’’چلو ببلو اٹھو ۔۔۔۔۔۔ اٹھو اٹھو د یر ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’مما ۔۔۔۔۔۔ مجھے سونے دو نا پلیز ۔۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’نہیں بیٹا اب اٹھو بھی۔۔۔۔۔۔ مُنہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کرلو اور سکول کے لئے تیار ہوجائو‘‘۔
ماں نے کمال شفقت سے اس کے سر کے بال سہلاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں مما ۔۔۔۔۔۔ میں سکول نہیں جائوں گا۔۔۔۔۔۔ میں اپنے آپ کو مار ڈالونگا۔۔۔۔۔۔‘‘۔
سکول کا نام سنتے ہی وہ ایک دم جھنجھلاتے ہوئے اٹھ کر بگڑے بچے کی طرح غصے سے چیخ پڑا اور زور زور سے رونا شروع کردیا۔
’’ اچھا بیٹا ۔۔۔۔۔۔ سکول مت جائولیکن ناشتہ تو کرلو ‘‘۔
ماں نے اس کی حالت بھانپ کر مسکراتے ہوئے نرم لہجے میں کہا ،تب جا کر وہ سنبھلا اور مُنہ ہاتھ دھو کر برائے نام ناشتہ کرکے پھر سے بستر میں بیٹھ گیا ۔
’’ بیٹا ۔۔۔۔۔۔ سکول نہیں جائوگے تو باہر جا کر کھیلو ‘‘ ۔
’’ نہیں مما ۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں کھیلنا ہے نہ میں کہیں جائوں گا ‘‘ ۔
کہہ کر وہ اضطراری حالت میں بھوت بن کر گہرے سوچوں میں کھو گیا ۔
’’ نہ جانے کس چڑیل کی نظر بد لگ گئی اس معصوم کو۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ۔
اس کی ماں نے دل ہی دل میں سوچتے ہوئے ایک لمبی آہ بھری اور پریشاں ہو کر گہرے سوچوں میں ڈوب گئی۔ معصوم زبیر کی عمر ابھی صرف نو یا دس سال ہی تھی ۔وہ انتہائی ذہین ،قابل ،محنتی اور فرمانبردار بچہ تھا۔ہمیشہ صاف ستھرا رہتا تھا ،دل لگا کر پڑھائی کرتا تھا ،ہمیشہ خوش وخرم وقت پر سکول جانے کے لئے تیار ہوجاتا تھا ۔ہر سال کلاس میں پہلی پوزیشن حاصل کرتا تھا اور کھیل کود میں بھی اچھی خاصی دلچسپی لیتا تھا جب کہ گھر کے کاموں میں بھی والدین کا ہاتھ بٹاتا تھا ۔اس طرح وہ نہ صرف اپنے والدین کی آنکھوں کا تارا تھا بلکہ اسکول میں بھی اساتذہ کا چہیتا اور ہر دلعزیز بچہ تھا۔۔۔۔۔۔لیکن کچھ ہفتے پہلے اچانک اس کے برتائو میںناقابل یقین تبدیلیاں وقوع پزیر ہونا شروع ہوگئیں ۔وہ سستی ،کاہلی اور چڑ چڑے پن کا شکار ہو گیا ۔پڑھائی اور کھیل کود میں دلچسپی قریب قریب ختم ہو کر رہ گئی۔غذا کھانے کی رغبت بھی کم ہوتی گئی اور نیند میں اناپ شناپ بولنے لگا اور ہر وقت خوف زدہ سا رہنے لگا۔زور زبر دستی کرکے کچھ دن سکول گیا لیکن اب سکول جانے کا نام ہی نہیں لیتااور والدین کی معمولی سرزنش پر غصے اور تنائو سے لال ہوجاتااور انتہائی قدم اٹھانے جیسے الفاظ بولنے سے بھی نہیں چوکتا۔
زبیر جیسے ذہین و فطین خوش گفتاربچے کے اس ذہنی فرار پر اس کے والدین کے ساتھ ساتھ اس کے اساتذہ بھی سخت پریشانی اور تذبذب کاشکار ہوگئے۔اساتذہ صاحبان نے کمال شفقت اور پیار سے اس کی ذہنی حالت سدھارنے کی کوشش کی جب کہ والدین نے اس کے علاج و معالجہ کے ساتھ ساتھ پیروں فقیروں کے دروازوں پرحاضری دے کر گنڈے تعویز بھی لائے لیکن نہ اس کا درد کسی کی سمجھ میں آیا اور نہ ہی درد کا کچھ درماں ہوا بلکہ الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا کے مصداق اس کی ذہنی حالت دن بدن بگڑتی ہی گئی ۔اس کی ماں سوچوں کی بھول بھلیوں میں گم تھی کہ دفعتاً اس کا فون بج اٹھا۔یہ اس کی سہیلی تھی جس نے بتایا کہ اُس نے ایک سپیسلشٹ ڈاکٹر سے نمبر لیا اور وہ جلدی سے زبیر کو لے کر آجائے۔
’’چلو ببلو تیار ہو جائو ۔۔۔۔۔۔ ہم مسرت آنٹی کے گھر جا ئینگے ‘‘۔
’’مما۔۔۔۔۔۔ کیسی بات کرتی ہو ،باہر حالات خراب ہیں۔۔۔۔۔۔‘‘۔
’’ ارے ببلو ۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں ہے ،سب ٹھیک ٹھاک ہے ۔گاڑیاں چل رہی ہیں،بازار کھلے ہیں ،کھڑکی سے جھانک کر دیکھو تو سہی ‘‘ ۔
