شہباز رشید بہورو
شخصیت سازی کا عمل ماہ صیام میں جس سرعت اور رفعت کے ساتھ انجام دیا جا سکتا ہے وہ باقی مہینوں میں بے شمار مسائل سے دوچار رہتے ہوئے مشکلات سے گھرا رہتا ہے ۔ماہ صیام روحانیت کے خوشنما لمحات کا اصلی جوہر ہے جو جس شخص کے دل ودماغ میں بس جاتا ہے وہ ایک خوشنما شخصیت پاتا ہے ۔باقی مہینوں میں وہ روحانیت کی فزاجو خارجی طور ماحول میں سرایت کر دی جاتی ہے مفقو د ہوتی ہے ۔اس لئے نفس پرقابو پانا ایک کھٹن کام بن جاتا ہے ۔یوں تو نفس پر قابو پانا ہی سب سے مشکل ترین کام ہے شاید جس سے زیادہ مشکل کام اور کوئی نہیں ہو سکتا ۔خلا میں جاناآسان ہوتا ہے لیکن نفس پر قابو پانا اس کے مقابلے میں مشکل کام ہے۔
بہر حال ماہ صیام شخصیت سازی کے عمل میں جس جز کی تعمیر میں اقدامی رول ادا کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ماہ صیام کے ذریعے ایک انسان با مقصد زندگی گذارنے کا خوگر بنتا ہے ۔کیونکہ بامقصد زندگی Meaning full life) )ہی ایک انسان کو ہمیشہ ایک صحیح منزل اور معتبر راستہ عطا کرتا ہے ۔بے مقصد زندگی بس ایک کھلونہ بن جاتی ہے ۔جس شخص کی کوئی منزل نہ ہووہ بس اس دنیا میں چہل قدمی کرتا ہے ۔جیسے ایک فٹ بال کے لئے اگر گول کا تصور نہ ہوتو وہ بس صرف کھلاڑیوں کی لاتوں کا کھلونا رہتا ۔اس لئے مقصد اور نصب العین کا ہونا ایک انسا ن کو اس دنیا میں ثبات Stability)) عطا کرتا ہے ۔اس لئے جدید علم نفسیات بھی مقدس اور نصب العین کو ایک انسانی زندگی کی اہم ترین ضرورت قرار دے کر اس کی تحصیل کے لئے جدوجہد کو نفسیاتی طور انسان کی خوشی کا ذریعہ تسلیم کرتا ہے ۔مقصد اور نصب العین کے حوالے سے جدید علم النفسیات تو صرف اس دنیا کی حد تک جاتی ہے لیکن ایک بہترین ٹارگٹ ہونے کے علی الرغم انسان حقیقی Bliss of life سے محروم رہتا ہے اور نتیجتاً پریشان رہتا ہے ۔یہ پریشانی دنیاوی اعتبار سے کامیاب ترین شخصیات کو اکثر لاحق رہتی ہے،کیونکہ اس کائنات کا ایک متعین مقصد ہے اگر اس مقصد کے ساتھ انسان کا مقصد ہم آہنگ ہوجائے تو انسان آفاق و انفس میں حد درجہ uniformity پاتا ہے جس کی وجہ سے اسے اس زمین پر رہتے ہوئے ایک گوشہ عافیت نصیب ہوتا ہے ۔اگر انفسی مقصد اور آفاقی مقصد میں ہم آہنگی نہیں ہو تو انسان سنتولن کی عدم موجودگی میں اظطراب کا شکار رہتا ہے ۔ماہ صیام بندہ مومن کو اس مقصد کا چاہنے والا بناتا ہے جو پوری کائنات کا مقصد ہے ۔ماہ صیام میں کی جانے والی ہر عبادت بندہ مومن کے اندر رجوع الی اللہٰ کی کیفیت پیدا کرتی ہے ۔بندہ مومن کو محسوس ہوتا ہے واقعی میں ایک بامعنیٰ زندگی گزار رہا ہوں ۔میری زندگی کا ایک خاص مقصد ہے ۔ قل ان صلاتی و نسکی ومحیای للہ رب العالمین کی عملی تعبیر ماہ سیام میں دیکھنے کو ملتی ہے اور بعدِ رمضان اس کیفیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے ۔
