ڈاکٹر جوہر ؔقدّوسی
طائف کے بازاروں میں اوباش لڑکوں کی سنگ باری کا دلخراش سانحہ گزر چکا تھا۔ مکہ مکرمہ میں حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وسلمکی واپسی کے مقفل دروازے کھل چکے تھے۔ قلب ِ اطہر کفار و مشرکین مکہ کی مسلسل چیرہ دستیوں پر ملول تھا، لیکن لب ِ اقدس پر دعا کے پھول کھل رہے تھے۔اسلامی تحریک کی قیادت ِ عظمیٰ آزمائش کے مراحل سے گزر چکی تھی۔ دلجوئی کے لئے نہ عبدالمطلب تھے ،اورنہ ابوطالب۔ایسے میں اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوبؐ کبریا کی دلجوئی اس طرح کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوعظمتوں اور رفعتوں کی اُس منزل تک لے گیا ،جس کا تصور بھی ذہن ِ انسانی میں نہیں سما سکتا۔ سدرۃ المنتہیٰ کی وہ منزل، جس سے آگے جبرائیل جیسے مقرب فرشتے کو بھی دم مارنے کی جا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے سفر معراج کا ایک پڑاؤ ٹھہری۔
تاریخ ارتقائے نسلِ انسانی کا ایک درخشندہ باب
معجزۂ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وقوع پذیر ہونا تاریخ ارتقائے نسلِ انسانی کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے، جس کا ایک ایک حرف عظمت و رفعت کی ہزارہا داستانوں کا امین اور عروجِ آدم خاکی کے ان گنت پہلوؤں کا عکاس ہے۔ نقوشِ کفِ پائے سیّدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے لوحِ افلاک پر شوکت ِ انسانی کی جو دستاویز مرتب ہوئی ،وہ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کی دلیل ہی نہیں، بلکہ ایک ایسا مینارہ ٔ نور بھی ہے، جو تسخیر کائنات کے ہر مرحلے پر آنے والی ہر نسلِ انسانی کے راستوں کو منور کرتا رہے گا اور آسمانوں کی حدود سے نکل کر اولاد آدم کو مشاہدہ ٔ فطرت کی ترغیب دیتا رہے گا اور اس پر نئے آفاق کے مقفل دروازوں کو وا کرتا رہے گا۔
معراجِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم اَصل میں معراجِ بندگی ہے۔ عظمتوں اور رِفعتوں کے اِس سفر میں اللہ ربّ ُالعزّت نے اپنے محبوب بندے اور رسول ﷺکو اَن گنت اِنعامات و اِعزازات سے نوازا۔ معراج اِتنا بڑا واقعہ ہے کہ اُس میں آقائے دوجہاں حضور رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقامِ قَابَ قَوْسَیْن پر فائز کیا گیا۔ قُرب اپنی اُس اِنتہا کو پہنچا کہ ہمیں اُس کا اِدراک حاصل ہو سکتا ہے اور نہ شعور۔ فاصلے مٹتے چلے گئے، دُوریاں ختم ہوتی چلی گئیں، حجابات اُٹھتے چلے گئے لیکن اُس مقام پر پہنچ کر بھی بندہ بندہ ہی رہا۔ درجات کی اُس عظیم الشّان بلندی پر جلوہ اَفروز ہو کر بھی عاجزی و اِنکساری کا پیرہن اُس رسولِ عظیم ﷺ کے لئے باعث ِ اِعزاز بنا رہا۔ کرۂ اَرضی پر واپسی ہوئی تو سیاحِ لامکاں حضور رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلمکا بشری و تہذیبی وُجود سلامت تھا۔ دراصل حضور صلی اللہ علیہ وسلمکے سفرِ معراج کا پہلوئے بشریت عالمِ بشریت کو فیض پہنچانے کے لئے تھا ،کہ آپﷺ کو نسلِ انسانی کی رشد و ہدایت کے لئے جامۂ بشریت میں مبعوث فرمایا گیا، جبکہ نورانیت کا پہلو عالمِ ملکوت کی فیض رسائی کے لئے تھا۔ یہ دونوں پہلو فی الحقیقت حضور رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلمکے حقیقی مقام کو واضح نہیں کر سکتے،کیونکہ آپﷺ کی حقیقت، نورانیت و بشریت کے مقامات سے وراء الوراء ہے۔کتابوں میں لکھا ہے کہ حضورﷺمقام بشریت کو بیت المقدس میں چھوڑ گئے اور مقام نورانیت کو عالم مَلَکیت میں چھوڑ کر آگے گزر گئے۔ حقیقت ِ محمدیﷺ ان دونوں مقامات کی انتہاء سے بھی بالاتر ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلمزمین پر واپس آ گئے، تاکہ زمین پر بسنے والی اولادِ آدم کو ظلم و بربریت سے نجات دلائیں۔ دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن جائے اور انسانی معاشروں میں عدل کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے، تاکہ انسانی معاشرے استحصال کی ہر شکل سے پاک ہو جائیں۔
