پونم کماری
اس سال کے شروع میں وزارت تعلیم کے ذریعہ جاری کردہ UDISE پلس (یونیفائیڈ ڈسٹرکٹ انفارمیشن سسٹم فار ایجوکیشن) کے اعداد و شمار کے مطابق، 2023-24 میں اسکولوں میں داخلوں کی تعداد میں تقریباً 37 لاکھ کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اندراج میں سب سے زیادہ کمی ثانوی سطح پر 17 لاکھ کے قریب دیکھی گئی۔ یہ کمی معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ برادریوں اور لڑکیوں میں زیادہ دیکھی گئی ہے۔ تاہم اس سب میں اچھی بات یہ ہے کہ پری پرائمری اسکولوں میں داخلے میں تقریباً 29 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ پری پرائمری اسکولوں میں اندراج سال 2022-23 میں 1.01 کروڑ کے مقابلے 2023-24 میں 1.30 کروڑ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ لیکن ثانوی سطح پر کمی تشویشناک ہے۔ درحقیقت دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی کمی کو اس کے پیچھے ایک اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔ ملک کی کئی ریاستوں کے سرکاری اسکولوں میں بھی بنیادی سہولیات کی کمی کی وجہ سے بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی نظر آرہی ہے۔بہار کی راجدھانی پٹنہ ریاست کا ایک اہم تعلیمی مرکز رہا ہے۔ لیکن یہاں کے سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث تعلیمی معیار بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ یہ مسئلہ نہ صرف بچوں کے تعلیمی معیار کو متاثر کر رہا ہے بلکہ ان کی صحت اور ذہنی نشوونما پر بھی منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ ان سرکاری سکولوں میں معاشی طور پر کمزور خاندانوں اور کچی آبادیوں کے زیادہ تر بچے پڑھنے آتے ہیں۔ کئی سرکاری سکولوں میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے اکثر گھر سے پینے کا پانی لاتے ہیں۔ کئی اسکولوں اکثر جو پانی نل سے آتا ہے وہ پینے کے قابل نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اور تمام بچے گھر سے پینے کا پانی لاتے ہیں۔ اکثر بچے بہتر خوراک اور اس کے معیار کے نہ ملنے کی شکایت کرتے ہیں۔کئی سرکاری اسکولوں میں بیت الخلاء کی حالت بہت خراب ہے۔جو کسی بھی طرح استعمال کرنے کے قابل نہیں ہوتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں اکثر لڑکیوں کو ماہواری کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب وہ اپنے پیڈ بدلنے کے لیے وہی گندا ٹوائلٹ استعمال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی پڑھائی متاثر ہوتی ہے۔ اکثر جونیئر کلاسوں میں بینچ اور فرنیچر بھی اچھی حالت میں نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے بچے زمین پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں۔ کئی سرکاری سکولوں کی عمارتیں بھی بہت پرانی ہو چکی ہیں۔ جس کی فوری مرمت کی ضرورت ہے۔
آج کے دور میں بچوں کی تعلیمی نشوونما ڈیجیٹل لرننگ کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی ہے۔ جہاں پرائیویٹ اسکولوں میں پہلی جماعت سے بچوں کو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہونا عام بات ہے، وہیں ملک کی کئی ریاستوں کے بیشتر سرکاری اسکولوں میں بچے ابھی تک اس سہولت سے دور ہیں۔ ڈیجیٹل سیکھنے کے مواقع کی کمی ان اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو جدید تعلیمی مواقع سے محروم کر دیتی ہے۔ تاہم ریاستی حکومتیں اب اس کمی پر خصوصی توجہ دے رہی ہیں اور سرکاری اسکولوں کے بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیںاور پرائمری اسکول کی سطح پر بھی کمپیوٹر کی تعلیم کو نصاب میں بطور مضمون شامل کرنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ یہ بھی بتا جارہا ہے کہ اس کے لیے کمپیوٹر کے بنیادی علم پر مبنی کتابیں بچوں کو فراہم کی جائیں گی۔ بچوں کو کمپیوٹر سکھانے کے لیے مڈل سکولوں میں اساتذہ اور ماہرین بھی تعینات کیے جائیں گے۔ محکمہ تعلیم کے پلان کے مطابق پہلے مرحلے میں چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت کے طلباء کو کمپیوٹر کی تعلیم فراہم کی جائے گی۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں تیسری، چوتھی اور پانچویں جماعت کے بچوں کو کمپیوٹر کے بارے میں بنیادی معلومات دی جائیں گی۔ ریاستی حکومتوں کی یہ کوشش قابل ستائش ہے۔ اس سے سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے بچے بھی پرائیویٹ اور مہنگے سکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی طرح سکول کی سطح پر ڈیجیٹل طور پر قابل بن سکیں گے۔ اس کے علاوہ اساتذہ کی تعداد بڑھانے اور ان کی تربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حالیہ برسوں میں بڑے پیمانے پر اساتذہ کی بھرتی اور تربیت کا ریاستی حکومت کا منصوبہ سرکاری اسکولوں کی حالت میں بہتری کی علامت کہی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں پینے کا صاف پانی، عمارتیں ، بیت الخلاء، لیبارٹریز اور کلاس رومز میں فرنیچر جیسے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا بھی ضروری ہے۔ پرائیویٹ سکولوں کی طرح کسی بھی سرکاری سکول میں پڑھنے والے بچوں کا بھی یہ تمام بنیادی سہولیات حاصل کرنا بنیادی حق ہے۔ اس کے لیے حکومت اور متعلقہ محکمے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں، سماجی کارکنوں اور اس سمت میں کام کرنے والی این جی اوز کو بھی آگے آنے اور اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے نہ صرف بچوں کا تعلیمی مستقبل روشن ہوگا بلکہ تعلیمی سطح پر منظر نامے کو بدلنے میں بھی مدد ملے گی۔ (چرخہ فیچرس)