رئیس یاسین
تعلیم ایک مقدس پیشہ ہے اور اساتذہ کسی بھی معاشرے کے معمار ہوتے ہیں۔ لیکن آج کے دور میں خاص طور پر نجی اسکولوں میں اساتذہ کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا رہا ہے جیسے وہ محض مزدور ہوں۔ کم تنخواہ، اضافی کام، ملازمت کا عدم تحفظ اور بنیادی حقوق کی کمی جیسے مسائل اساتذہ کی زندگی کو مشکل بنا رہے ہیں۔ہمارے خطے میں بے روزگاری ایک اہم مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے تعلیم یافتہ نوجوان مجبوراً نجی اسکولوں میں ملازمت اختیار کرتے ہیں۔ یہ نجی اسکول ریاست کے سب سے بڑے نجی ادارے ہیں، لیکن یہاں اساتذہ کو وہ مقام اور معاوضہ نہیں دیا جاتا جس کے وہ حقدار ہیں۔ ان اسکولوں نے تعلیم کو کاروبار بنا دیا ہے اور منافع کے چکر میں اساتذہ کا استحصال کیا جا رہا ہے۔
۱۔ کم تنخواہ اور زیادہ کام:نجی اسکول اساتذہ سے طویل اوقات تک کام کرواتے ہیں لیکن ان کی تنخواہ انتہائی کم ہوتی ہے۔ والدین سے بھاری فیسیں وصول کی جاتی ہیں، لیکن اس کا بڑا حصہ اسکول مالکان کی جیب میں جاتا ہے جبکہ اساتذہ کو بنیادی مالی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
۲۔ ملازمت کا عدم تحفظ :زیادہ تر نجی اسکول اساتذہ کو کنٹریکٹ پر رکھتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ وہ کسی بھی وقت بغیر کسی وجہ کے برطرف کیے جا سکتے ہیں۔ انہیں سالانہ انکریمنٹ یا دیگر مالی فوائد بھی نہیں ملتے، جس سے ان کی ملازمت غیر محفوظ بن جاتی ہے۔
۳۔ جذباتی اور ذہنی دباؤ :اساتذہ کے تدریسی جذبے کا استحصال کیا جاتا ہے۔ انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ چونکہ وہ تعلیم دینے کا شوق رکھتے ہیں، اس لیے انہیں کم تنخواہ پر بھی کام کرنے پر راضی رہنا چاہیے۔ یہ جذباتی دباؤ انہیں خاموش رکھنے پر مجبور کرتا ہے، اور وہ اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھا پاتے۔
۴۔ قانونی تحفظ کی عدم موجودگی :سرکاری اساتذہ کو کئی قانونی حقوق اور مراعات حاصل ہوتے ہیں، جیسے کہ ریگولر تنخواہ، پنشن اور دیگر مالی فوائد، لیکن نجی اسکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ کو ان حقوق سے مکمل طور پر محروم رکھا جاتا ہے۔تعلیم کو عبادت سمجھنے کے بجائے کاروبار بنا دیا گیا ہے۔ نجی اسکولوں نے اپنی فیسوں میں بے تحاشا اضافہ کیا ہے، لیکن اس کے باوجود اساتذہ کو مناسب اجرت نہیں دی جاتی۔نجی اسکول سالانہ لاکھوں روپے کماتے ہیں، لیکن اساتذہ کی تنخواہیں انتہائی کم ہوتی ہیں۔اسکول مالکان تعلیمی معیار کے بجائے صرف منافع پر توجہ دیتے ہیں، جس کا براہ راست اثر طلبہ اور اساتذہ پر پڑتا ہے۔والدین بھاری فیسیں ادا کرتے ہیں، لیکن اس کا فائدہ اساتذہ کو نہیں پہنچتا بلکہ اسکول انتظامیہ کی تجوریوں میں جاتا ہے۔
حکومت کی ذمہ داری اور ممکنہ حل :۱۔ نجی اسکولوں کا مالی آڈٹ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام نجی اسکولوں کے مالیاتی ریکارڈز کا سالانہ آڈٹ کرے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ان کے پاس کتنی آمدنی ہے اور وہ اس کا استعمال کیسے کر رہے ہیں۔ اگر اسکول زیادہ فیس لے کر بھی اساتذہ کو کم تنخواہیں دے رہے ہیں تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
۲۔ اساتذہ کی تنخواہوں کا حکومتی تعین:حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی اسکولوں میں کام کرنے والے اساتذہ کی کم از کم تنخواہ مقرر کرے تاکہ کوئی بھی اسکول انہیں غیر معقول اجرت پر ملازمت نہ دے سکے۔ اس کے علاوہ، سالانہ انکریمنٹ، میڈیکل الاؤنس، اور دیگر مالی فوائد کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے۔
۳۔ اساتذہ کے لیے سرکاری معاونت :اگر حکومت چاہے تو نجی اسکولوں کے اساتذہ کے لیے ایک ماہانہ معاونت (Financial Aid) بھی فراہم کی جا سکتی ہے، تاکہ بے روزگار نوجوانوں کو کچھ حد تک معاشی استحکام حاصل ہو۔
۴۔ سخت قانون سازی اور نگرانی: حکومت کو چاہیے کہ وہ نجی اسکولوں کے لیے سخت قوانین بنائے تاکہ وہ اساتذہ کے استحصال سے باز رہیں۔ اگر کوئی اسکول مقرر کردہ ضوابط کی خلاف ورزی کرے، تو اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔اساتذہ کسی بھی قوم کا سب سے قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں اور ان کا استحصال دراصل پورے تعلیمی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے۔ نجی اسکولوں میں اساتذہ کی کم تنخواہ، غیر محفوظ ملازمت اور عدم تحفظ ان کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالتی ہےجو بالآخر طلبہ کے تعلیمی معیار کو بھی متاثر کرتی ہے۔
یہ وقت ہے کہ حکومت اور سماجی ادارے اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھیں اور اساتذہ کو وہ حقوق اور عزت دیں، جس کے وہ حقیقی معنوں میں مستحق ہیں۔ تعلیم کو کاروبار بنانے کے بجائے اسے ایک مقدس فریضہ سمجھنا ہوگاتاکہ اساتذہ کو عزت، مالی استحکام اور بہتر روزگار کے مواقع میسر آ سکیں۔ اگر اساتذہ خوشحال ہوں گے تو تعلیمی نظام بھی ترقی کرے گا اور ہماری آنے والی نسلیں ایک بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہوں گی۔
(رابطہ۔ 7006760695)
[email protected]