توصیف احمد وانی
خرق عادت واقعہ ہے۔جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفّل دروازوں کو کھولنے کی اِبتداء کی۔انسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلاء میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سراِنجام دیا۔آج سے چودہ سو سال قبل علومِ اِنسانی میں اتنی وُسعت تھی اور نہ اِتنی گیرائی اور گہرائی کہ معجزاتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوئی اَدنیٰ جزو ہی اُن کے فہم و اِدراک میں آ جاتا،حتی کہ اُس وقت بہت سے علومِ جدیدہ کی مُبادیات تک کا بھی دُور دُور تک کہیں نام و نشان نہ تھا۔
آج عقلِ اِنسانی اپنے ارتقاء، اپنی تحقیق اور جستجو کے بل بوتے پر جن کائناتی صداقتوں اور سچائیوں کو تسلیم کر رہی ہے، ہزاروں سال قبل ان کی تصدیق و توثیق وحئ اِلٰہی کے بغیر ممکن نہ تھی۔تاریخ شاہد عادل ہے کہ جمیع مسلمانانِ عالم اِیمان بالغیب اور قدرتِ اِلٰہیہ کے ظہور پر اِیمان رکھنے کی وجہ سے بغیر دلیل معجزاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمیشہ قائل رہے۔عہدِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، عہدِ صحابہ اور بعد میں آنے والے اُن مسلمانوں کا اِیمان قابلِ رشک اور قابلِ داد تھا کہ ظہورِ قدرتِ اِلٰہیہ کے ناقابلِ فہم و اِدراک ہونے کے باوجود اُن کا اِیمان کبھی متزلزل نہیں ہوا، اُن کے آئینۂ دل پر کبھی بھی شبہات کی گرد اور وسوسوں کی دُھول نہیں پڑی، اُن کے آئینۂ شعور میں بھی کبھی کوئی بال نہیں آیا۔آج سے چودہ سو سال قبل عقلی بنیادوں پر دورانِ معراج آن کی آن میں ساتوں آسمانوں کی حدود سے گزر کر لامکاں تک جا پہنچنا اور اسی لمحے میں اس کھربوں نوری سال کی مسافت کو طے کر کے واپس سرزمینِ مکہ پر تشریف لے آنا تو کُجا زمین کی بالائی فضا میں پرواز کا تصوّر بھی ناقابلِ یقین محسوس ہوتا ہےاور دُوسری طرف آج کا انسان اللہ ربّ العزّت کی عطا کردہ تخلیقی صلاحیتوں کی بدولت عالمِ اَسباب کے اندر رہتے ہوئے اپنی کی سی اِتباعِ معجزۂ معراج میں کائنات کو مسخر کرنے کا عزم لے کر نکلا ہے۔اگرچہ آج کا اِنسان صبح و شام فضائے بسیط میں محوِ پرواز ہے لیکن اگر واقعۂ معراج کو اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ حیطۂ شعور میں لایا جائے تو خلائی سفر کے مخصوص لوازمات کے بغیر کرّۂ فضا سے باہر ایتھر (Ather) میں کروڑوں نوری سال کا سفر طے کرنے کا تصوّر آج بھی ناممکن دِکھائی دیتا ہے۔
فضائے بالا کی مختلف کیفیّات یہ کرۂ ارضی گیسوں پر مشتمل ایک ایسے شفّاف غلاف میں لپٹا ہوا ہے۔جو زمین پر زندگی کو ممکن بھی بناتا ہے اور شہابِ ثاقب کی بارِش میں اس پر پرورش پانے والی زندگی کو تحفظ کی رِدا بھی فراہم کرتا ہے۔آج کے اس خلائی تحقیقات کے دور میں جب اِنسان خلاء کے سفر پر روانہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے مرحلے میں اُسے سینکڑوں کلومیٹر کی گہرائی پر مشتمل زندگی بخش ہواؤں کے اِسی سمندر کو عبور کرنا ہوتا ہے۔ہوائی سفر میں زیادہ بلندی پر آکسیجن کی کمی کی صورت میں گیس ماسک (Gas Mask) استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاز کے اندر مصنوعی طور پر ہوا کا دباؤ (Air Pressure) بھی بنایا جاتا ہے اور اگر کسی تیکنیکی خرابی کی وجہ سے مکیّف (Air Tight) جہاز میں سوراخ ہو جائے تو جہاز کے اندر کا مصنوعی دباؤ تیزی سے گر جاتا ہے، جس سے مسافروں کے اَجسام سخت اِضمحلال کا شکار ہو جاتے ہیں۔