عبادت کا اصلی تصور ہی بندے کی زندگی کو بامعنیٰ بناتا ہے ۔Meaningfull life کی اہمیت کو علم النفسیات بھی تسلیم کرتی ہے ۔علم نفسیات میں تین نظریات بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔پہلا سگمنڈ فرائڈ Sigmud Freud کا نظریہ ہے جس کے مطابق انسان کی زندگی کا اصل محرک مسرت کی خواہش Urge to pleasure ہے ۔جب کہ الفرڈ ایڈلر Alfref adler کا نظریہ یہ کہتا ہے کہ انسانی زندگی کا اصل محرک بالادستی کی خواہش Urge to dominate ہے ۔تیسرا نظریہ Victor Frankl کا ہے جس کے مطابق زندگی کی اصل معنویت کی خواہش Will to meaning ہے ۔اس موضوع پر اس کی کتاب Mans Search of Meaning دنیا کی مقبول ترین کتابوں میں شمار کی جاتی ہے ۔
بامقصد زندگی گذارنے کا ہنر جو ماہ صیام سکھاتا ہے دنیا کا بڑا سے بڑا Trainer بھی نہیں سکھا سکتا ہے۔ماہ صیام صرف بامعنیٰ زندگی گذارنا ہی نہیں سکھاتا ہے بلکہ حقیقی بامعنی ٰ زندگی (Real meaning full life)گذارنا سکھاتا ہے ۔ماہ صیام سحری سے لیکر افطار تک بندہ مومن کی Counselling کرتا ہے پورا دن اچھائی کے انتخاب میں گذرتا ہے ۔پورا دن Self control کی مشق میں گذرتا ہے ۔ان تمام افعال میں بندہ مومن کا مقصد رضائے الٰہی رہتا ہے ۔جس سے انسان کو روحانی تسکین کا اصل راز معلوم ہوتا ہے ۔اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ واقعتاً بندہ مومن کو خوشی کا ذریعہ صرف اور صرف عبادات اور نیت کی درستگی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے ۔عام طور پر انسان کو اپنے دن کی Designing کرنا پڑتی ہے لیکن ماہ صیام میں بندہ مومن کے ہر دن کی Divine designing ہوتی ہے ۔آپ اندازہ کریں جس دن کی Designing اللہ تعالیٰ کرے وہ ایک بندہ مومن کے لئے کتنا بابرکت ،مفید ،کار آمد اور باعث ِ رحمت ہوگا ۔اس کے کتنے روحانی فیوض و برکات ہونگے اس کا اندازہ ہر بندہ مومن کو ہوتا ہے بشرطیکہ ماہ صیام کو تقوی ٰ کی صفت سے متصف ہو کر گذارا جائے اور ماہ صیام کی حق ادائیگی میں سنجیدہ ہو ۔
ماہ صیام میں بامعنی ٰ زندگی گذارنے کا طریقہ سیکھ کر ہم انسانی شخصیت کے مختلف اجزا پر گفتگو کریں گے ۔پہلا جز یہ ہے کہ ہم ماہ صیام کے ذریعے روحانی طور ارتقا پذیر ہو نگے ۔ماہ صیام کے ذریعے ہم حقیقی روحانی ارتقا کی لذت محسوس کر سکتے ہیں ۔مغرب میں روحانیت کی تلاش میں سیکولر روحانیت کا تصور بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے جس کے مطابق انسان روحانی طور مطمئن ہونے کے لئے خود ہی سے مدد حاصل کرسکتا یعنی انسان کو خود(Self)میں دفن کر دیا جاتا ہے ۔انسان کو خود سے باہر نکل کر خدا سے جڑنے نہیں دیا جاتا ۔یہ طریقہ وقتی طور انسان کو دماغی طور Free کر سکتا ہے لیکن تسکین کے اصلی مرکز یعنی دل کو سکون سے مزید خالی کرتا چلا جاتا ہے ۔کیونکہ جب انسان خدا سے جڑ ہی نہیں پایا ،اس کی یاد کو اپنے دل میں بسا ہی نہیں پایا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان قلبی سکون کی لذت محسوس کر سکے ۔قرآن نے اس کیفیت کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ ’’الا بذکر اللہ تطمئن القلوب ‘‘۔مغرب کی اس Secular Sprituality میں انسان کو خدا کے تصور کے بغیر مراقبہ ،رحم دلی ،احساسِ ہم آہنگی وغیرہ سکھایا جاتا ہے جس سے مقصود حاصل ہوتے ہوئے رہ جاتا ہے ۔
