توصیف احمد وانی
اس نظریئے میں سب سے دِلچسپ اور قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اگر بفرضِ محال کوئی مادّی جسم روشنی کی رفتار حاصل کرلے تو اُس پر وقت کی رفتار بالکل تھم جائے گی اور اُس کی کمیّت بڑھتے بڑھتے لامحدود ہو جائے گی اور اُس کا حجم سکڑ کر بالکل ختم ہو جائے گا، گویا جسم فنا ہو جائے گا۔یہی وہ کسوٹی ہے جس کی بنیاد پر آئن سٹائن اِس نتیجے پر پہنچا کہ کسی بھی مادّی جسم کے لئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے۔معجزۂ معراج میں برّاق کا سفر آئن سٹائن کے نظریۂ اِضافیت(Theory of Relativity) کے مطابق روشنی کی رفتار کا حصول اور اُس کے نتیجے میں حرکت پذیر مادّی جسم پر وقت کا تھم جانا اوراثر پذیری کھو دینا ناممکن ہے۔(کیونکہ اِس صورت میں مادّی جسم کی کمیّت لامحدود ہو جانے کے ساتھ ساتھ اُس کا حجم بالکل ختم ہو جائے گا)۔ آئن سٹائن کے نظریہ کی رُو سے یہی قانونِ فطرت پورے نظامِ کائنات میں لاگو ہے۔
اب اس قانون کی روشنی میں سفرِ معراج کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ’’اللہ کی عادت‘‘ کا یہ نظامِ فطرت اُس کی ’’قدرت‘‘ کے مظہر کے طور پر بدل گیا۔
وقت بھی تھم گیا۔ جسم کی کمیّت بھی لامحدود نہ ہوئی، اور وہ فنا ہونے سے بچا رہا۔ اُس کا حجم بھی جوں کا توں برقرار رہا۔ اور خلائی سفر کی لابدّی مقتضیات پورے کئے بغیر سیاحِ لامکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برّاق کی رفتار (Multiple Speed of Light) سے سفر کیا، بیت المقدس میں تعدیلِ ارکان کے ساتھ نمازیں بھی ادا کیں، دورانِ سفر کھایا اور پیا بھی، لامکاں کی سیر بھی کی، اللہ کے برگزیدہ اَنبیاء کے علاوہ خود اللہ ربّ العزّت کا ’’قَابَ قَوْسَيْنِ‘‘ اور ’’أَوْ أَدْنَى‘‘ کے مقاماتِ رِفعت پر جلوہ بھی کیا اور بالآخر سفرِ معراج کے اختتام پر واپس زمین کی طرف پلٹے تو تھما ہوا وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی کا منتظر تھا۔ وضو کا پانی بہہ رہا تھا، بستر ہنوز گرم تھا اور دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی۔
اگرچہ معجزہ کسی مادّی توجیہہ کا محتاج نہیں لیکن اِس حقیقت کا اِدراک ہمیں ضرور ہونا چاہئےسائنس سفرِ اِرتقاء کے ہر قدم پر معجزاتِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں تسخیرِکائنات کرتے ہوئے اسلام کے اِلہامی مذہب ہونے کے بالواسطہ اِعتراف کا اِعزاز حاصل کر رہی ہے۔نظریۂ اِضافیت میں روشنی کی عام رفتار کا حصول بھی ناممکن بنا کر پیش کیا گیا ہے، جبکہ حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برّاق پر سوار ہو کر ہزارہا روشنیوں کی رفتار سے سفرِ معراج پر تشریف لے گئے۔ بُرّاق برق کی جمع ہے، جس کے معنی روشنی کے ہیں۔
آج کا انسان اپنی تمام تر مادّی ترقی کے باوجود روشنی کی رفتار کا حصول اپنے لئے ناممکن تصوّر کرتا ہے۔ یہ احساسِ محرومی اُسے اِحساسِ کمتری میں مبتلا کر دیتا ہے، جبکہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روشنی سے بھی کئی گنا تیز رفتار برّاق پر سوار ہو کر سفرِ معراج پر روانہ ہوئے۔
معراج کا واقعہ علمِ انسانی کے لئے اشارہ ہے کہ اِس کائناتِ رنگ و بو میں موجود عناصر ہی کی باہم کسی انوکھی ترکیب سے اِس بات کا قوِی امکان ہے کہ انسان روشنی کی رفتار کو پالے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو لاکھوں کروڑوں نوری سال کی مسافتوں میں بکھری ہوئی اِس کائنات کی تسخیر کا خواب اُدھورا رہ جائے گا۔ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا تھا ؎
خبر ملی ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے
کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں
معجزۂ معراج طئ زمانی اور طئ مکانی کی جامعیت کا مظہر اب جدید سائنس بھی اپنی تحقیقات کو بنیاد بنا کر اس کائناتی سچائی تک رسائی حاصل کر چکی ہےکہ رفتار میں کمی و بیشی کے مطابق کسی جسم پر وقت کا پھیلنا اور سکڑ جانا اور جسم کے حجم اور فاصلوں کا سکڑنا اور پھیلنا قوانینِ فطرت اور منشائے خداوندی کے عین موافق ہے۔
ربِّ کائنات نے اپنی آخری آسمانی کتاب قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں طئزمانی اورطئ مکانی کی بعض صورتوں کا ذکر فرما کر بنی نوع انسان پر یہ واضح کر دیا ہے کہ انسان تو بیسویں صدی میں اپنی عقل کے بل بوتے پر وقت اور جگہ (Time & Space) کے اِضافی (Relative) تصوّرات کو اپنے حیطۂ ادراک میں لانے میں کامیاب ہو گا لیکن ہم ساتویں صدی عیسوی کے اوائل ہی میں اپنی وحی کے ذریعہ اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ان کائناتی سچائیوں کو منکشف کر رہے ہیں۔
طئ مکانی ۔لاکھوں کروڑوں کلومیٹرز کی وُسعتوں میں بکھری مسافتوں کے ایک جنبشِ قدم میں سِمٹ آنے کو اصطلاحاً ’طئ مکانی‘ کہتے ہیں۔
طئ زمانی۔صدیوں پر محیط وقت کے چند لمحوں میں سمٹ آنے کو اِصطلاحاً ’طئ زمانی‘ کہتے ہیں۔
خدائے قدیر و خبیر اپنے برگزیدہ انبیائے کرام اور اولیائے عظام میں سے کسی کو معجزہ اور کرامت کے طور پر طئ زمانی اور کسی کو طئ مکانی کے کمالات عطا کرتا ہے لیکن حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سفرِ معراج معجزاتِ طئ زمانی اور طئ مکانی دونوں کی جامعیت کا مظہر ہے۔ سفر کا ایک رخ اگر طئ زمانی کا آئینہ دار ہے تو اُس کا دوسرا رخ طئ مکانی پر محیط نظر آتا ہے۔ معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوران میں ان معجزات کا صدور نصِ قرآن و حدیث سے ثابت ہے، جن کی صحت میں کسی صاحبِ اِیمان کے لئے اِنحراف کی گنجائش نہیں۔
قرآنِ حکیم میں طئ مکانی کا ذکر
حضرت سلیمان علیہ السلام ملکۂ سبا ’’بلقیس‘‘ کے تخت کے بارے میں اپنے درباریوں سے سوال کرتے ہیں :(حضرت سلیمان علیہ السلام نے) فرمایا : ’’اے دربار والو! تم میں سے کون اُس (ملکہ) کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے، قبل اِس کے کہ وہ لوگ فرمانبردار ہو کر میرے پاس آ جائیں۔‘‘(النمل، 27 : 38)
ملکۂ سبا بلقیس کا تخت دربارِ سلیمان علیہ السلام سے تقریباً 900 میل کے فاصلے پر پڑا ہوا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام چاہتے تھے کہ ملکۂ سبا جو مطیع ہو کر اُن کے دربار میں حاضر ہونے کے لئے اپنے پایۂ تخت سے روانہ ہو چکی ہے، اُس کا تخت اُس کے آنے سے قبل ہی سرِدربار پیش کر دیا جائے۔ قرآنِ مجید کہتا ہے :’’ایک قوی ہیکل جن نے عرض کیا : ’’میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ اپنے مقام سے اُٹھیں اور بے شک میں اُس (کے لانے) پر طاقتور (اور) امانتدار ہوں۔‘‘(النمل، 27 : 39)قرآنِ مجید کی اس آیتِ کریمہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام کے دربار کے ایک جن کو قاعدۂ طئی مکانی کے تحت یہ قدرت حاصل تھی کہ وہ دربار برخاست ہونے سے پہلے 900 میل کی مسافت سے تختِ بلقیس لاکر حاضر کر دے لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام کو اِتنی تاخیر بھی گوارا نہ ہوئی۔ اس موقع پر آپ کا ایک صحابی ’آصف بن برخیا‘ جس کے پاس کتابُ اللہ کا علم تھا، خود کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔ اس انداز کو قرآنِ کریم نے اِس طرح بیان فرمایا :’’(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کا کچھ علم تھا کہ میں اُسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اِس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے۔ پھر جب سلیمان (علیہ السلام) نے اُس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا یہ میرے رب کا فضل ہے۔‘‘(النمل، 27 : 40)
حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک برگزیدہ صحابی آنکھ جھپکنے سے پیشتر تختِ بلقیس اپنے نبی کے قدموں میں حاضر کر دیتا ہے۔ یہ طئ مکانی کی ایک نا قابلِ تردِید قرآنی مثال تھی کہ فاصلے سمٹ گئے، جسے قرآن حکیم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک اُمتی سے منسوب کیا ہے۔اگر اس کرامت کا صدور حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک اُمتی سے ہو سکتا ہے تو اِس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نبی آخرالزّماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کے نفوسِ قدسیہ کے کمالات کی کیا حد ہو گی! مردِ مومن کا اِشارہ پاتے ہی ہزاروں میل کی مسافت اُس کے ایک قدم میں سمٹ آتی ہے اور اُس کے قدم اُٹھانے سے پہلے شرق و غرب کے مقامات زیرِ پا آ جاتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال ؒ :
دو نیم اُن کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سِمٹ کر پہاڑ اُن کی ہیبت سے رائی
قرآنِ حکیم میں طئ زمانی کا ذکر:
قرآن ہر علم، حکمت اور دانائی کا سرچشمہ ہے جو کائنات کے رازہائے سربستہ کو ذہنِ انسانی پر مُنکشف کرتا ہے اور اُس میں شعور و آگہی کے اَن گِنَت چراغ روشن کرتا ہے۔
طئ زمانی کا ذکر بھی رب ِاَرض و سماوات کی آخری اِلہامی کتاب میں پوری وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔
اَصحابِ کہف اور حضرت عزیر علیہ السلام کے واقعات طئ زمانی کی خوبصورت مثالیں ہیں۔ان دونوں واقعات میں خرقِ عادت اور محیّرالعقول میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں واقعات اِسی کرۂ ارضی پر وُقوع پذیر ہوئے اور طئی زمانی کے حصول کے لئے سماوِی کائنات (Outer Cosmos) میں روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کیا گیا، مگر پھر بھی ظہورِ قدرتِ اِلٰہیہ کا نظارہ کیا عجب ہے کہ وقت تھم گیا اور مادّی اَجسام بھی محفوظ رہے اور صدیوں پر محیط عرصہ بھی بیت گیا۔
اَصحابِ کہف اور طئی زمانی:۔
قرآنِ حکیم طئ زمانی کی مثال اصحابِ کہف کے حوالے سے یوں بیان کرتا ہے کہ تین سو نو سال تک وہ ایک غار میں لیٹے رہے اور جب سو کر اٹھے تو انہیں یوں گمان ہوا گویا وہ محض ایک دن یا دن کا کچھ حصہ سوئے رہے ہیں۔ قرآنِ مجید اِس محیرالعقول واقعہ کو اِن اَلفاظ میں بیان کرتا ہے :’’اُن میں سے ایک کہنے والے نے کہا : ’’تم (یہاں) کتنا عرصہ ٹھہرے ہو‘‘؟ اُنہوں نے کہا : ’’ہم (یہاں) ایک دن یا اُس کا (بھی) کچھ حصہ ٹھہرے ہیں‘‘۔(الکهف، 18 : 19)
309 سال گزر جانے کے باوجود اُنہیں یوں محسوس ہوا کہ ایک دن بھی نہیں گزرنے پایا اور اُن کے اجسام پہلے کی طرح تروتازہ اور توانا رہے۔ طئ زمانی کی یہ کتنی حیرت انگیز مثال ہے کہ مدتِ مدید تک اصحابِ کہف اور اُن کا کتا غار میں مقیم رہے اور مُرورِ ایام سے اُنہیں کوئی گزند نہ پہنچا۔ قرآنِ مجید کے اس مقام کے سیاق و سباق کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو اصحابِ کہف کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ اپنے غار میں 309 سال تک آرام فرما رہے۔ کھانے پینے سے بالکل بے نیاز قبر کی سی حالت میں 309 سال تک اُن کے جسموں کو گردشِ لیل و نہار سے پیدا ہونے والے اَثرات سے کلیتاً محفوظ رکھا گیا۔ سورج رحمتِ خداوندی کے خصوصی مظہر کے طور پر اُن کی خاطر اپنا راستہ بدلتا رہا تاکہ اُن کے جسم موسمی تغیرات سے محفوظ و مامون اور صحیح و سالم رہیں۔ 309 قمری سال 300 شمسی سالوں کے مساوی ہوتے ہیں۔مضمون جاری ہے۔۔۔۔
رابطہ۔7006066796