بعض صورتوں میں مسافروں کے منہ، ناک اور کانوں سے خون بھی بہنا شروع ہو جاتا ہے۔اگر فوری طور پر دوبارہ مصنوعی دباؤ بنانا ممکن نہ ہو تو پائلٹ تیزی سے جہاز کی بلندی گراتے ہوئے اُسے اُس مخصوص سطح تک لے آتے ہیں، جہاں ہوا کا مناسب دباؤ موجود ہوتا ہے اور مسافر مزید پریشانی اور جانی نقصان سے بچ جاتے ہیں۔خلائی سفر کی لابدّی ضروریات خلائی سفر پر روانگی کے دوران کرۂ ہوائی (Atmosphere) سے باہر نکلنے کے لئے کم از کم 40,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار درکار ہوتی ہے۔چنانچہ خلانوردوں (Astronauts) کو آکسیجن اور مصنوعی دباؤ کے ساتھ ساتھ ایک مخصوص لباس ’’Pressuresuit ‘‘ بھی درکار ہوتا ہے جو اُنہیں درجۂ حرارت کی شدّت کے علاوہ برقی مقناطیسی لہروں (Electro Magnetic Radiations) سے بھی محفوظ رکھتا ہے۔EVA Spacesuitجو ایک اِنسان کو خلائی سفر کے دوران آکسیجن کی فراہمی، مناسب حرارت، کمیونیکیشن اور خلاء میں قیام کے لئے دیگر ضروری سہولیات فراہم کرتا ہے۔اس کے علاوہ (Manned Maneuvering Unit (MMU کی بدولت اِنسان اِس قابل بھی ہو چکا ہے کہ خلائی شٹل سے باہر نکل کر ایک مصنوعی سیارے کی طرح زمین کے مدار میں طویل وقت کے لئے بآسانی چہل قدمی کر سکے۔
تسخیرِ ماہتاب اِنسان کا بعید ترین خلائی سفر
ہوائی سفر کی مشکلات پر بتدریج قابو پایا جا رہا ہے اور اب یہ سفر کسی حد تک محفوظ خیال کیا جاتا ہے لیکن خلائی سفر میں انسان کو فنی اور تیکنیکی پیچیدگیوں کا ہی سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ نفسیاتی اُلجھنیں بھی اُس کا دامن تھام لیتی ہیں۔خلاء کا سفر خطرات سے خالی نہیں، لیکن جذبۂ تسخیرِ کائنات عزم کو عمل کے سانچے میں ڈھالتا ہے تو انسان چاند کی سطح پر اپنی عظمت کا پرچم نصب کرنے کے بعد اپنے خلائی سفر کے اگلے مرحلے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہو جاتا ہے۔بیسویں صدی میں یہ کارنامہ سراِنجام دیا جا چکا ہے۔
خلائی تحقیقات کے امریکی اِدارے (National Aeronautic Space Agency (NASA کی طرف سے تسخیرِ ماہتاب کے لئے شروع کئے گئے دس سالہ اپالو مِشن کے تحت جولائی 1969ء میں چاند کا پہلا کامیاب سفر کرنے والے Apolo-11 کے مسافر امریکی خلانورد ’نیل آر مسٹرانگ‘ (Neil Armstrong) اور ’ایڈون بُز‘ (Edwin Buzz) تاریخِ اِنسانی کے وہ پہلے اَفراد تھے جو چاند کی سطح پر اُترے جبکہ اُن کا تیسرا ساتھی ’کولنز‘ (Collins) اُس دوران مصنوعی سیارے کی مانند چاند کے گرد محوِ گردش رہا ہے۔اس دوران امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم زمینی مرکز (Kennedy Space Center (KSC میں موجود سائنسدان اُنہیں براہِ راست ہدایات دے رہے تھے۔ ضروری تجربات کے علاوہ مختلف ساخت کے چند پتھروں کے نمونے وغیرہ لے کر، روانگی سے محض دو دن بعد خلا نوردوں کا یہ مہم جو قافلہ واپس زمین پر آ گیا۔ اِس مہم کے دوران پل پل کی خبر ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعہ زمین کے مختلف خطوں میں بسنے والے اِنسانوں تک پہنچائی جاتی رہی۔عالم انسانیت کی ان خلائی فتوحات اور تسخیرِماہتاب کا ذِکر چودہ صدیاں قبل صحیفۂ کمال یعنی قرآنِ مجید میں پوری وضاحت کے ساتھ کر دیا گیا تھا۔
