Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

معراج النبی ؐ۔ دین حق کی وحدت کا اعلان تجلیاتِ ادراک

Towseef
Last updated: January 26, 2025 11:31 pm
Towseef
Share
15 Min Read
SHARE

ڈاکٹر عریف جامعی

رب تعالیٰ نے اپنی بے پناہ حکمت کے تحت انسان جیسی باشعور مخلوق کو منصۂ شہود پر لایا اور اسے عقل کے ساتھ ساتھ اخلاقی حِس اور حِس جمالیات سے نوازا۔ واضح رہے کہ ان تینوں جہات کا انسان کو شعور حاصل ہے اور وہ ان میں سے کسی ایک سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتا، کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں انسان کا باقی مخلوقات پر تفوق بھی ختم ہوگا اور اس کا امتیاز بھی جاتا رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان عقل کی سواری پر سوار ہوکر اسی جہاں میں کئی جہانوں کی تلاش کرتا ہے، جنہیں یہ جمالیات کے مو قلم (برش) سے سنوارتا رہتا ہے۔ تاہم انسان کسی بھی وقت اپنی اخلاقی شناخت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ’’ستاروں کی گزرگاہوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے‘‘ بھی اخلاقی اصولوں کی پاسداری سے مکمل انکار نہیں کرپاتا۔

اگرچہ فرد کا انفرادی ضمیر اور انسانیت کا اجتماعی ضمیر انسان کی عقل اور جمالیات کو راہ راست پر قائم رکھ سکتے تھے، لیکن رب تعالی نے انسان پر یہ کرم فرمایا کہ اس کے لئے ہدایت کا ایک ابدی اور خارجی انتظام بھی فرمایا۔ ہدایت کی اس عظیم اور ابدی شاہراہ کی ابتداء سیدنا آدم ؑ سے کی گئی۔ یعنی ذریت آدم ؑ کی ہدایت کو تخلیق آدم ؑ کے کسی بعد کے مرحلے کے لئے مؤخر نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس اولاد آدم ؑ کو زمین پر بھیجتے ہوئے اعلان کیا گیا:’’ہم نے کہا تم سب یہاں سے چلے جاؤ، جب کبھی تمہارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اس کی تابعداری کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہیں۔‘‘ (البقرہ، ۳۸)۔ اس طرح جہاں ابتدائے آفرینش سے تا یوم قیامت شاہراہ ہدایت کا خاکہ انسانیت کے سامنے رکھا گیا، وہیں ہدایت کے ان عالی قدر حاملین کو ایک ہی صف میں دکھایا گیا۔ اس ضمن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’بے شک اللہ تعالی نے تمام جہان کے لوگوں میں سے آدم کو اور نوح کو، ابراہیم کے خاندان اور عمران کے خاندان کا انتخاب فرما لیا۔‘‘ (آل عمران، ۳۳) یعنی جہاں سیدنا آدم ؑ کو انسانیت کا حیاتیاتی باپ بنایا گیا، وہیں انہیں انسانیت کے رشد و ہدایت کا سرخیل بھی قرار دیا گیا۔

انسانیت کے ان گلہائے سرسبد کو چن کر انسانیت کا مقصد تخلیق ان الفاظ میں بیان کیا گیا: ’’میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں۔‘‘ (الذٰریٰت، ۵۶) اور جب خدا کی عبادت انسان کی تخلیق کا مقصد ٹھہرا تو اسی مقصد کے حصول کی تسہیل کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام کو ایک ہی جماعت کے ارکان قرار دیا گیا: ’’یہ تمہاری امت ہے، جو حقیقت میں ایک ہی امت ہے، اور میں تم سب کا پروردگار ہوں۔ پس تم میری ہی عبادت کرو۔‘‘ (الانبیاء، ۹۲) اس طرح جماعت انبیاء علیہ السلام نے انسانیت کو رموز بندگی بھی سکھائے اور اسی سرچشمے سے انسان کو معاشرت کا آب زلال بھی حاصل ہوا، جس سے انسان کے خورونوش، نشست و برخاست اور سکوت و کلام کی تطہیر و تزکیہ کا سامان ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرام کو ہی مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے: ’’اے پیغمبرو! حلال چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ تم جو کچھ کررہے ہو اس سے میں بخوبی واقف ہوں۔‘‘ (المؤمنون، ۵۱)۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس شاہراہ ہدایت کے لئے تقوٰی کو ایک سنگ میل کی حیثیت دی گئی، تو انبیاء کرام کو تقوٰی کے اس لائحۂ عمل کو یوں اختیار کرنے کا حکم دیا گیا: ’’یقیناً تمہارا یہ دین ایک ہی دین ہے اور میں تم سب کا رب ہوں، پس تم میرا تقوٰی اختیار کرو۔‘‘ (المؤمنون، ۵۲)۔