کامل بندگی کی منزل مردِ مومن کی آرزو
بزرگوں نے لکھا ہے کہ کامل بندگی کی منزل مردِ مومن کی وہ آرزو ہے، جس کے حصول کے لئے وہ اپنی زِندگی کا ہر لمحہ حکمِ خدا کے تابع کر لیتا ہے، اِس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ پروردگارِ عالم کی کامل بندگی اِیمان میں کامل ہوئے بغیر نہیں ملتی اور اِنسان اِیمان میں کامل اُس وقت ہوتا ہے، جب وہ سرتاپا عشقِ اِلٰہی میں ڈُوب جاتا ہے۔ جب بندگی اُس کے سر کا تاج ٹھہرتی ہے اور اُس کا دِل توحیدِ اِلٰہی کا مرکز بن جاتا ہے۔ بندے کو اگر مقامِ بندگی عطا ہو جائے تو پھر وہ ہر منصب سے بے نیاز ہو جاتا ہے، ہر چیز کو ہیچ گردانتا ہے، لہٰذا اَپنے عبد کو آسمانوں کی سیر کرانے اور اُسے عظمتوں اور رِفعتوں سے ہمکنار کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ جس بندے کو اِعزازِ معراج سے نوازا گیا ،وہ کوئی عام بندہ نہ تھا بلکہ وہ اللہ کا آخری رسول تھا، جو ہر شئے سے کٹ کر اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ رشتۂ بندگی کو اَپنی اِنتہاؤں تک لے جا چکا تھا۔ جو ساری ساری رات اللہ کے حضور قیام کرتا کہ پاؤں سُوجھ جاتے اور اُن میں وَرم آ جاتا لیکن مقامِ بندگی کی حلاوتوں میں کچھ اور اِضافہ ہو جاتا۔
سفرِ معراج اتنی بڑی کائناتی سچائی ہے کہ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کا سارا اِرتقاء اِس سفر کا خوشہ چین ہے۔ جوں جوں انسان اپنے علم اور تجربات کی روشنی میں سفرِ معراج کے مختلف مراحل کی پرتیں کھولتا جائے گا، اَن گِنت کائناتی سچائیوں کا اِنکشاف ہوتا جائےگا اور جدید علوم کا دامن حیرت انگیز معلومات سے بھرتا جائےگا۔ سفرِ معراج کی جزئیات سے آگاہی علومِ جدیدہ کے ارتقاء کی ضامن ہے۔ معجزۂ معراج تو حضورنبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مقدّسہ کا ایک پہلو ہے۔ اگر حضور اکرمﷺ کی ذاتِ اَقدس سے اِکتسابِ شعور کرکے اِنسان اِرتقائی بلندیوں پر گامزن رہا تو خدا جانے آنیوالے زمانوں میں یہ اِرتقاء کی کن بلندیوں پر فائز ہو گا۔ یہ تمام بلندیاں بھی صاحبِ معراج ﷺکی گردِ پاہوں گی، اِس لئے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہر صدی حضور ﷺ کی صدی ہے، ہر زمانہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے تو یہ کوئی جذباتی بات نہیں ہوتی، بلکہ اِس کی بنیاد حضور ﷺ کی نقوشِ کفِ پا سے پھوٹنے والی اُن عظیم روشنیوں کے اِبلاغ پر اٹھائی جاتی ہے، جو تہذیبِ انسانی کے اِرتقاء کے ہرہر مرحلے پر اِہتمامِ چراغاں کر رہی ہیں۔
تاریخ کے اوراق پلٹیں،تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ معراج اعلان نبوت کے دسویں سال اور ہجرت ِ مدینہ سے ایک سال پہلے مکہ میں پیش آیا۔دیکھیے! کتاب’معارج النبوۃ‘کے مصنف اِس واقعے کو کس خوبی سے بیان کرتے ہیں،لکھتے ہیں : ماہِ رجب کی ستائیسویں رات ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں سے ارشاد فرماتا ہے: اے فرشتو! آج کی رات میری تسبیح بیان مت کرو، میری حمدو تقدیس کرنا بند کردو، آج کی رات میری اطاعت و بندگی چھوڑ دو اور آج کی رات جنت الفردوس کو لباس اور زیور سے آراستہ کرو۔ میری فرمانبرداری کا کلاہ اپنے سر پر باندھ لو۔ اے جبرائیل! میرا یہ پیغام میکائیل کو سنا دو کہ رزق کا پیمانہ ہاتھ سے علیحدہ کردے۔ اسرافیل سے کہہ دو کہ وہ صور کو کچھ عرصہ کے لئے موقوف کردے۔ عزرائیل سے کہہ دو کہ کچھ دیر کے لئے روحوں کو قبض کرنے سے ہاتھ اٹھالے۔ رضوان سے کہہ دو کہ وہ جنت الفردوس کی درجہ بندی کرے۔ داروغہ ٔ جہنم سے کہہ دو کہ دوزخ کو تالا لگادے۔ خلد بریں کی روحوں سے کہہ دو کہ آراستہ و پیراستہ ہوجائیں اور جنت کے محلوں کی چھتوں پر صف بستہ کھڑی ہوجائیں۔ مشرق سے مغرب تک جس قدر قبریں ہیں، ان سے عذاب ختم کردیا جائے۔ آج کی رات شب ِ معراج ہے، آج کی رات میرے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد آمد ہے،سب لوگ استقبال کے لئے تیار ہوجاؤ۔
چشم زدن میں عالم بالا کا نقشہ بدل گیا
الٰہی احکام کی تعمیل کی گئی۔چشم زدن میں عالم بالا کا نقشہ بدل گیا۔ حکم الٰہی ہوا:’’ اے جبرائیل! اپنے ساتھ ستر ہزار فرشتے لے جاؤ۔‘‘ بارگاہِ الہٰی سے حکم سنتے ہی جبریل امین علیہ السلام سواری لینےجنت میں جاتے ہیں،اورایسی سواری کا انتخاب کرتے ہیں، جو آج تک کسی شہنشاہ کو بھی میسر نہ ہوئی ہوگی۔ میسر ہونا تو دور کی بات ہے، دیکھی تک نہ ہوگی۔ اس سواری کا نام براق ہے۔ تفسیر روح البیان میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے براق پر کوئی سوار نہیں ہوا۔
ذراتصور کیجیے !ماہِ رجب کی ستائیسویں شب کس قدر پرکیف رات ہے۔ مطلع بالکل صاف ہے ۔فضاؤں میں عجیب سی کیفیت طاری ہے۔ رات آہستہ آہستہ کیف و نشاط کی مستی میں مست ہوتی جارہی ہے۔ ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ جھلملا رہے ہیں۔ پوری دنیا پر سکوت و خاموشی کا عالم طاری ہے۔ نصف شب گزرنے کو ہے کہ یکا یک آسمانی دنیا کا دروازہ کھلتا ہے۔ انوار و تجلیات کے جلوے سمیٹے حضرت جبرائیل علیہ السلام نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں جنتی براق لئے آسمان کی بلندیوں سے اتر کر حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لاتے ہیںِ جہاں ماہِ نبوت،نورِ رسالت حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم محو خواب، آنکھیں بند کئے، دلِ بیدار لئے آرام فرمارہے ہیں۔ حضرت جبریل امین ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ اگر آواز دے کر جگایا گیا تو بے ادبی ہوجائے گی۔ فکر مند ہیں کہ معراج کے دولہا کو کیسے بیدار کیا جائے؟ اسی وقت حکم ربّانی آتا ہے :’’ اے جبرائیل! میرے محبوب کے قدموں کو چوم لے، تاکہ تیرے لبوں کی ٹھنڈک سے میرے محبوبصلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل جائے۔ اِسی دن کے واسطے میں نے تجھے کافور سے پیدا کیا تھا۔‘‘ حکم سنتے ہی جبریل امین علیہ السلام آگے بڑھتے ہیں اور اپنے کافوری ہونٹ سرکارِ دو عالم ﷺ کے پائے ناز سے مس کردیتے ہیں۔
یہ منظر بھی کس قدر حسین ہوگا، جب جبرئیل امین علیہ السلام نے فخر کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کو بوسہ دیا۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام کے ہونٹوں کی ٹھنڈک پاکر حضورانورصلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں:’’ اے جبرائیل! کیسے آنا ہوا؟‘‘ عرض کرتے ہیں: ’’یارسول اللہ! (ﷺ) خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے بلاوے کا پروانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔یارسول اللہ (ﷺ)! اللہ تعالیٰ آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے۔ تشریف لے چلئے ۔زمین سے لے کر آسمانوں تک ساری گزر گاہوں پر مشتاق ِ دید کا ہجوم ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ (معارج النبوۃ:از:مولانا معین واعظ الکاشفی الہروی علیہ الرحمۃ، متوفی ۹۰۷ھ)