مغربی روایات کے برعکس اسلام کا روحانیت کا تصورر یہ ہے کہ بندے کو اپنے خالق کے ساتھ جوڑا جائے ،بندہ کا تعلق خدا کے ساتھ مضبوط کیا جائے اور بندہ کو ہر کام کی کرنے کی غرض صرف رضائے الہی بتائی جائے اوریہ ہے اصل میں روحانیت کا حقیقی تصور ۔جب بندہ یہ محسوس کرے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اللہ میرا ولی ہے ،وہ میرے ساتھ ہے اور میں اس کا چہیتا ہوں ،اس وقت بندہ مومن کو روحانیت کی لذت حاصل ہوتی ہے ۔ورنہ خالص شور وغوغاسے کچھ حاصل نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ بڑبڑانےکی عادت لگ جاتی ہے ۔ماہ صیام کے ان روحانی لمحات میں ہم قرآن کے ساتھ روحانی تعلق مضبوط کرنے ،نوافل ،ذکرو اذکار ،شب بیداری ،استغفار اور اعتکاف کے ذریعے اپنا تعلق خدا کے ساتھ مضبوط کر سکتے ہیں ۔نتیجتاًہم روحانی طور بلند ہوں گے ۔
ماہ صیام کے ذریعے ہم اپنا ایک مقام سماج میں قائم کرسکتے ہیں ۔اس کے لئے لوگوں کے ساتھ محبت اور رواداری کا طریقہ اختیار کریں ۔لوگوں کی ہر نوع کی مدد کریں خصوصاً مالی امداد تو ایک ایسی سیڑھی ہے جس کے ذریعے ہم بیک وقت حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوتے ہیں ۔اس سماجی ارتقا کے ذریعے آپ سوسائٹی میں قیمتی ہونے کا ثبوت پیش کر سکتے ہیں ۔اس سماجی ارتقا کے لئے ماہصیام سے بہتر اور کوئی موقع نہیں ماہ صصیام کے ذریعے ہم علمی اور فکری طور ارتقا پذیر ہو سکتے ہیں ۔جس کے لئے ماہ صیام جو کہ قرآن کا مہینہ ہے اس میں قرآن کا گہرا مطالعہ کرنے کی عادت ڈال سکتے ہیں ۔کیونکہ قرآن انسانی عقل کو غورو فکر کے بہتریں امکانات اور مواقع سے آگاہ کرتی ہے ۔قرآن انسانی جستجو کو افادیت سے آگے بڑھا کر مقصدیت سے جوڑ دیتا ہے ۔قرآن سے ہمیں فطری سوالوں کے جوابات ملتے ہیں ۔اس حوالے سے مزید جاننے کے لئے جید عالم دین محی الدین غازی صاحب ’’ْرآن عظیم ترین نعمت ‘‘ اور عائض القرنی کی ’’لاتحزن ‘‘ کا مطالعہ بہت مفید رہے گا ۔
ماہ صیام میں ہم جذباتی نشونما (Emotinal development) کا ایک بہترین موقعہ پاتے ہیں ۔انسانی جذبات کو جو سب سے زیادہ نْصان پہنچانے والی شئے ہوتی ہے وہ ہے غصہ ۔Anger کو زیر قابو لانے کے لئے ماہ صیام سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں ۔حدیث میں آتا ہے کہ اگر روزوں میں آپ سے گالم گلوچ کرے ۔آپ React نہ کریں بلکہ تھوڑا سا Pause لے کر اسے جواب دین کہ میں روزہ سے ہوں ۔اس قسم کا رویہ اپنا کر انسان Anger Management کا وہ طریقہ سیکھتا ہے کہ جسے آپ دنیا کے کسی Anger Specialist سے بھی نہیں سیکھ سکتے ،یہاں تو آپ ضبط اس لئے کر رہے ہیں کہ اللہ کا حکم ہے ۔اس اطاعت کے ذریعے جو فائدہ آپ کو فوری طور حاصل ہو گا وہ آپ قلبی دنیا میں سکینت کی لہروں سے مچی ہوئی ہلچل کو محسوس کرتے ہوئے ہوگا ۔اس خاص مضمون پر آپ دعوت میں شائع کیا ہوا مضمون ’’رمضان اور روحانی ارتقا ‘‘ از جناب ایس امین الحسن صاحب کا پڑھ سکتے ہیں ۔