اسد مرزا
مغربی ایشیا میں حماس اور اسرائیل کے درمیان تازہ ترین تنازعے کے سولہویں روز نے پوری دنیا کو عالمی طاقتوں اور حتیٰ کہ علاقائی طاقتوں کا ’دوغلہ پن‘ ظاہر کردیا ہے۔ جہاں ایک طرف مغربی طاقتیں اسرائیل پر زور دے رہی ہیں کہ وہ اس کی طرف سے تین محاذوں پر حملہ کرنے سے پہلے احتیاط برتے، وہیں امریکہ کے صدر نے گزشتہ اتوار کو نشر ہونے والے سی بی ایس کے’’ 60 منٹس‘‘ پروگرام کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسرائیل غزہ پر زمینی حملہ کرتا ہے تو یہ ایک ’’بڑی غلطی‘‘ ہوگی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے دو طیارہ بردار جنگی جہازوں کو علاقائی سمندروں میں جانے کا حکم دیا، بظاہر اسرائیل کو دفاعی مدد فراہم کرانے کے مقصد کے تحت اور وہ جلد ہی اسرائیل کا دورہ بھی کر سکتے ہیں، جیسا کہ واشنگٹن سے موصول ہونے والی اطلاعات نے بتایا ہے۔دریں اثنا امریکہ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی قرار داد کو نامنظور کردیا ہے یعنی کہ مزید دوغلا پن۔
اسی طرح جب کہ اقوام متحدہ نے بھی اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے اس تنازعے کو انسانی المیے میں تبدیل نہ کرے، وہیں ایک مسودہ قراردادجس میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، امداد تک رسائی اور محفوظ انخلاء کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اسے روس نے پیش کیا تھا، اس قرار داد کو اقوام متحدہ کے ممالک نے ویٹو کر دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قرارداد کے مسودے کے حق میں صرف پانچ ووٹ ملے (چین، گبون، موزمبیق، روس، اور متحدہ عرب امارات) اور چار مخالفت میں (فرانس، جاپان، برطانیہ اور امریکہ)، چھ غیر حاضری کے ساتھ (البانیہ، برازیل، ایکواڈور، گھانا، مالٹا، اور سوئٹزرلینڈ)، جو اقوام متحدہ کے مغربی رکن ممالک کی ’دوہری پن‘ کی پالیسی کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ روس کی طرف سے دکھائے گئے ‘دوغلے پن’کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے، جس نے ہمیشہ یوکرین کے ساتھ اپنی جنگ سے متعلق اقوام متحدہ کی کسی بھی قرارداد کو منظور نہیں ہونے دیا۔
اس کے ساتھ ہی ہم اسرائیل کے ’دوغلا پن ‘اور ’بزدلی ‘کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے جو حماس کے خلاف جوابی کارروائی کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس نے ‘معصوم اسرائیلی’ شہریوں پر حملہ کیا تھا لیکن ساتھ ہی اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر حملہ کرنے اور’معصوم فلسطینیوں‘ کو نیست و نابود کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی۔ مزید یہ کہ اگرچہ وہ غزہ میں حماس کو ختم کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے، لیکن وہ اس طرح کی غلط مہم جوئی کی انسانی قیمت کو بخوبی جانتا ہے اور سرحد پر فوجیں منتقل کرنے کے باوجود اس نے انہیں مزید آگے بڑھنے کا حکم گزشتہ دس دنوں میں ابھی تک نہیں دیا ہے۔
اس تنازعہ کے پس منظر میں کیا ہم یہ امید کرسکتے ہیں کہ کیا ہندوستان اس مغربی ایشیائی المیے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کے لیے سفارتی اقدامات کے ذریعے دوسرے ملکوں سے آگے بڑھ سکتا ہے اور ساتھ ہی پاکستان میں موجود غیر ریاستی دہشت گرد عناصر کوجموں اور کشمیر کے علاقے میں ہندوستان کے خلاف اسی طرح کی حملہ کرنے کی کسی کارروائی سے روک سکتا ہے یا نہیں۔
