اصل اسلام' انسانیت ہے ۔ جدید ترقی نے ان چیزوں کو اسلام پر فوقیت دے دی ہے ۔ کہیں تہذیب و تمدن کو فوقیت دے دی گئی تو کہیں زبان و علاقہ کو فوقیت دی جارہی ہے جس کی وجہ سے مسلمان گمراہی کا شکار ہوچکے ہیں۔ موجودہ دور میں اسلام اور مسلمانوں پر دشمنوں کی یلغار اور حملے ہورہے ہیں۔ آپسی انتشار اور خلفشار کی وجہ سے معمولی باتوں کی وجہ سے مسلمان اپنے دفاع سے قاصر ہیں۔ مسلمان اندرونی طور پر سنی' شیعہ' وہابی اور دیگر مسالک کے ماننے والے ہیں لیکن دشمن کی نگاہ میں وہ صرف مسلمان ہیں۔ جب دشمن کی یہ فکر ہے تو ہماری فکر بھی اتحاد پر مبنی ہونی چاہئے ۔ آپسی اختلافات کو روکنے کے لئے سبیل نکالی جانی چاہئے ۔ ملک شام' عراق' افغانستان تباہ ہوچکا اور دیگر ممالک تباہ ہورہے ہیں۔ 50 سے زائد مسلم ممالک کی تعداد ہونے کے باوجود ان ممالک کے مہاجرین کو یوروپ میں پناہ مل رہی ہے ۔