ڈاکٹر عریف جامعی
اللہ تبارک و تعالی کے دین یعنی اسلام کا سیدنا آدمؑ سے لیکر سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تک مقصد یہی رہا ہے کہ انسان کا تزکیہ کیا جائے تاکہ وہ خدا کی اس ابدی دنیا یعنی جنت کے قابل ہوسکے، جس کا وعدہ پاکیزگی اختیار کرنے والوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ تاہم پاکیزگی اختیار کرنے کا یہ عمل یعنی تزکیہ کوئی پر اسرار عمل نہیں ہے کہ جسے فقط خواص تک محدود رکھا گیا ہو۔ سچ یہ ہے کہ یہ عمل تازہ ہوا کے جھونکوں، آفتاب کی کرنوں اور پھولوں کی خوشبو کی طرح اتنا عام کردیا گیا ہے کہ کوئی بھی صحیح و سالم اور ذوق سلیم رکھنے والا شخص اس کو محسوس کرسکتا ہے اور اس سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ عمل تزکیہ کی تاریخ پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فلسفیوں کے تعقل (کنٹمپلیشن) سے عام ہوا اور نہ ہی ترک ِدنیا کرنے والوں کی خلوت گزینی سے ہی اسے فروغ حاصل ہوا۔ اس عمل کو پرودرگار عالم نے اپنی اس ہدایت کی تجلّی سے عام کیا، جسے انبیاء کرام ؑ کی سعی و جہد اور محنت شاقہ سے انسانیت تک پہنچایا گیا۔
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ انسانیت کے باشعور اور حساس طبقے نے اس ضمن میں کوئی کوشش نہیں کی۔ ہر دور میں اور ہر معاشرے میں ان گنت لوگوں نے اپنی سطح پر ضرور کوشش کی کہ انسانیت کو راہ ِراست پر گامزن کیا جائے۔ لیکن خدا کی راست رہنمائی سے اعراض کرکے ان لوگوں کے فکر و خیال میں ایسا جھول ضرور نمودار ہوا، جس نے ان کی محنت کو رائیگاں کیا۔ نتیجتاً یا تو انہوں نے ہدایت کی عمارت کی بنیاد ہی اتنی کچی رکھی کہ ان کی تعمیر کردہ عمارت دھڑام سے گر پڑی یا پھر ان کی فکر کا قصر بلند ہوکر بھی ٹیڑھا ہی رہا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے افکار کو انسانیت کی اکثریت میں قبول عام حاصل ہوا اور نہ ان کو دوام اور ثبات مل سکا۔ اس کی واضح مثالیں ایک طرف فلاسفہ کا سیاسی اور اخلاقی یوٹوپیا (خیالی دنیا) ہے جس پر کبھی بھی کسی معاشرے کی تعمیر نہیں ہوسکی اور دوسری طرف راہبوں کی بظاہر نیک نیتی پر اپنایا گیا رویہ ہے، جس کی وہ اپنا کر رعایت نہ کرسکے۔
ظاہر ہے کہ اللہ کا دین ایسی تمام انتہاؤں سے مبرا رہا ہے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اس میں تعقل اور تفکر یا زہد و ورع کے لئے کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اس میں اس قسم کا توازن اور اقتصاد رکھا گیا ہے کہ عوام اور خواص دونوں اس کو اپنا نصب العین بنا کر کامیابی اور کامرانی حاصل کرسکتے ہیں۔ اس میں فلسفیوں کے لئے تعقل اور تفکر کا سامان ہے، صوفیوں کے لئے زاہدانہ رویہ اپنانے کے اصول ہیں اور عوام کے لئے روح و بدن کے تقاضے ایک ساتھ پورا کرنے کے مواقع موجود ہیں۔ یعنی دین حق میں ہر قسم کی افتاد طبع رکھنے والے انسان کی امنگوں کو پروان چڑھنے کا وافر سامان رکھا گیا ہے۔
دین کے اس عمومی مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے ہم معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام بھی سمجھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ معراج اگرچہ ایک ایسا روحانی واقعہ ہے ،جس کی کنہہ تک پہنچنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ تاہم اس میں روحانی دنیا اور مادی دنیا کی قربت کو کچھ اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ ان دونوں دنیاؤں کی دوئی یک لحظہ ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ مطلب یہ کہ انسانی شخصیت کے تزکیہ کے لئے درکار تعلیمات روحانی دنیا سے رسالتمآب صلی اللہ علیہ وسلم یعنی صاحب معراج کے ذریعے کچھ اس طرح ظاہری دنیا کی طرف منتقل ہوتی ہیں کہ ان دنیاؤں کا راست تعلق عیاں ہوتا نظر آتا ہے۔ اس سے یہ عمومی تاثر بھی ختم ہوتا نظر آتا ہے کہ روحانی دنیا مادی دنیا سے لاتعلق یا الگ تھلگ ہے۔ اس کے برعکس پروردگار عالم ہر چھوٹے بڑے معاملے کی نہ صرف خبر رکھتا ہے بلکہ ان کو ہر دم چلاتا بھی ہے۔ بفحوائے الفاظ قرآنی: ’’درخت سے گرنے والا کوئی پتا ایسا نہیں جس کا اسے علم نہ ہو۔‘‘ (الانعام، ۵۹)
جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو ’’ملکوت سمٰوات و الارض‘‘ دکھائے گئے، اسی انداز میں سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’عام آیات‘‘ بھی دکھائی گئیں اور ’’بڑی بڑی آیات‘‘ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا۔ ان آیات کو رسول اللہؐ نے بڑے ہی اطمینان اور سکون کے ساتھ دیکھا۔ (ما زاغ البصر وما طغٰی، النجم، ۱۷) ظاہر ہے کہ ان آیات کی اصل نوعیت کو رب تعالی ہی جانتا ہے۔ تاہم انسان کو سمجھانے کے لئے یہی کہا گیا ہے کہ ’’اس وقت سدرہ پر چھا رہا تھا جو کچھ چھا رہا تھا۔‘‘ (النجم، ۱۶)( ان آیات کے جلو میں نبی ؐ کو جن تعلیمات سے نوازا گیا ان سے دین حق کا عمومی مزاج یعنی اعتدال، توازن اور اقتصاد چھلکتا ہے۔ مثال کے طور پر اس موقعے پر نازل ہونے والی سورہ البقرہ کی آخری دو آیات کا بنیادی نکتہ ہی اعتدال ہے۔ قرآن کے الفاظ میں: ’’اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ (البقرہ، ۲۸۶) چونکہ سید سلیمان ندوی نے سورہ بنی اسرائیل کو معراج سے متعلق سورۃ ہی قرار دیا ہے، اس لئے اس سورۃ میں دی جانے والی تعلیمات بھی اعتدال پر مبنی ہیں۔چونکہ احادیث میں واقعۂ معراج کی مختلف جہتوں کا احاطہ کیا گیا ہے، اس لئے یہاں پر بھی دین کی اعتدال پر مبنی تعلیمات اور ان سے مرتب ہونے والے اثرات کو تمثیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ توازن پر مبنی یہ تعلیمات انسان کی انفرادی زندگی کے ساتھ ساتھ انسانی معاشرے کے لئے بھی قابل عمل ہیں۔ اس موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا کہ شاہراہ اعتدال سے روگردانی کرنے والوں کی حالت بہت ہی دگرگوں ہوگی۔ اور اس راہ پر استقامت سے چلنے والے لوگ خوش و خرم ہوں گے۔
اس دنیا میں جو چیز انسان کو راہ اعتدال اور فکری تزکیہ سے کوسوں دور دھکیل دیتی ہے وہ تکبر اور نخوت ہے۔ یہی تکبر اس کے لئے جنت سے محرومی کا باعث بنتا ہے۔ اس تکبر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والا عمل نماز ہے جو انسان میں فروتنی اور انکسار پیدا کرتی ہے۔ اب جس شخص نے نماز کو ہی ایک بار گراں سمجھا ہو، اس کا تکبر جوں کا توں برقرار رہتا ہے، کیونکہ اس عمل میں پرودرگار عالم کی چوکھٹ پر اپنی پیشانی کو رگڑنا پڑتا ہے۔ اس لئے معراج کے دوران نبی ؐ کو دکھایا گیا کہ ’’ایسے لوگوں کا سر پتھروں سے کچلا جارہا ہے جنہیں ان کی سرگرانی نماز کے لئے اٹھنے نہیں دیتی۔‘‘چونکہ عدل اجتماعی وہ قدر ہے جو پورے معاشرے کو اعتدال پر قائم رکھتی ہے، اس لئے حضورؐ کو دکھایا گیا کہ عدل اجتماعی کی حدود کو پھلانگنے والوں کا انجام کیسا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ عدل اجتماعی کی میزان کو درہم برہم کرنے والے متکبر مفلسوں، بے کسوں، لاچاروں اور یتیموں کے حقوق پامال کرتے ہیں، اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا انجام بھی دکھایا گیا۔ ایسے لوگ جو اپنے اموال سینت سینت کر رکھتے ہیں اور ان میں سے زکوٰۃ خیرات نہیں نکالتے، ان کو اس صورت میں دیکھا گیا کہ ’’ان کے کپڑوں میں آگے اور پیچھے پیوند لگے ہوئے ہیں اور وہ جانوروں کی طرح گھاس چرتے ہیں۔‘‘چونکہ سود خور بھی اسی قبیل میں شامل ہیں اس لئے ان کو اس صورت میں دیکھا گیا کہ ’’ان کے پیٹ بے انتہا بڑے اور سانپوں سے بھرے ہوئے ہیں اور آنے جانے والے ان کو روندتے ہوئے گزر جاتے ہیں، جبکہ وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں پاتے۔‘‘ یتیموں کا مال کھانے والے بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ اس لئے یہ اس صورت میں دیکھے گئے کہ ’’ان کے ہونٹ اونٹوں کے مشابہ تھے اور وہ آگ کھارہے تھے۔‘‘
