یہ امر اطمینان بخش ہے کہ عدالت عالیہ نے روسی سفیدوں کے کاٹنے کے سلسلے میں اپنے سابقہ سارے احکامات کو التوا ء میں رکھتے ہوئے اس سلسلے میں ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دینے کی ہدایت دی ہے، جو حکومت کو اس حوالے سے رپورٹ پیش کرے گی تاہم ابھی بھی متعدد علاقوں سے مسلسل یہ اطلاعا ت موصول ہورہی ہیں کہ وہاں روسی سفیدوںکی بریدگی کا عمل جاری ہے اور بے تحاشا انداز میں ان درختوں کو کاٹاجا رہا ہے ۔جہاں اس کٹائو کی اس مہم پر فوری روک لگانے کی ضرورت ہے وہیں اس سلسلے میں دیرکر نے کی بھی گنجائش نہیںہے ۔عدالتی احکامات کی تعمیل میں حکومت کو پرنسپل چیف کنزرویٹر جنگلات کی سربراہی میں جو کمیٹی تشکیل دینی ہے ،وہ فوری طور قائم کی جانی چاہئے اور اس کمیٹی میں نہ صرف سوشل فاسٹری کے ماہرین کو شامل کیاجاناچاہئے بلکہ زرعی یونیورسٹی کے ماہرین اور وبائی زکام کے مقامی ماہرین کو بھی مشورے کیلئے رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ سبھی متعلقین کی ماہرانہ آراء سے استفادہ کر کے حکمت عملی مرتب کی جاسکے۔ اسکے علاوہ اگر ممکن ہوسکے تو اقتصادی ماہرین کی خدمات بھی مستعار لی جانی چاہئے تاکہ وہ اس مسئلہ کے اقتصادی پہلو پر اپنی رائے دے سکیں۔جیسا کہ پہلے ہی کہاجاچکا ہے کہ روسی سفیدوں سے نکلنے والے روئی کے گالے وقتی طور پولن الرجی کا سبب بن کر نظام تنفس کو متاثر کرتے ہیں تاہم یہ صرف مخصوص اوقات میںہی ہوتا ہے اور متعلقہ ماہرین سائنسی تحقیق کی بنیاد پر اسے قابو کرنے کیلئے اپنی رائے دے سکتے ہیں۔عدالت عالیہ کے فیصلہ میں جن رپورٹوں کا تذکرہ کیاگیا ہے ،وہ قومی سطح کے جریدوں میں شائع ہوچکی ہیں اور ان میں ماہرین کی رائے لیکر ہی کوئی رائے قائم کی گئی ہے ۔عدالت عالیہ کے فیصلہ میں یہ اشارہ بھی چونکا دینے والا ہے کہ پولن الرجی مادہ روسی سفیدوں سے نہیں بلکہ نرروسی سفیدوں سے ہوتی ہے، حالانکہ اب تک یہی سمجھا جارہا تھا کہ یہ صرف مادہ درختوں کا عمل ہے اگر واقعی ایسا ہے تو اس کے سبھی پہلووں کو جانچا جانا چاہئے ۔نیز اس امر پر بھی غور کیا جاسکتا ہے کہ کیا فی الوقت شاخ تراشی سے کام چل سکتا ہے کہ نہیں ۔ہم نے جمعرات کے اداریہ میں اس موضوع پر مدلل گفتگو کی تھی کہ سفیدوں کی اجتماعی بریدگی سے دیہی معیشت کے تباہ ہونے کا شدید اندیشہ ہے، لہٰذا اگر ماہرین کا اس بات پر اجماع ہوتا ہے کہ ان درختوں کا کٹائو ناگزیر ہے تو اس کیلئے بھی ایک میکانزم مرتب کیاجا نا چاہئے اور اس میں اُن تما عوامل کو ملحوظ نظر رکھا جا ناچاہئے جنہیں جمعرات کے اداریہ میں اجاگر کیاگیا تھا۔یہ بھی صحیح ہے کہ اس مسئلہ پر اب نتیجہ خیز کارروائی کا وقت آچکاہے کیونکہ ہر سال موسم بہار کے آتے ہی روسی سفیدوں سے نکلنے والے روئی کے گالوں سے ہونے والی پولن الرجی بحث کا موضوع بن جاتی ہے ۔اس لئے اگر اس دفعہ اس مسئلہ کے تدارک کیلئے ماہرین کی کمیٹی بنائی جاتی ہے تو اس مسئلہ کو ایک ہی دفعہ ہمیشہ کیلئے حل کیاجانا چاہئے اور ماہرین کی سفارشات کی روشنی میں جو بھی کارروائی لازم بن جاتی ہے ،وہ کی جانی چاہئے تاکہ یہ مسئلہ ہر سال بحث کا موضوع نہ بنے ۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ آج اگر یہ مسئلہ ٹل گیا اور کورونا وائرس کی وباء ختم ہوئی تو کل اس بات پر کوئی بات نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی کو پتہ چلے گا کہ کمیٹی نے اپنی سفارشات میں کیالکھا تھا۔ماضی کا تجربہ یہی رہا ہے کہ ایسے مسائل پھر داخل دفتر ہی ہوجاتے ہیں۔عدالت خود کہتی ہے کہ ماضی میں اس حوالے سے احکامات جاری ہوئے ہیں لیکن ان کی عمل آوری نہیں ہوپائی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انتظامیہ نے عدالتی احکامات کی تعمیل نہیں کی ہے ۔اب اگر انتظامیہ عدالتی احکامات کی تعمیل سے عاری رہی ہے اس کے لئے انتظامیہ کو جوابدہ بنایا جائے۔فی الوقت اس حوالے سے سارے عدالتی احکامات پر عملدرآمد کو اب خود ہی عدلیہ نے روک دیا ہے تو عدلیہ کو ہی اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اب جس کمیٹی کے قیام کی ہدایت کی گئی ہے ،وہ کمیٹی بلا تاخیر عملی شکل لے اور اپنا کام شروع کرے ۔نیز عدلیہ کو اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ کمیٹی کی رپورٹ کم سے کم مدت میں تیار ہو اور اس رپورٹ کی روشنی میں جو اقدامات کرنا ناگزیر ہونگے، وہ بلاتاخیر کئے جاسکیں تاکہ پولن الرجی کے خطرات کے ساتھ ساتھ عوام الناس کی معشیت پر منفی اثرات سے محفوظ رہا جاسکے۔