چنانچہ آقائے نامدارصلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کی تیاری شروع کی۔ اس موقع پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سینہ مبارک چاک کیا اور دل کو دھویا۔ مسلم شریف میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سینہ چاک کرنے کے بعد قلب ِ مبارک کوآبِ زم زم سے دھویا اور اس کوسینۂ مبارک میں واپس رکھ کر سینہ بند کردیا۔(مسلم شریف، جلد اوّل صفحہ: 92)۔علماء نے لکھا ہے کہ سینہ ٔاقدسؐ کے شق کئے جانے میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں، جن میں ایک حکمت یہ ہے کہ قلب ِ اطہر میں ایسی قوت ِ قدسیہ شامل ہوجائے ،جس سے آسمانوں پر تشریف لے جانے اور عالم سماوات کا مشاہدہ کرنے، بالخصوص دیدارِ الہٰی کرنے میں کوئی دِقت اور دشواری پیش نہ آئے۔ پھر آپ ﷺ کے سر انور پر عمامہ باندھا گیا۔ اس موقعہ پرحضرت جبرائیل علیہ السلام نے سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو نور کی ایک چادر پہنائی۔ زمرد کی نعلین مبارک پاؤں میں زیب تن فرمائی،اور یاقوت کا کمر بند باندھا۔(معارج النبوة، صفحہ: 601)
چند لمحوں کے بعد وہ وقت بھی آگیا کہ سرورِ کونین حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم براق پر تشریف فرما ہوگئے۔ اُس نے فخر و اِنبساط کا اظہار کیاکہ آج اسے سیاحِ لامکاں ﷺ کی سواری ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے رکاب تھام لی۔ حضرت میکائیل علیہ السلام نے لگام پکڑی۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے زین کو سنبھالا۔ براق کو اِس سعادتِ عظمیٰ پر وجد آ گیا۔ اس پر جبرئیلِ امین علیہ السلام نے اس سواری سے فرمایا :
’’رک جا! اللہ کی عزت کی قسم تجھ پر جو سوار بیٹھا ہے، آج تک تجھ پر ایسا سوار نہیں بیٹھا‘‘۔
معراج کے واقعہ کو قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان فرمایا ہے:’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے، جو رات کے تھوڑے سے حصے میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اِس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی، جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے، تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘(سورہ نمبر17بنی اسرائیل :آیت نمبر: 1)
معراج کا عظیم و بے مثال سفر
آیت کےپہلے ہی لفظ {سبحان} سے ثابت ہے کہ اِس واقعہ کی ذمہ داری اُس عظیم و برتر ذات پر ہے، جو ہر قسم کی کمزوری، نقص اور عیباوربندوں کے ہر اِعتراض سے پاک ہے اور بلاشرکت ِ غیرے اس بات پر قادر ہے کہ وہ معراج جیسا عظیم و بے مثال سفر کرا سکے۔اس میں اس طرف بھی اشارہ موجود ہے کہ یہ کوئی عام انسانی سفر نہیں،بلکہ ایک عظیم الشان واقعہ ہے ، کیوں کہ لفظ ’سبحان ‘ تعجب اور کسی عظیم الشان امر کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سفر روحانی نہیں، بلکہ جسمانی تھا۔اگر معراج کا سفر صرف روحانی بہ طورِ خواب ہوتا تو اس میں کون سی عجیب بات ہے؟خواب تو ہر کوئی مسلمان بلکہ کوئی بھی انسان دیکھ سکتا ہے کہ میں آسمان پر گیا اور فلاں فلاں کام کیے۔لفظ سُبْحَان سے آیتِ مقدسہ کا آغاز کرنے میں ایک حِکمت یہ بھی پوشیدہ ہے کہ معترض اور مُنکر واقعۂ معراج کو عقلِ ناقص کی کسوٹی پر پرکھنے کی حماقت نہ کریں۔ وہ ظاہر کی آنکھ سے نہیں قلب کی چشمِ بینا سے ربّ ُالعالمین کی قُدرتِ مُطلقہ کا مُشاہدہ کریں۔
لفظ{ اسریٰ}اِسراء سے مشتق ہے،جس کے لغوی معنی رات کو لے جانے کے ہیں۔اس کے بعد لیلاًکے لفظ سے صراحۃً بھی اس مفہوم کو واضح کر دیا اور لفظِ لیلاً نکرہ لانے سے اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ اس تمام واقعے میں پوری رات بھی صرف نہیں ہوئی ،بلکہ رات کا ایک حصہ صَرف ہواہے۔
