سراج الدین شیخ
مغربی دنیا ہمیشہ سے انسانی حقوق، جمہوریت، آزادی اظہار اور مساوات کے اصولوں کی علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتی رہی ہے۔ مغرب کا تصور کیا جاتا ہے کہ وہ انصاف اور انسانی قدروں کا محافظ ہے اور دنیا کے لیے ایک مثالی معاشرہ پیش کرتا ہے۔ تاہم یہ دعوے اکثر عملی طور پر بے جا اور متضاد نظر آتے ہیں اور اس کی منافقت مختلف شکلوںمیںظاہر ہوتی رہتی ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی مغرب کی پالیسیوں میں دوہرا معیار واضح طور پر نظر آتا ہے۔ دنیا کے ان علاقوں میں جہاں مغربی مفادات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو، وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو یکسر نظرانداز کیا جاتا ہے جب کہ مخالف ممالک میں چھوٹے سے واقعے کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جمہوریت کے نام پر دنیا میں فوجی مداخلتیں اور غیر جمہوری حکومتوں کی حمایت، مغرب کے بلند و بانگ دعوؤں کو مشکوک بناتی ہے۔آزادیٔ اظہار کی آڑ میں اسلام اور مشرقی تہذیب کو نشانہ بنانااور مغربی اقدار یا اسرائیل پر تنقید کو ممنوع قرار دینا، ایک اور نمایاں مثال ہے۔ مذہبی آزادی، ماحولیاتی تحفظ اور نسلی مساوات کے میدان میں بھی مغرب کا دوہرا رویہ عیاں ہے۔ایک طرف انسانی حقوق کا پرچم بلند کرتا ہے،دوسری طرف فلسطین اور دیگر مقبوضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی پر خاموش رہتا ہے۔ جہاں اُن کے حلیف ممالک انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں، وہاںیا تو آنکھیں بند کر لیتا ہے یا اُن اقدامات کا کوئی نہ کوئی جواز فراہم کرتا ہے۔ اگر یہی حرکت کسی دشمن ملک میں ہو، تو مغرب اسے عالمی بحران قرار دے دیتا ہے۔جہاں مغربی مفادات کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو، وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو نظرانداز کیا جاتا ہےاور جب مخالف ممالک میں کوئی معاملہ پیش آئے تو اُس کے خلاف فوراً حرکت میں آتا ہے، سخت بیانات جھاڑتا ہے، پابندیاںلگاتا ہے یاپھر مداخلت بھی کرتا ہے۔
فلسطینی عوام کئی دہائیوں سے ظلم و جبر کا شکار ہیں، اس پر مغرب کے زیادہ تر ممالک کوئی منصفانہ آواز نہیں اٹھاتے،جبکہ یوکرین کے معاملات پر فوری ردعمل اورا مداد فراہم کررہے ہیں۔عراق، شام اور افغانستان جیسے ممالک میں مغرب کی مداخلت کے نتیجے میں لاکھوں افراد ہلاک اور بے شمار بے گھر ہو چکے ہیں، ان ممالک کی معیشتیں تباہ ہو گئیں اور لوگوں کی زندگیاں غیر محفوظ ہوکر رہ گئیں،پھر بھی مغرب ان کے حقوق کی بحالی کے لیے کچھ نہیںکرسکا ،جو اس بات کا ثبوت ہے کہ مغرب کا انسانی حقوق کا دعویٰ صرف ایک منافقانہ نعرہ ہی رہاہے ۔
مغربی طاقتیں جمہوریت کو دنیا کے لیے مثالی نظام قرار دیتی ہیں، لیکن جہاں ان کے مفادات متاثر ہوں، وہاں جمہوریت کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک میں غیر جمہوری حکومتوں کی حمایت اورمحض اپنے مفادات کے لئے کرتا ہے۔ اگر کوئی جمہوری حکومت مغربی مفادات کے خلاف کھڑی ہو، تو اسے کمزور یا ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔گویا مغرب ،جمہوریت کو مثالی نظام قرار دینےکا بڑا دعویدار ہے، لیکن حقیقت میں خودجمہوریت کے اصولوں پر عمل نہیں کرتا اور اپنے مفادات کے لئےغیر جمہوری حکومتوں کی طرفداری کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا ہے۔ یہ دوہرا معیار نہ صرف دنیا کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ مغربی دنیا کے خودساختہ جمہوری نظام کو بھی کمزور کرتا ہے۔ دنیا کو مغرب کی اس فکری منافقت کو پہچاننا ہوگا اور ایک متوازن نظام کی جانب قدم بڑھانا ہوگا۔
