فکر انگیز
طارق حمید شاہ ندوی
آج کے دور میں دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے اور اس کا سب سے زیادہ اثر ہمارے بچوں پر پڑ رہا ہے۔ پہلے زمانے میں لڑکیاں سولہ یا سترہ سال کی عمر میں جوانی کی طرف بڑھتی تھیں، لیکن اب یہ تبدیلی اکثر دس یا گیارہ سال کی عمر میں ہی شروع ہو جاتی ہے۔ اس عمر میں جسم میں تبدیلی آتی ہے، سینہ اُبھرتا ہے، حیض (پیریڈز) شروع ہوتے ہیں اور جذبات بھی بدلنے لگتے ہیں۔یہ وقت بظاہر فطری ہے، مگر بچی کے لیے ذہنی اور جذباتی طور پر یہ ایک بڑا بدلاؤ ہوتا ہے۔ وہ خود کو آئینے میں دیکھتی ہے، حیران بھی ہوتی ہے اور تھوڑا گھبرا بھی جاتی ہے۔ اس کے دل میں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں:’’میرے ساتھ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیا یہ ٹھیک ہے؟ اگر کوئی پوچھ لے تو کیا جواب دوں؟‘‘
لیکن اکثر شرم اور جھجک کی وجہ سے وہ ماں باپ سے سیدھی بات نہیں کر پاتی۔ اگر والدین اس وقت توجہ نہ دیں تو یہ الجھنیں بچی کو غلط راستے کی طرف بھی لے جا سکتی ہیں۔
ایسے میں ماں کا کردار سب سے اہم ہے۔ ماں کو چاہیے کہ بیٹی کے قریب رہے، اس سے پیار اور نرمی سے بات کرے، اور اسے صاف الفاظ میں سمجھائے کہ حیض، طہارت، وضو اور پردہ کیا ہیں۔ بیٹی کو یہ احساس دلائے کہ اس کا جسم اللہ کی نعمت ہے، جس کی حفاظت ضروری ہے۔ باپ کو بھی خاموش نہیں رہنا چاہیے، بلکہ محبت اور شفقت سے بیٹی کو اعتماد دینا چاہیے کہ وہ اکیلی نہیں ہے اور اس کی موجودگی گھر کی خوشی اور برکت ہے۔
بدقسمتی سے کچھ گھروں میں اس عمر کی بیٹی کے ساتھ سختی یا مذاق کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اس سے بچی اپنے دل کی بات چھپانے لگتی ہے اور صحیح رہنمائی کے بجائے انٹرنیٹ پر سرچ کرنے لگتی ہے، جس سے وہ غلط خیالات یا نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو سکتی ہے۔اسلام نے بلوغت کے بعد کے احکام واضح بتا دیے ہیں۔ قرآن میں فرمایا گیا ہے:
’’جب بچے حدِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو ان کے لیے شرعی حدود اور آداب بدل جاتے ہیں۔‘‘ (النور: 59)۔لڑکیوں میں حیض اور لڑکوں میں احتلام بلوغت کی علامت ہیں، یا زیادہ سے زیادہ پندرہ سال کی عمر مکمل ہو جانا۔ اس کے بعد نماز، روزہ اور دیگر دینی ذمہ داریاں فرض ہو جاتی ہیں۔اس لیے اس عمر میں بیٹی کی تربیت محبت اور دین داری کے ساتھ کرنی چاہیے۔ روزانہ تھوڑا وقت نکال کر اس کے ساتھ بات کریں، اس کے سوالوں کے جواب پیار سے دیں اور حیا و عزت کی اہمیت سمجھائیں۔ نیک خواتین کی زندگی سے مثالیں دیں تاکہ بیٹی کو معلوم ہو کہ اصل حسن کردار کی پاکیزگی میں ہے۔
آج کے دور میں موبائل اور سوشل میڈیا کا بے قابو استعمال سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یوٹیوب، ٹک ٹاک اور انسٹاگرام جیسی چیزیں حساس ذہنوں کو وقت سے پہلے غلط سمت میں لے جا سکتی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ محبت سے موبائل کے استعمال کو محدود کریں اور بیٹی کا دھیان قرآن، سیرت اور مفید سرگرمیوں کی طرف لگائیں۔یاد رکھیں، اس عمر میں بیٹی کو تین چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
۱۔ علم — تاکہ وہ صحیح اور غلط کو پہچان سکے۔
۲۔ تحفظ — تاکہ وہ کسی غلط سوچ یا برے شخص کا شکار نہ ہو۔
۳۔ محبت — تاکہ وہ مضبوط اور پُراعتماد بن سکے۔
اگر والدین محبت، سمجھداری اور دین داری کے ساتھ اس کا ساتھ دیں تو معصومیت سے جوانی تک کا یہ سفر آسان، عزت مند اور کامیاب ہو سکتا ہے۔
[email protected]>
����������������