دریا میں بے شمار قسم کی مچھلیاں ہیں
اوراُنکے بیچ ایک جنگ مدتوں سے جاری ہے۔
سیاہ مچھلی سفید مچھلی کی گھات میں۔۔۔زرد مچھلی سبز کو پیٹ میں اتارنے کی کوشش میں مصروف۔۔۔
اور لال مچھلی تیز تیز اچھلتی ہوئی، کچھ تلاشتی۔۔۔۔
دریا اپنے سفر میںرواں ہے۔
دوسرے علاقوں میں بھی دریا آگے بڑھ رہے ہیں۔ایک موڑ پر دو دریا آپس میںملتے ہیں ۔ایک سے ہوجاتے ہیںمگر کنارے کنارے ۔۔اپنی کہانی کی روانی جاری رہتی ہے۔
د ریانے ایک موڑ کاٹ لیاہے سفید مچھلی سطح آب پہ آکے دور کا ایک منظر چراتی ہے۔اسے پانی کی رنگین لہروں پر سنہری مچھلیوں کے چمکتے لہراتے ہوئے بدن اچھے لگتے ہیں۔للچاتے ہیں ۔اپنی جانب بلاتے ہیں
یکبارگی اس میں کچھ ترنگ سی آجاتی ہے جسم و جاں میںایک حرارت سی بھرجاتی ہے۔
تھوڑا سااچھل کے وہ آگے بڑھتی ہے اور اُسی پل سیاہ مچھلی اپنا بھاری منہ کھولے نمودار ہوتی ہے ۔
سفید داہنی طرف مڑکے آگے نکلتی ہے۔لیکن مخالف مچھلی تیزی سے گھوم کر سامنے آکے دیوار سی بن جاتی ہے ۔
مجھے آگے جانے دو ۔۔۔سفید مچھلی کی آنکھوں میں التجا سی ہے۔
میرے ہوتے ہوئے ایسا ناممکن ہے ۔۔۔۔۔سیاہ مچھلی غراکر جبڑے کھول کر اپس پر وار کرتی ہے ۔
اسطرح جنگ چھڑ جاتی ہے ۔
سیاہ مچھلی جسیم بھی ہے اور چالوں سے واقف شاطر بھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔سفید کا جسم زیادہ بھاری نہیںلیکن کمال کی پھرتی کا مظاہرہ کرتی ہے۔اپنی پوری قوت سے مقابلہ میںڈٹ جاتی ہے۔معرکہ تیز ہوجاتا ہے۔کبھی سیاہ کا پلڑابھاری دکھائی دیتا ہے اور کبھی سفیدکی جیت یقینی نظر آتی ہے کچھ دیرتک پانی کی لہریں چنگھاڑنے لگتی ہیں ۔پھر سطح آب پر اچانک خاموشی سی چھاجاتی ہے۔جیت سیاہ مچھلی کے حصے میں آتی ہے۔سفیدزخموں سے چور لہولہان،تھکی ہاری سی واپس لوٹ جاتی ہے گہرے پانیوں میں۔۔۔۔۔!
یہ جنگ یُگوں سے جاری ہے
سورج تماشائی ہے۔دریا سفر میں ہے۔سمندر کی جانب رواں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک مقام پر
دریا سوچتا ہے۔ مچھلیاں جو ٹوٹی ہیں۔زخمی ہوئی ہیں۔آدھے راستے سے لوٹ آئیں ہیں۔کیا یونہی سیاہ مچھلی سے قصاص لئے بغیر ہی مر ۔۔۔۔۔۔
اوراُسی پل سفید مچھلی کہیں سے سے نکل آتی ہے ۔دور تک نظریں دوڑاتی ہے۔سنہری مچھلیوںکے چمکتے بدن لہراتے نظر آتے ہیں۔کچھ سوچ کے آگے بڑھتی ہے اور پھر تھرا سی جاتی ہے۔سامنے تھو ڑے ہی فاصلے پرسیاہ مچھلی اپنا بھیانک منہ کھولے چٹان کی مانند کھڑی نظر آتی ہے
۰۰۰۰۰۰۰
مدینہ کالونی۔ملہ باغ۔حضرت بل سرینگر
موبائل نمبر;9419072053