فکروفہم
راقِف مخدومی
معاف کرنا اور بھولنا دنیا کی سب سے خوبصورت چیز ہے۔ یہ دونوں چیزیں لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب رکھتی ہیں۔ جتنا ہم لوگوں کو معاف کرتے ہیں، اتنی ہی دیر تک وہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور جتنا ہم بھولتے ہیں، اتنی ہی طاقتور اور مضبوط تعلقات قائم ہو سکتی ہیں۔ معاف کرنا اور بھولنا دونوں طرف سے ہونا ضروری ہے۔ اگر ایک شخص معاف کرے اور دوسرا نہ کرے تو یہ تعلقات کامیاب نہیں ہو سکتے اور ایک طرفہ کوششوں سے آخرکار کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوتا۔ معاف کرنے کا سادہ مفہوم جو ہم سب جانتے ہیں وہ ہے ’’کسی کی غلطی یا کسی کے گناہ کو دل سے معاف کرنا اور بیزار نہ رہنا‘‘ جبکہ بھولنے کا سادہ مفہوم ہے ’’جو کچھ ہوا ہو اسے اُسے یاد نہ کرنا یعنی جیسا پہلے تھا ویسا ہی رہنا‘‘۔ لیکن اگر ہم گوگل کی تعریف کے مطابق معافی اور بھولنے کا مطلب دیکھیں تو معاف کرنے کا مطلب ہے ’’معاف کرنے کے لیے تیار اور خواہش مند ہونا‘‘ اور بھولنے کا مطلب ہے ’’جان بوجھ کر کسی چیز کے بارے میں سوچنا چھوڑ دینا۔‘‘ آج کل معافی اور بھولنا ایک ایسا موضوع بن گیا ہے جسے غیر معمولی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ ایسا نہیں ہے اور ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ معاف کرنا اور بھولنا وہ چیز ہے جو وقت کے ساتھ لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑے رکھنے کا سبب بنی ہے۔ دوستی اور دیگر تمام تعلقات کا بنیادی اصول معاف کرنا اور بھولنا ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتے اور دل میں بغض رکھتے ہیں تو ہم اپنے رشتوں ، دوستیوں اور تعلقات کو آگے نہیں بڑھا سکتے ہیں۔ مضبوط اور دیرپا تعلقات کا راز صرف معاف کرنے اور بھولنے میں ہے، ورنہ یہ تعلقات ہمارے سوچنے سے قبل ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی پر نظر ڈالیں گے تو ہمیں بہت سے ایسے واقعات ملیں گے جہاں آپ ؐنے لوگوں کو معاف کیا، یہاں تک کہ انتہائی سخت ترین مواقع پر بھی۔خصوصاً فتح مکہ کے موقع پر ، جب لوگ بخوبی جانتے تھے کہ اُن کے کئے ہوئے مظالم اورکالی کرتوتوں کا اُن سے انتقام لیا جائے گا، تو پیارے نبی ؐ نے اعلان کیا: ’’جو لوگ میرے سامنے ہیں، ان سب کو معاف کر دیا گیا ہے،کسی سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا اور نہ کوئی انتقامی کاروائی کی جائے گی۔‘‘ جب مکہ کے لوگوں نے آپؐ کے اس رویے کو دیکھا تو وہ حیران رہ گئے کہ وہ شخص اُنہیںکس طرح معاف کر سکتا ہے جو ہمیشہ ان کے ذریعے ستایا گیا ہےاور اُن کے ظلم وستم کا شکار رہا ہے۔حالانکہ پیارے نبی ؐ کے لیے انتقام لینا قانونی حق تھا لیکن فتح مکہ کے بعد آپ ؐ کے اس رویے سے یہ بات واضح ہو گئی کہ آپ رحمت العالمین ؐ لقب کے وارث ہیں۔اسی طرح بہت سارے واقعات تاریخ اسلام میں درج ہیں ،جہاں مسلم بادشاہوں ،کمان داروں اور مجاہدوں نے اسلام مخالفوں یا اپنے سخت سے سخت دشمنوں کو معاف کیا ہے۔دراصل حقیقت یہی ہے کہ اللہ کی رحمت ہمیں اُس وقت ملے گی جب ہم لوگوں پر رحم کریں گے۔ قرا ٓن مجید میںاللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، خوشی اور پریشانی کی حالت میں اور غصے کو روکتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں اور اللہ اچھے کام کرتے ہیں،اللہ اُنہیں پسند کرتا ہے۔‘‘ بے شک ہمیں قرآن واحادیث میںایسی بے شمار مثالیں، احکام اور واقعات ملیں گے، جو ہمیں بتاتے ہیں کہ معاف کرنا کتنی اہم بات ہے اور اس کے فوائد کیا ہیں۔ظاہر ہے کہ جب ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن لوگوں کو معاف کیا ،جنہوں نے آپ ؐ پر بے پناہ ظلم ڈھائے،جنہوں نے آپؐ پر پتھر پھینک کر آپؐ کو لہولہان کریا تھا،آپؐ کےچچا جان کو شہید کردیا تھا ،تو ہم اُن لوگوں کو معاف کیوں نہیں کرتے؟ جو کبھی ہمارے اقارب ہوتے ہیں،ہمارے رشتہ دار ہیں۔یا جن کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیںیا جنہیں ہم کسی بات پر ،کسی ناراضگی پر ،کسی غلطی پر غلط سمجھ بیٹھے ہیں؟ آج کل کے دور میں جب ہم کسی کو تکلیف دیتے ہیں تو معافی مانگنا ہمارے لئےکیوںانتہائی مشکل ہو جاتا ہے؟ وجہ بالکل صاف ہے کہ ہمارے اندر غرور اور تکبر آ گیا ہے،ہم اَنّا کے پجاری بن گئے ہیں۔جس کی آڑ میں ہم گناہ پر گناہ کربیٹھتے ہیںاور غلط فہمیوں کے باعث ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہیں۔جبکہ ہم یہ بات بالکل بھول جاتے
ہیںکہ اللہ اُنہی لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اپنی غلطیوں پرتوبہ کرتے ہیںوالے ہیں دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرتے ہیں۔‘‘بے شک اللہ ان لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے جو جہالت کی حالت میںبُرائی کرتے ہیں اور پھر جلد ہی توبہ کرتے ہیں، تو اللہ ان کی طرف اپنی رحمت متوجہ کرتا ہے۔‘‘اد رکھیں، یہ ہم ہیں جو اللہ کی رحمت میں تاخیر کر رہے ہیں، اللہ تو تیار ہے کہ اپنی رحمت ہم پر نازل کرے، بس ہمیں اُسے طلب کرنا ہے۔
[email protected]>