انبیاء کرام علیہم السلام کے اسی سلسلتہ الذہب کی آخری کڑی کے طور پر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا گیا، جنہیں اس شاہراہ ہدایت کی تکمیل کا فریضہ انجام دینا تھا۔ اس طرح آپ ؐ کے توسط سے ربّ تعالیٰ نے انسانیت کے لئے دین اسلام کی نعمت عظمیٰ کو تمام کیا۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔‘‘ (المائدہ، ۳)۔ اس تکمیل اور اتمام کے بعد دین حق کے علاوہ کسی بھی دین کو ناقابل قبول قرار دیا گیا اور اسلام کو سلامتی کا واحد راستہ قرار دیا گیا: ’’جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا۔‘‘ (آل عمران، ۸۵)

تاہم جن لوگوں نے انبیاء کرام سے حاصل شدہ ہدایت ناموں کو پارہ پارہ (الحجر، ۹۰۔۹۱) کیا تھا، انہیں یہ بات باور کرائی گئی کہ محمدؐ دراصل سیدنا آدم ؑ سے لیکر سیدنا مسیح ؑ تک مبعوث ہوئے انبیاء کرام کے ’’خاتم‘‘ ہیں، جو کسی بھی صورت میں کوئی نیا دین لیکر نہیں آئے ہیں: ’’آپ کہہ دیجئے کہ میں کوئی بالکل انوکھا پیغمبر تو نہیں۔‘‘ (الاحقاف، ۹)۔ اسی بات کا واشگاف اعلان نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے کچھ اس طرح فرمایا: ’’میں ابن مریم سے لوگوں میں سب سے زیادہ قریب ہوں، انبیاء علیہم السلام علاتی بھائی ہیں، میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں۔‘‘ (صحیح مسلم)

اسی دین کو قائم کرنے کی آپؐ ایک دہائی سے مسلسل جدوجہد کرتے آرہے تھے۔ اب آپؐ کے مخالفین اور معاندین نے آپؐ کے لئے حالات کو دگرگوں بنادیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرپرست، ابوطالب کی وفات کے بعد جب ابو لہب خاندان بنوہاشم کا سردار بنا تو اس نے آپؐ کو خاندانی تحفظ، جس کی قبائلی دور میں ہر فرد کو ضرورت ہوا کرتی تھی، دینے سے صاف انکار کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ ’’عام الحزن‘‘ کے بعد ہجرت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درجنوں قبائل کے سرداروں کو دعوت دی، لیکن کسی نے اسلام قبول کیا اور نا ہی کسی نے آپؐ کی حفاظت کا ذمہ لیا۔ نبی ؐ نے طائف کا جو سفر کیا اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہاں کے بنو ثقیف ایمان لاکر دعوت ِدین میں آپؐ کے ساتھی بنیں۔ تاہم انہوں ایسا معاندانہ اور مخالفانہ رویہ اختیار کیا کہ مکہ اور اس کے گردونواح میں دعوت کے امکانات مسدود ہوئے۔