ماں نے اس کی بات کاٹ کر سماٹ لہجے میں کہا۔ کئی منٹوں تک وہ سنجیدہ نظروں سے کھڑکی سے باہر جھانکنے کے بعد مشکل سے ہی جانے کے لئے راضی ہوا۔ زبیر کی بات غلط نہیں تھی ، شورش زدہ شہر لگا تار کئی مہینوں سے سخت غیر یقینی اور پیچیدہ صورت حال سے دوچار تھا لیکن آج حالات میں قدرے ٹھرائو سا نظر آرہاتھا۔گھنٹے بھر کی مسافت کے بعدوہ ایک نامور ماہر امراض نفسیات کے کلنک پر پہنچے ،جہاں مسرت ان کی منتظر تھی ۔ وہاں دیگر مرد وزن مریضوں کے علاوہ زبیر کی جیسی حالت سے دوچاربہت سے بچے ڈاکٹری ملاحظہ کے منتظر تھے لیکن مسرت کی وساطت سے پہلے ہی نمبر حاصل کرنے کے سبب انہیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔
’’بیٹا ۔۔۔۔۔۔آپ کانام کیا ہے‘‘؟
ڈاکٹر نے ملاحظ کرنے کے دوران کئی دفعہ زبیر سے پوچھا۔لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’یہ لو بیٹا سیب کھائو ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
ڈاکٹر سیب اس کی طرٖٖٖف بڑھاتے ہوئے زور دینے لگا۔
زبیر نے زباں نہیں کھولی لیکن سر ہلا کر انکار کرتا رہا ۔
’’ اچھا بیٹا ۔۔۔۔۔۔ چپس اور چاکلیٹ کھائو گے ‘‘؟
اس بار زبیر نے انکار نہیں کیا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔
’’ اچھا بیٹا بازار سے چپس اور چاکلیٹ لے کے آئو ‘‘۔
ڈاکٹر نے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکال کر اس کی اور بڑھاتے ہوئے کہا ۔
بازار کا نام سنتے ہی زبیر ماں کی آغوش کے ساتھ چپک گیا ۔ڈاکٹر نے اپنے ایک ملازم کو بلا کر بڑی فنکاری سے زبیر کو بازار جانے کے لئے راضی کیا ۔اس کی ماں اور مسرت نے تفصیل سے ڈاکٹر کو اس کے مرض کے بارے میں جانکاری دی ۔ زبیر جب چاکلیٹ لے کر واپس آیا توڈاکٹر ،جو اس کے مرض کو سمجھ چکا تھا،نے اس کو کرسی پر بٹھایا اور کچھ دیر تک نہاہت ہی پیار اور اپنائیت کے انداز میں اس کی کونسلنگ کرتا رہا اور زبیر بھی اب مانوس سے انداز میں اس کے سوالوں کے جواب دیتا رہا۔
’’اچھا بیٹا ۔۔۔۔۔۔ اب ایک آخری سوال‘‘ ۔
’’آپ سکول کیوں نہیں جاتے ہو ؟آپ کو وہاں کوئی ستاتا ہے ‘‘؟
’’نہیں ڈاکٹر انکل‘‘ ۔
’’پھر کیا بات ہے بیٹا؟‘‘
’’ڈاکٹر انکل ۔۔۔۔۔۔ مجھے بہت ڈر لگتا ہے‘‘۔
’’ڈر ، کس بات کا ؟‘‘
’’ انکل ۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔ ‘‘۔
’’ہاں ہاں ۔۔۔۔۔۔بولو بیٹا‘‘۔ ۔
زبیر دانتوں سے اپنے نچلے ہونٹ کو کاٹنے لگا جیسے اپنی بات کہنے کے لئے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دے رہے ہوں۔لیکن اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی باہر اچانک شور غوغا بلند ہو گیا اور لوگ باگ ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔
’’ مما ۔۔۔۔۔۔ مما۔۔۔۔۔۔ چلو جلدی، حالات خراب۔۔۔۔۔۔‘‘۔
کہتے ہوئے وہ ایک دم اٹھ کر ماں کے پاس گیا ، اس کے لہجے میں کئی اندیشے پنہاں تھے۔اسی لمحے زور دار نعرے بازی ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے اتھل پتھل مچ گئی ۔۔۔۔۔۔پتھر اور لاٹھیاں برسنے لگیں۔۔۔۔۔۔ گولے پھٹنے لگے اور چاروں اور دھو اں پھیل گیا۔۔۔۔۔۔ بازار بند اور سڑکیں سنسان ہو گئیں ۔معصوم زبیر پر خوف و ہراس کی تھر تھری اور کپکپی چھا گئی وہ اوپر سے نیچے تک پسینے میںشرا بور ہو کر مرغی کے سہمے ہوئے چوزے کی طرح ماں کی آغوش میں چھپ گیا۔
’’مم۔۔۔۔۔۔مما ۔۔۔۔۔۔ گھ۔۔۔۔۔۔ گھر ۔۔۔۔۔۔‘‘۔
نیم بے ہوشی کی حالت میں اس کے ہونٹ خشک ہو کر یوں پھڑ پھڑانے لگے جیسے چڑیا کا بچہ انڈے سے نکل کر بے بسی سے سسک سسک کر سانس لینے کے لئے چونچ کھو لتا ہے ۔
رابطہ ۔۔۔۔۔۔ اجس بانڈی پورہ(193502 ) کشمیر
فون نمبر9906526432
اس میل ۔۔۔۔۔۔ [email protected]