لفظِ {بعبدہٖ} میں بھی معراج کے جسمانی ہونے کی طرف اشارہ ہے،کیوں کہ’ عبد‘ صرف روح نہیں بلکہ جسم وروح کے مجموعے کا نام ہے۔اس مقام و اکرام میں لفظ’بعبدہٖ‘ایک خاص محبوبیت کی طرف اشارہ ہے،کیوں کہ حق تعالیٰ کسی کو خود فرما دیں کہ یہ میرا بندہ ہے،اس سے بڑھ کر کسی بشر کا کوئی اعزاز نہیںہو سکتا۔بقول علامہ اقبالؒ ؎
عبد دیگر عبدِہ چیز ےدگر
ایں سراپا انتظار اُو منتظَر
یہاں ایک نقطہ یہ بھی ہے کہ کسی کو پیغمبر کی خدائی کا وہم نہ ہو جائے۔جیسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے سے عیسائیوں کو دھوکہ لگا ہے۔اس لیے لفظِ عبد کہہ کر یہ بتلا دیا کہ ان تمام صفات وکمالات اور معجزات کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے خاص بندے ہی ہیں،خدا نہیں۔
اب ذراسفرِمعراج کی تفصیلات میںجائیں۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاءؒ نے نبی ٔ آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کےاس مقدس مرحلہ وار سفر کے باب میں اپنی کتاب’’فوائد الفوائد‘‘میں تین اصطلاحات استعمال کی ہیں،جو یہ ہیں:(۱)اسراء:یعنی مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر(۲)معراج:یعنی بیت المقدس سے مرحلہ وار ساتوں آسمانوں اور سدرۃ المنتہیٰ کا سفر(۳)اعراج:یعنی سدرۃ المنتہیٰ سے مقام قاب قوسین تک عروج۔(فوائد الفوائد:جلد4صفحہ:350)
سرورِ کون و مکاں،سردارِ انس و جاںصلی اللہ علیہ وسلم نہایت شان و شوکت سے ملائکہ کے جلوس میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔یہ گھڑی کس قدر دلنواز تھی کہ جب مکاں سے لامکاں تک نور ہی نور پھیلا ہوا تھا، سواری بھی نور تو سوار بھی نور، باراتی بھی نور تو دولہا بھی نور، میزبان بھی نور تو مہمان بھی نور، نوریوں کی یہ نوری بارات فلک بوس پہاڑیوں، بے آب و گیاہ ریگستانوں، گھنے جنگلوں، چٹیل میدانوں، سرسبز و شاداب وادیوں، پرخطر ویرانوں پر سے سفر کرتی ہوئی وادی ٔبطحا میں پہنچی ،جہاں کھجور کے بیشمار درخت ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام عرض کرتے ہیں:’’یا رسول اللہﷺ!یہاں اُتر کر دو رکعت نفل ادا کیجئے، یہ آپؐ کی ہجرت گاہ مدینہ طیبہ ہے۔‘‘ پہلی منزل پرنفل کی ادائیگی کے بعد پھر سفر شروع ہوتا ہے۔ دوسری منزل طورِ سینا تھی، جہاں اللہ رب العالمین حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوئے تھے۔ اِس جگہ ایک سرخ ٹیلا آتا ہے، جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے۔ حضورنبی ٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ معراج کی رات میں سرخ ٹیلے سے گزرا تو میں نے دیکھا کہ وہاں موسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے اور وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں۔ تیسری منزل بیت اللحم تھی، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے چوتھی منزل آگئی ،یعنی بیت المقدس ،جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کے لئے موجود ہے۔ حوروغلماں خوش آمدید کہنے کے لئے اور تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء و مرسلین استقبال کے لئے بے چین و بے قرار کھڑے تھے۔ یہاں امام الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم اُس مقام پر تشریف فرماہوئے ،جسے بابِ محمد(ﷺ) کہا جاتا ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک پتھر کے پاس آئے، جو اُس جگہ موجود تھا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اس پتھر میں اپنی انگلی مار کر اِس میں سوراخ کردیا اور براق کو اس میں باندھ دیا۔(تفسير ابن کثير جلد3، ص7)
( مضمون جاری ہے،باقی جمعتہ المبارک کے شمارے میں )
رابطہ۔9906662404