سرینگر//معصوم بچوں کے جارحیت کا شکار ہونے کے عالمی دن پر سمبل سوناواری کی 3جواں سال لڑکیاں ہاتھوں میں مہندی کیلئے ترس رہی ہیں تاہم وقت کے تھپیڑوں اور اپنے و پرائیوں کی طرف سے منہ پھیرنے کے باوجود انکی والدہ نے ہمت نہیں ہاری اور آج بھی حالات سے نبرد آزما ہے۔ دنیا بھر میں4جون کو عالمی سطح پر معصوم بچوں کے جارحیت کا شکار ہونے کا دن منایا جاتا ہے۔وادی میں گزشتہ برس کے دوران پیلٹ کے قہر نے لوگوں کے جسم میں چھرﺅں کا زہر بھر دیا،اور اس میں سے بھی60فیصد شرح بچوں کی ہے۔ سمبل سوناواری کی3معصوم بہنیں اگر چہ پیلٹ کے زخم سے بچ گئیں تاہم وقت نے انکے دل و دماغ کوگہرا زخم دیا،جس کو شاید وہ آخری ایام تک فراموش نہیں کرسکتیں۔ نسبل سمبل سے تعلق رکھنے والے بشیر احمد بٹ عرف بشارت الاسلام ایک گمنام عسکری کمانڈر تھا جس نے بے شمار عسکری تنظیموں کی داغ بیل ڈالی ، چیف کمانڈر فریڈم فرنٹ بن گئے،انہیں16برس قبل مبینہ فرضی جھڑپ میں جاں بحق کیا گیا۔ اہل خانہ کا مانیں تو 4 بچوں کے والد بشیر الاسلام کو20ستمبر1992کو دہلی ائرپورٹ پر گرفتار کیا گیا اور بعد میں5برسوں تک تہاڑ جیل سمیت کئی دیگر قید خانوں میں بھی مقید رکھا گیا ۔ انکی اہلیہ سعیدہ بیگم کا کہنا ہے کہ 18مئی2001 کو بشیر احمد سرینگر میں مخدوم صاحب علاقے میں حراست میں لیا گیا اور بعد میں سمبل پہنچا کر مبینہ طور پر فوج نے گولیوں سے چھلنی کیا۔ صورتحال کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ بشارت الاسلام اپنے پیچھے4 معصوم بچوں کو چھوڑکر ابدی نیند سو گیا۔ انکے معصوموں کی نہ تو کسی نے خبر لی اور نہ ہی کوئی غیبی ہاتھ انکے مداوا کیلئے آگے آیا۔وقت کے تھپیڑوں نے ان معصوم بچوں،جن میں3لڑکیاں ہیں،کو از خود جینے کا راستہ دکھایااور ایک دوسرے کی مدد نے انکے دل پر بھی مرہم رکھا۔والد کے جدائی کا غم اور غم زندگی نے ابتدائی ایام میں ان بچوں اور انکی لاچار والدہ کی کمر توڑ دی،تاہم آخر کار انہیں زندگی جینے کا سلیقہ آہ ہی گیا۔بشارت الاسلام کے دوست اور ساتھی بھی ان معصوموں کو فراموش کر گئے اوربیشتر رشتہ داروں نے بھی دامن چھڑا لیا۔سعیدہ بیگم نے کسی نہ کسی طرح اپنی بیٹیوں کو بڑا تو کیا،مگر شادی کی عمر کی دہلیز پر دستک دینے کے غم نے سعیدہ بیگم کا بے حال کیا ہے۔سعیدہ بیگم کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس اگر چہ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ انکی ایک بیٹی کی شادی کیلئے تعاون کرینگے،تاہم رات گئی بات گئی کے مترادف انہوں نے کھبی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سیاست کے دونوں محاذوں کے کچھ لیڈران سعیدہ بیگم کے اگر چہ ہمسایہ بھی ہیں،تاہم اسے مایوسی کے سوا اور کوئی چیز ہاتھ نہیں لگی۔سعیدہ بیگم کا کہنا ہے کہ اگر چہ انہوں نے کئی ایک در کھٹکھٹائے تاہم کہیں سے بھی مدد نہیں ملی۔ان کا کہنا ہے کہ بشری حقوق کیلئے کام کرنے والی انجمنوں نے بھی مایوس کیا جبکہ مزاحمتی خیمہ نے کھبی پوچھا تک نہیں۔ان کا کہناہے کہ ارباب اقتدار نے15برسوں میںانصاف بھی نہیں دیا اور ان سے مدد کی امید رکھنا سمندر میں پکارنے کے برابر ہے۔گمنام چیف کمانڈر بشارت الاسلام کی بڑی بیٹی کی آنکھوں میں عجیب سوالات ہیں کہ شائد اگر انکاوالد زندہ ہوتا تو ان کی ڈولی کب کی اٹھ چکی ہوتی اور دیگر2بہنوں کی آنکھوں میں مہندی لگانے کی تیاریوں میں اہل خانہ مصروف ہوتا مگر شائد انکے خاموش سولات کا بوجھ وہ خود ہی اٹھانے پر مجبور ہیں۔