انہی حالات میں ربّ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و عظیمت کے اساطین یعنی پیغمبران کرام علیہم السلام سے ملاقات کرائے تاکہ انبیائی تحریک کے تکمیلی مرحلے میں پہنچنے سے قبل انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے پیغام توحید کی وحدت کا مظاہرہ کیا جائے۔ اس سفر کی بالکل ابتداء میں نبیؐ کا شرح صدر کیا جانا اور آپؐ کے سینۂ مبارک کو ایمان اور یقین سے پُر کیا جانا اور اس کے بعد سفر کے دوران ’’بڑی بڑی نشانیوں (آیٰت الکبریٰ) کا مشاہدہ‘‘ (النجم، ۱۸؛ بنی اسرائیل، ۱) کچھ اسی طرح کا معاملہ ہے، جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو پیش آیا۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’اور ہم نے ایسے ہی ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کا انتظام دکھایا اور تاکہ (وہ) کامل یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔‘‘ (الانعام، ۷۵)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف آسمانوں پر مختلف انبیاء کرام علیہم السلام سے ملاقات اس حقیقت کا واشگاف اظہار ہے کہ توحید کے جس شجر طیبہ کا پتہ سیدنا آدم علیہ السلام سے لیکر سیدنا مسیح علیہ السلام تک تمام پیغمبران کرام دیتے آئے تھے وہی شجر اب سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی محنت شاقہ سے برگ و بار لانے والا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں: ’’کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے کلمۂ طیبہ کی مثال کس طرح بیان فرمائی۔ (کلمۂ طیبہ) مثل ایک پاکیزہ درخت کے ہے جس کی جڑ مضبوط ہے اور جس کی ٹہنیاں آسمان میں ہیں۔‘‘(ابراہیم، ۲۴) ظاہر ہے کہ یہ شجر ابوالانبیاء، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنی مہاجرت کے بعد مکہ المکرمہ کی وادئ غیر ذی زرع میں لگایا تھا اور اس کے لئے یوں دعا فرمائی تھی: ’’اے ہمارے رب! ان میں انہی میں سے رسول بھیج۔‘‘ (البقرہ، ۱۲۹)، اسی شجر کی آبیاری نبیؐ ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک اسی وادی (مکہ المکرمہ) میں کرتے رہے۔ اپنے باپ، ابراہیم علیہ السلام کی طرح اب آپؐ کی مہاجرت کا وقت بھی قریب آپہنچا تھا۔ یعنی اس شجر طیبہ کا مدینہ طیبہ کی زرخیز زمین بے صبری کے ساتھ انتظار کررہی تھی۔تاہم اس مہاجرت سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان آسمانوں کی سیر کرائی گئی جہاں تک اس شجر طیبہ کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں۔ (ابراہیم، ۲۴)۔ عبدیت، للٰہیت اور اخلاص کی جس کتاب کو محمدؐ پایۂ تکمیل تک پہنچا رہے تھے، اسی کا ایک ایک عنوان اور ہر باب آپؐ کو دکھایا گیا۔ ((النجم، ۱۶۔۱۸) ) ایک طرف آپؐ نے اپنے جد امجد، سیدنا آدم علیہ السلام کو اپنی نیک اور بد اولاد کو دیکھ کر خوش اور غمگین ہوتے ہوئے دیکھا اور دوسری طرف ابوالانبیاء، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اس بیت المعمور کے پاس دیکھا (ابن ہشام) جس کا فرشتے ہر وقت طواف کرتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کائنات کی کوئی سب سے بڑی حقیقت ہے، تو وہ یہ ہے کہ مخلوقات کے لئے رب تعالیٰ کی بندگی ہی اصل رویہ ہے، کیونکہ زمین پر بھی ہر مخلوق، سرکشوں کو چھوڑ کر، خدا کے گھر (کعبہ) کا طواف کررہی ہے اور آسمانوں میں بھی مقرب فرشتے اس کے گھر (بیت المعمور) کا طواف کرتے رہتے ہیں۔