جہاں تک پہلے سوال کے جواب کا تعلق ہے، ہندوستان کا سرکاری موقف وہی ہے جو پہلے تھا۔ ریاستی پالیسی کو MEA نے اپنے بیان میں واضح کیا تھا۔ لیکن عرب ممالک نے اس بیان کو نظر انداز کرکے وزیر اعظم مودی کے ٹویٹ کو زیادہ اہمیت دی ہے، جس میں انھوں نے اس مسئلے کے حل کے بعد دو ریاستی فارمولے کو بالکل نظرانداز کردیا تھا۔ مزید برآں ان عرب ممالک نے بھی ابھی تک لفاظی کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔ان میں سے کسی نے بھی اپنی افواج علاقے میں بھیجنے کی بات نہیں کی ہے اور ساتھ ہی فلسطین کے پڑوسی ممالک جن میں لبنان، مصر اور اردن شامل ہیں انھوں نے کسی بھی فلسطینی مہاجر کو اپنے یہاں آنے پر پابندی عائد کردی ہے، جس سے کہ ان عرب ممالک کے دوہرے معیار کا پتا چلتا ہے۔
درحقیقت پی ایم مودی نے 10 فروری 2018 کو فلسطین کا پہلا تاریخی دورہ کیا، جہاں سے وہ متحدہ عرب امارات اور عمان گئے۔ اور اس سے پہلے انہوں نے نئی دہلی میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی میزبانی کی تھی، لیکن ایک پندرہ دن کے عرصے میں انہوں نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور اردن کے شاہ عبداللہ کی بھی میزبانی کی، اس طرح ہندوستان کے سفارتی تعلقات اور کلیدی مغربی ایشیائی ممالک کے ساتھ اپنے اثر و رسوخ کا دائرہ وسیع کیا۔ یہ وسیع نیٹ ورک ہندوستان کو ایک منفرد مقام پر رکھتا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کی امنگوں کے مطابق فلسطین کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی کوشش کرے اور گلوبل ساؤتھ کی فطری آواز بن کر ابھرے لیکن یہاں پر ہندوستان کے دو رخی بیان نے اس کے لیے کسی بھی ملک کے ثالثی کردار کے امکانات بہت کم کردیے ہیں۔
اب آتے ہیں کشمیر میں سرحد پار سے ممکنہ دہشت گرد حملوں کے بارے میں ہندوستان کی تشویش کے دوسرے سوال کی طرف۔سرحد پار سے دراندازی ہندوستان کے لیے ایک اہم تشویش کا پہلو ہے لیکن جس انداز میں بھارتی فوج نے جموں، بارہمولہ اور کپواڑہ سیکٹروں میں اپنی فوجی جاسوسی اور روک تھام کی صلاحیت کو بے انتہا مضبوط کر لیا ہے،جس کے سبب یہ امکانات بہت کم ہیں۔ ہمارے پاس لائن آف کنٹرول کے ساتھ باڑ لگی ہوئی سرحد موجود ہے، جس پر جدید ترین نگرانی کے تکنیکی اقدامات لیے گئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی ہندوستان نے ایل او سی کے قریب کے علاقوں میں مختلف تہوں کے ساتھ اپنی انسانی/ فوجی ڈھال کو ایک مضبوط پوزیشن میں بھی مزید تیار کیا ہے جو کہ اس طرح کے کسی بھی حملے کو روکنے کے لیے پوری طرح اہل ہے۔
لہٰذا، اگرچہ اس قسم کی دراندازی کے بہت کم امکانات ہیں لیکن پھر بھی ہم کسی کارروائی کو مکمل طور پر خارج نہیں کر سکتے ہیں، لیکن ان غیر ریاستی عناصر کو حماس سے سبق بھی لینا پڑے گا، جس طرح حماس نے یہ مہم جوئی صرف فلسطینی مسئلے سے متعلق رہنے کے لیے شروع کی ۔ کیونکہ ایسے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ آیا ابراہم معاہدے پر دستخط اور سعودی عرب کا ایران اور اسرائیل دونوں کی طرف بڑھنا، حماس جیسی قوتوں کو غیر متعلقہ بنا سکتا ہے، لیکن ان پاکستانی عناصر کے لیے حماس جیسا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ اسی طرح پاکستان میں غیر ریاستی عناصر کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی جانب سے کوئی بھی مہم جوئی پاکستان کو عالمی برادری میں مزید تنہا کر دے گی اور ملک کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر پاکستانی فوج بھی اس قسم کی کسی مہم جوئی کی حمایت کرنے اور اس کی سرپرستی کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتی ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔ رابطہ کے لیےwww.asadmirza.in)
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)