سیدہ عطیہ تبسم
وہ ایک معمولی سا لڑکا آنکھوں میں خواب لیے اور ہاتھوں میں نیند لیے۔ وہ راتوں کو جاگتا تو تھا مگر آسمان کے تارے گننے کے لئے نہیں، نہ ہی کسی کو یاد کرنے کے لیے۔ وہ جاگتا تھا ’’معمولی‘‘ سے ’’غیر معمولی‘‘ تک کا سفر طے کرنے کے لئے۔ وہ جاگتا تھا اپنی جھکی نگاہوں کی سربلندی کے لئے۔ وہ جاگتا تھا اپنے بوڑھے بابا کی سوکھی آنکھوں کی چمک لوٹانے کے لیے۔ وہ جاگتا رہا اپنی بہن کے وقار کو قائم رکھنے کے لیے۔ کتنی مسافت طے کی ہوگی اس نے،کتنی جنگیں لڑی ہوں گی کبھی اپنی نیند کے ساتھ، تو کبھی جذبات کے ساتھ، کبھی کسی خواہش کو روندا ہوگا تو کبھی کسی وقتی خواب کو کچلا ہوگا ۔ مگر وہ رُکا نہیں، تھما نہیں اور ہارا بھی نہیں۔ تین گھنٹے بس تین گھنٹے کی نیند لیتا رہا ۔ چند دنوں تک نہیں چند ہفتوں یا چند مہینوں تک نہیں، بلکہ مسلسل دس سالوں تک۔ دس سال تک وہ معمولی سا لڑکا بس تین گھنٹے کی نیند پر زندہ رہا۔ جبکہ انسان کے لئے چھ سے آٹھ گھنٹے کی نیند ضروری ہے۔ اس کی آنکھوں میں نیند تو ابھرتی ہوگی مگر غریبی کے چاک اور سماج کا عطا کردہ کمتری کا احساس اسے کہا سونے دیتا۔ سو وہ جاگتا رہا، مسلسل دس سالوں تک ۔
یہ جاگنے کی کہانی ایک عمر نامی لڑکے کی ہے، جس نے حال ہی میں نیٹ کوالیفائی کر کیا۔ عمر نہ صرف جموں و کشمیر کے لئے بلکہ پورے ہندوستان کے لیے گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے۔ عمر کی مقبولیت کا راز پہلا ، دوسرا یا تیسرا رینک حاصل کرنا نہیں ہے۔ اس نے تو بس ایک اچھی پرسنٹیج کے ساتھ اس امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ مگر جو چیز عمر کو منفرد بناتی ہے وہ اس کے ’’حالات‘‘ ہیں۔ اس کے حالات اسے ہیرو بنانے کے لئے کافی تھے۔ ہمیں اکثر ’’خراب حالات‘‘سے ڈر لگتا ہے، خوف آتا ہے راتوں کی سیاہی سے ۔ خاص طور پر تب جب سیاہ راتیں تنہائ کا لبادہ اوڑھے کھڑی ہوں۔ اور کوئی سہارا ،کوئی چراغ، کوئی روشنی کی کرن نظر نہ آئے۔ پھر ہم ہار مان لیتے ہیں اپنے ’’حالات ‘‘سے اور ہر الزام کا سہرا حالات کے سر باندھ کر کر خود فرار حاصل کر لیتے ہیں۔ عمر نے ایسا نہیں کیا۔ وہ اپنی معاشی پستی اور لوگوں کے تلخ رویوں سے ہارا نہیں۔ پورے پورے دن مزدوری کر کے اپنی معاشی حالت درست کرنے کی کوشش کرتا رہا اور پوری پوری رات اس لیے جاگتا رہا تاکہ وہ ان تلخ رویوں سے نجات حاصل کر سکے، تاکہ اپنے گھر والوں وہ مقام دلا سکے جو ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے۔ اتنی چھوٹی عمر میں تین گھنٹے کی نیند لے کر 21 گھنٹے جاگتے رہنا کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہو سکتا۔ ظاہر سی بات ہے عمر کے لئے بھی یہ بہت مشکل رہا ہوگا۔ مگر جو شخص اپنی آسانی اور مشکل سے اوپر اٹھ کے سوچتا ہے وہی لوگوں کے لئے مشعل راہ بن جاتا ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
ہم پے تو جو گزری سو گزری مگر شبِ ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ حالات چاہے کتنے ہی برے ہوں، ہار اور جیت ہمارا اپنا فیصلہ ہوتا ہے یا پھر مقدر کا۔ اچھے حالات میں اچھا کرنا کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے۔ بلکہ بُرے حالات میں کچھ انوکھا کرنا بہت عظیم کام ہے۔ ہم اکیسویں صدی کے لوگوں کو شارٹ کٹ اچھے لگتے ہیں۔ ہمیں سب کچھ بہت جلدی اور بہت آسانی سے چاہیے، ہمیں حالات، انسان اور ہر شے اپنے مطابق چاہ ہوتی ہے۔ ہمیں تیارشدہ پیکڈ کھانا پسند ہے، ہمیں انسٹنٹ کافی(instant coffee) اچھی لگتی ہے۔ ہم کتابوں کو پڑھنے کے بجائے ہر معلومات گوگل سے تلاشنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ نہ جانے کیوں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی کا سفر گوگل میپ کے ذریعے طے نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں راستے تلاش کرنے پڑتے ہیںاور یہ کام کوئی دوسرا ہمارے لئے کبھی نہیں کر سکتا۔ ہر کسی کا راستہ الگ ہوتا ہے، تو اپنا رستہ تلاشنے کے لئے ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کرنا چھوڑنا ہوگا۔ یہ راستے اکثروبیشتر ہموار نہیں ہوا کرتےبلکہ بہت ہی ٹیڑھےمیڑھے اور کچے ہوا کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ اچھے حالات میں سفر طے کرنا اور برے حالات میں تھک ہار کے بیٹھے رہنا اور راستوں کے پیچ و خم سے ہار مان لینا ایک احمقانہ حرکت ہے۔ راستے چاہے کتنے کچے کیوں نہ ہوں اور حالات چاہے کتنے خراب ہوں۔ زندگی کے سفر کو جاری رکھنا ہی فلاح اور کامیابی کا ضامن ہے۔
جو اسباق ہمیں ہمارے خراب حالات سکھا کر جاتے ہیں وہ دنیا کی کوئی کتاب یا ویب سائیٹ نہیں سکھا سکتی اور عمر کی کہانی اس قول کا عملی نمونہ ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ نسلِ نو میں صبر اور استقلال کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ صبر سیاہ راتوں کی واحد روشنی ہے۔ نہ جانے کیوں ہم صبر جیسے عظیم عمل کو بزدلی اور کم ہمتی سے تعبیر کرتے ہیں۔ صبر کرنا اور اس پر قائم رہنا تو بہت عظیم کام ہے ،جو بس چند لوگ کر سکتے ہیں۔ یہی چند لوگ تاریخ بناتے ہیں۔ انہیں کے لئے تو دین و دنیا کی نعمتوں کا وعدہ ہے۔
عمر کے خراب حالات میں کسی رشتہ دار نے معاشی مدد کرنے کی زحمت نہیں کی ۔ مگر اس نے صبر کیا اپنے راستے خود تلاشے اور پھر اس پر قائم رہا۔ صبر میں گلے شکوے نہیں کیے جاتے۔ بس اپنے حالات درست کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی کہانیاں ہمیں سکھاتی ہیں ہیں کہ ہمیں ان اندھیروں سے ڈرنا نہیں تھا۔ حالات کی خرابی پر رونا نہیں اور نہ ہی تھک ہار کر بیٹھ جانا تھا۔ بس مقدر کی مصلحت کو سمجھتے ہوئے صبر کے دامن کو تھام کر صبح کا انتظار کرنا تھا۔ ہر شب کے بعد صبح کے آنے کا وعدہ ہے اور وہ آکر رہے گی۔ ہمیں تو صبر کے ساتھ شکر بھی کرنا چاہیے ، اگر یہ سیاہ راتیں نہ آتی تو صبح ہمارا مقدر نہ بن پاتی۔ ایک عظیم انسان اپنی ہر سیاہ شب کا شکر گزار ہوتا ہے۔ جب زندگی اسے آزماتی ہے تو وہ خوفزدہ نہیں ہوتا ہے، نہ ہی رنج اور ملال لیے بیٹھ جاتا ہے بلکہ رب کے فیصلوں کو قبول کرتے ہوئے اپنے حصے کی تدبیریں بنانا شروع کر دیتا ہے۔ خراب حالات کا شکوہ کرنے کے بجائے ان کی تبدیلی کی کوشش کرتا ہے۔ میری ایک سیاہ شب کی کہانی کو یوں الفاظ میں پرویا تھا۔
احسان کیوں نہ مانوں شب بھر کی تلخیوں کا
آخر میرے شبستاں نے سحر دی ہے مجھ کو
دور حاضر میں بچوں کو صبر اور شکر سکھانے کی ضرورت ہے۔ انہیں ہر وقت ہر طرح کی آسائشیں فراہم کرنا شاید ان کے حق میں بہتر ثابت نہ ہو ۔ جب ان کی ہر خواہش کو زبان پر آنے سے پہلے پورا کردیا جاتا ہے،پھر انکی انا کو مات کبھی گوارا نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ دور حاضر میں کسی بھی طرح کی ناکامی کے بعد بچے یا تو نشہ آور دوائیوں کو اپنا سہارا بنا لیتے ہیں یا پھر اپنی جان کے دشمن خود بن جاتے ہیں۔ یہ بڑوں کی ذمہ داری ہے کہ بچوں پر فیصلہ تھوپنے کے بجائے انکی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو نکھارا جائے ۔ انہیں روبوٹ سے انسان بنایا جائے، تاکہ وہ اپنی انا کی تسکین کے لیے اپنے ساتھ یا کسی دوسرے کے ساتھ زیادتی نہ کریں۔ ہر بار اول آنا اور پرفکٹ ہونا ممکن نہیں ہے۔ انسان تو خامیوں سے بھرا ہوا ہے، ہار اور جیت تو زندگی کا ایک حصہ ہے۔ اچھے اوربُرے ہر طرح کے حالات میں پر عزم اور صابر بنے رہنا انسانیت کی معراج ہے۔ اسی معراج کو حاصل کرنے کی سعی عمر نے کی ہے اور ہم سب کو بھی کرنی چاہیے۔
[email protected]