معراج سے یہ بات بھی سمجھ میں آجاتی ہے کہ مرئی اور غیر مرئی دنیائیں آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ یعنی حقیقت کا وہ حصہ بہت تھوڑا ہے جو ہمیں نظر آتا ہے، جبکہ یہ تھوڑا حصہ اسی وقت بامعنی اور بامقصد بنتا ہے جب اسے نظر نہ آنے والے حصے سے ملاکر دیکھا جائے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام دنیا کو اسی غیر مرئی دنیا کی خبر دیتے آئے ہیں۔ یہی وہ خبر ہے، جسے قرآن نے ’’نبا العظیم‘‘ (النبا، ۲) کہا ہے۔ اسی کو عام کرنے کے لئے انہوں نے مصائب جھیلے۔ اسی خبر کے کا ابلاغ عام رسالتمآبؐ کررہے تھے۔ آپ ؐ کی دعوت کے اس نازک اور فیصلہ کن موڑ پر آپؐ کو معراج کراکے یہ بتایا گیا کہ یہ آپ ؐ کے پیش رو پیغمبران کرام علیہم السلام ہیں، جن کے کام کی آپؐ کو تکمیل کرنا ہے۔ یہی مفہوم ہے اس حدیث کا جس میں آپؐ نے اپنی اور اگلے پیغمبروں کی تمثیل کچھ اس طرح بیان فرمائی: ’’میری اور دوسرے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے گھر بنائے، اور انہیں خوب آراستہ پیراستہ کر کے مکمل کر دیا، لیکن گھروں کے کناروں میں سے ایک کنارے پر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، اب تمام لوگ آتے ہیں اور (عمارت کو) چاروں طرف سے گھوم کر دیکھتے ہیں اور وہ عمارت انہیں تعجب میں ڈالتی ہے، لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ یہاں پر (یہ) ایک اینٹ کیوں نہ رکھی گئی، جس سے اس (عمارت) کی تعمیر مکمل ہو جاتی۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں ہی وہ اینٹ ہوں۔‘‘ (صحيفه همام بن منبہ)

چونکہ معراج اور ہجرت کے بعد آپؐ نے مہاجرین اور انصار صحابہؓ کے تعاون سے اس کار عظیم کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا، اس لئے ربّ تعالیٰ نے دین حق کی وحدت کو واضح کرتے ہوئے دین کے ان اعوان اور انصار سے متعلق اگلے صحیفوں کی گواہی اس طرح بیان فرمائی: ’’محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں (وہ) منکرین پر سخت ہیں (جبکہ) آپس میں رحم دل ہیں۔ تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں۔ ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے۔ ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں مثل اس کھیتی کے (ہے) جس نے اپنا پٹھا نکالا، پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا۔ پھر اپنے تنے پر سیدھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا تاکہ ان کی وجہ سے منکرین کو چڑائے۔‘‘ (الفتح، ۲۹)
(مصنف گورنمنٹ ڈگری کالج، سوگام میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
رابطہ99858471965)
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
سید محمد الطاف بخاری نے مزار شہداء پر حاضری نہ دینے پر حکمران جماعت کے لیڈروں کو لتاڑا کہا، وزیراعلیٰ کو مزار شہدا پر جانے سے کون روک سکتا تھا؟ وہ جان بوجھ کر آج دلی چلے گئے
تازہ ترین
دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کو اب انصاف ملے گا: منوج سنہا
تازہ ترین
کولگام میں امرناتھ یاترا قافلے کی تین گاڑیاں متصادم: 10 سے زائد یاتری زخمی
تازہ ترین
امرناتھ یاترا:بھگوتی نگر بیس کیمپ سے 7 ہزار 49 یاتریوں کا بارہواں قافلہ روانہ
تازہ ترین

Related

کالممضامین

فاضل شفیع کاافسانوی مجموعہ ’’گردِشبِ خیال‘‘ تبصرہ

July 11, 2025
کالممضامین

’’حسن تغزل‘‘ کا حسین شاعر سید خورشید کاظمی مختصر خاکہ

July 11, 2025
کالممضامین

! ’’ناول۔1984‘‘ ایک خوفناک مستقبل کی تصویر اجمالی جائزہ

July 11, 2025
کالممضامین

نوبل انعام۔ ٹرمپ کی خواہش پوری ہوگی؟ دنیائے عالم

July 11, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?