اِرشادِ خداوندی ہے:’’قسم ہے چاند کی جب وہ پورا دکھائی دیتا ہے،تم یقیناً طبق در طبق ضرور سواری کرتے ہوئے جاؤ گےتو اُنہیں کیا ہو گیا ہے کہ (قرآنی پیشینگوئی کی صداقت دیکھ کر بھی) اِیمان نہیں لاتے۔‘‘(الانشقاق، 84 : 18 – 20)قرآنِ حکیم کے علاوہ بائبل سمیت دیگر صحائفِ آسمانی اور مذہبی کتب میں اِس قدر درُست سائنسی حوالے بالکل نہیں ملتے۔درج بالا آیتِ مبارکہ میں تسخیرِ ماہتاب کا جو واضح اِشارہ ہے، بیسویں صدی کے اِنسان نے اُس اِشارے کی عملی تفسیر اپنی آنکھوں سے دیکھی۔آج کے انسان نے کامیابی و کامرانی کی اَن گنت منازِل طے کر لی ہیں۔علومِ جدیدہ اِنسان کے ذِہن کو کشادگی بخش رہے ہیں۔اُلجھی ہوئی گرہیں کھل رہی ہیں اور کائنات اپنی ازلی صداقتوں کے ساتھ نکھر کر اُس کے سامنے بے نقاب ہوتی چلی آ رہی ہے۔لیکن اپنی تمام تر مادّی ترقی کے باوجود ابھی تک اِنسان روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کی صلاحیّت حاصل نہیں کر سکا۔روشنی 1,86,000 میل (تین لاکھ کلومیٹر) فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے اور سائنس کی زبان میں اِس قدر رفتار کا حصول کسی بھی مادّی شئے کے لئے محال ہے۔
روشنی کی رفتار کے حصول میں حائل رکاوٹیں
ممتاز سائنسدان ’البرٹ آئن سٹائن‘ نے 1905ء میں ’نظریۂ اضافیتِ مخصوصہ‘ (Special Theory of Relativity) پیش کیا۔ اُس تھیوری میں آئن سٹائن نے وقت اور فاصلہ دونوں کو تغیر پذیر قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ زمان و مکاں (Time & Space) کی گتھیاں اِس تھیوری کے کماحقہ اِدراک کے بغیر نہیں سلجھ سکتیں۔آئن سٹائن نے ثابت کیا ہے کہ مادّہ (Matter) توانائی (Energy) کشش (Gravity) زمان (Time) اور مکان (Space) میں ایک خاص ربط اور ایک خاص نسبت پائی جاتی ہے۔اُس نے یہ بھی ثابت کیا کہ اِن سب کی مطلقاً کوئی حیثیت نہیں۔مثلاً جب ہم کسی وقت یا فاصلے کی پیمائش کرتے ہیں تو وہ اِضافی (Relative) حیثیت سے کرتے ہیں۔گویا کائنات کے مختلف مقامات پر وقت اور فاصلہ دونوں کی پیمائش میں کمی و بیشی ممکن ہے۔نظریۂ اِضافیت میں آئن سٹائن نے یہ بھی ثابت کیا کہ کسی بھی مادّی جسم کے لئے روشنی کی رفتار کا حصول ناممکن ہے اور ایک جسم جب دو مختلف رفتاروں سے حرکت کرتا ہے تو اُس کا حجم بھی اُسی تناسب سے گھٹتا اور بڑھتا ہے۔آئن سٹائن برسوں کے غوروفکر کے بعد اِس نتیجے پر پہنچا کہ اِنتہائی تیز رفتار متحرّک جسم کی لمبائی اُس کی حرکت کی سمت میں کم ہو جاتی ہے۔چنانچہ روشنی کی 90 فیصد رفتار سے سفر کرنے والے جسم کی کمیّت دوگنا ہو جاتی ہے، جبکہ اُس کا حجم نصف رہ جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ وقت کی رفتار بھی اُس پر نصف رہ جاتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی راکٹ 1,67,000 میل فی سیکنڈ (روشنی کی رفتار کا 90 فیصد) کی رفتار سے 10 سال سفر کرے تو اُس میں موجود خلانورد کی عمر میں صرف 5 سال کا اِضافہ ہو گا جبکہ زمین پر موجود اُس کے جڑواں بھائی پر 10 سال گزرنے کی وجہ سے خلانورد اُس سے 5 سال چھوٹا رہ جائے گا۔آئن سٹائن نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اِنسانی جسم کی اِس محیّرالعقول رفتار پر نہ صرف دِل کی دھڑکن اور دورانِ خون بلکہ اِنسان کا نظامِ اِنہضام اور تنفس بھی سست پڑ جائے گا۔ جس کا لازمی نتیجہ اُس خلانورد کی عمر میں کمی کی صورت میں نکلے گا۔آئن سٹائن کے اِس نظریہ کے مطابق روشنی کی رفتار کا 90 فیصد حاصل کرنے سے جہاں وقت کی رفتار نصف رہ جاتی ہے، وہاں جسم کا حجم بھی سکڑ کر نصف رہ جاتا ہے اور اگر مادّی جسم اِس سے بھی زیادہ رفتار حاصل کرلے تو اُس کے حجم اور اُس پر گزرنے والے وقت کی رفتار میں بھی اُسی تناسب سے کمی ہوتی چلی جائے گی۔۔(جاری)
اونتی پورہ پلوامہ۔رابطہ۔7006066796