مغرب آزادیٔ اظہار کو اپنی تہذیب کا ستون قرار دیتا ہے، لیکن اس میں بھی دوہرا معیار روا رکھا ہوا ہے۔ آزادیٔ اظہار کی آڑ میں اسلام، مسلمانوں اور مشرقی تہذیبوں کے خلاف منفی بیانیہ عام کیا جاتا ہے۔ گستاخانہ خاکوں، قرآن کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے دیگر اقدامات کو اس آزادیٔ اظہار کا حصہ قرار دیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑنے والے پروپیگنڈے کو آزادی کا حصہ کہا جاتا ہے، جبکہ مسلم دنیا کی حقیقی مشکلات اور مظالم کی آواز کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔مغربی سماج میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحانات اور ان کی تائید بھی اس دوہرے معیار کااہم ثبوت ہے۔مغربی دنیا جو مساوات اور انسانی حقوق کی چمپئن ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، در حقیقت نسلی تعصب اور استعماری ورثے کے گہرے اثرات سے ابھی تک آزاد نہیں ہو سکی ہے۔ مغرب نے صدیوں تک افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ کی قوموں کو اپنی استعماری پالیسیوں کے ذریعے نہ صرف محکوم بنایا بلکہ ان کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا ہے۔ آج بھی کالے اور گورے کے درمیان تفریق نہ صرف معاشرتی رویوں میں جھلکتی ہے بلکہ معاشی اور قانونی نظام میں بھی یہ تفریق واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
امیگریشن قوانین میں بھی مغرب کا نسلی تعصب واضح ہے۔ مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا کے ممالک سے آنے والے افراد کو سخت قوانین اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جب کہ یورپ اور امریکہ کے گورے باشندوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے شہریوں کو کم تنخواہوں پر مشکل کام کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور ان کے حقوق اکثر پامال کئے جاتے ہیں ۔مغربی دنیا ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے ہمیشہ ایک خودساختہ رہنما کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مختلف بین الاقوامی معاہدوں اور کانفرنسز میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے سخت قوانین بنانے پر زور دیا جاتا ہے، لیکن خود ان اصولوں کی پابندی میں مغرب ناکام رہا ہے۔ ماحولیاتی بحران کی سب سے بڑی وجہ صنعتی ممالک کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیز ہیں، جن میں مغرب سرفہرست ہے۔
درحقیقت مغرب میں مذہب کے حوالے سے ایک خاص نوع کی عدم رواداری پائی جاتی ہے، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف۔ جہاں ایک طرف مذہبی آزادی کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہیں دوسری طرف مسلم کمیونٹیز کو مسلسل مذہبی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مسلم خواتین کے حجاب پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیںاور حجاب کو اکثر جبر اور عدم مساوات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے رویے مغرب کی فکری منافقت کی علامت ہیں، جبکہ مساجد پر حملے اور مسلم کمیونٹیز کو اجتماعی طور پر تنقید کا نشانہ بنانا ایک معمول بن چکا ہے۔جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مغربی دنیا کے دعوے اور اس کے عملی اقدامات میں نمایاں تضاد ہے۔مغرب کا انسانی حقوق کے حوالے سے منافقانہ رویہ، جمہوریت کی حمایت میں منافقت، آزادیٔ اظہار کے حوالے سے دوہرا معیار اور نسلی و مذہبی امتیاز جیسے پہلو مغربی فکری نظریات کی حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں۔ مغرب میں آزادی اور مساوات کے نام پر جب تک تمام ممالک اور افراد کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جاتا، اُس کے دعوے بے معنی رہیں گے۔
(رابطہ۔ 9749495299)