غیر ذمہ دارانہ رویہ، چاہے وہ انفرادی سطح پر ہو یا اجتماعی سطح پر، معاشرے کے توازن اور اعتدال کو درہم برہم کرتا ہے۔ اس لئے نبی ؐ کو غیر ذمہ دار اشخاص، جن کی غیر ذمہ داری سے معاشرے کو کافی نقصان پہنچتا ہے، کا انجام بھی دکھایا گیا۔ جو شخص ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا، پھر بھی اپنا بوجھ بڑھاتا رہتا ہے، اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح دیکھا کہ ’’لکڑیوں کا گٹھا جمع کرکے اٹھانے کی کوشش کرتا ہے اور جب وہ نہیں اٹھتا تو اس میں کچھ اور لکڑیاں بڑھا لیتا ہے۔‘‘ اسی طرح فتنہ انگیزی کی بات کرکے پچھتانے والے کو رسول اللہؐ نے اس طرح دیکھا کہ ’’ایک پتھر میں ذرا سا شگاف ہوا اور اس سے ایک بڑا موٹا سا بیل نکل آیا۔ پھر وہ بیل اسی شگاف میں جانے کی کوشش کرتا ہے، مگر جا نہیں پاتا۔‘‘ اسی طرح غیر ذمہ دار مقرر، جو بلا تکلف زبان چلاکر فتنہ برپا کرتے ہیں، ان کو اس طرح دیکھا گیا کہ ’’اپنی زبانیں اور ہونٹ قینچیوں سے کترے جارہے ہیں۔‘‘
چونکہ اسلامی معاشرت کی بنیاد خاندانی نظام پر رکھی گئی ہے، اس لئے اس ادراے کو بنائے رکھنے کے لئے مرد اور خاتون دونوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ زنا خاندان کی حرمت کو پامال کرتا ہے، اس لئے بدکاری کے ذریعے اس ادارے کی حرمت تار تار کرنے والے مرد اور خواتین نہایت بری حالت میں دیکھے گئے۔ حلال بیویوں اور شوہروں کے ہوتے حرام کاری کرنے والوں کو اس طرح دیکھا گیا کہ وہ ’’لوگ نفیس گوشت کے ہوتے ہوئے سڑا ہوا بدبودار گوشت کھاتے ہیں۔‘‘اسی طرح اپنے شوہروں کے سر اوروں کے بچے منڈھ دینے والی خواتین کو ’’چھاتی کے بل لٹکتے ہوئے دیکھا گیا۔‘‘
واضح رہے کہ معراج کے موقعے پر جن چیزوں کا مشاہدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرایا گیا، ان کی اصل اور بنیاد قرآن میں موجود ہے۔انہی اصولوں اور بنیادوں کی تفصیل معراج کے سلسلے میں احادیث میں پیش کی گئی ہے۔ معراج والی سورۃ یعنی سورہ بنی اسرائیل میں اس شاہراہ اعتدال کے ساتھ ساتھ انسانی قویٰ کی تطہیر اور تزکیہ، جس کا ظہور معاشرے کے تزکیہ کی صورت میں ہوتا ہے، کا بیان اس طرح آیا ہے: ’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔‘‘ (بنی اسرائیل، ۳۶)
واضح رہے کہ انہی احکامات پر مدینہ طیبہ میں ایک ایسا معتدل معاشرہ تعمیر ہونے جارہا تھا جس میں توحید کی بالادستی کے ساتھ ساتھ خاندان کی حرمت بنیادی اہمیت کے حامل تھے۔ اس لئے جس طرح معراج نبی ؐ کے معاصرین کے لئے ایک آزمائش (بنی اسرائیل، ۶۰) تھی، بالکل اسی طرح آج کے اہل ایمان کے لئے بھی اس میں آزمائش کا کافی سامان موجود ہے۔ اس واقعے میں موجود سب سے بڑی آزمائش یہ ہے کہ اس شاہراہ اعتدال اور تزکیہ کو سمجھا جائے جس کو یہ واقعہ اس طرح پیش کرتا ہے کہ روحانی دنیا اور مادی دنیا ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی دنیائے ظاہر کو شاہراہ اعتدال پر چلانے کے لئے احکامات دنیائے غائب سے مجموئی طور پر انبیاء کرام علیہ السلام کے ذریعے آتے رہے ہیں۔ اسی سلسلے کو معراج النبیؐ نے آخری استناد بخشا، اس کی تکمیل کی اور اس پر مہر ثبت کی۔
(مضمون نگار گورنمنٹ ڈگری کالج سوگام، لولاب میں اسلامک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
9858471965رابطہ۔ [email protected]