مختار احمد قریشی
موجودہ دور برداشت کا مادہ کم ہوتا جا رہا ہے اور بدلہ لینے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ غُصّہ، اَنّا اور خود پسندی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ کسی بھی معمولی بات پر ردعمل دینے سے انسان گریز نہیں کرتا۔جبکہ بڑائی معاف کر دینے میں ہے، بدلہ لینے میں نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اوربُرائی کا بدلہ اُسی جیسی بُرائی ہے، لیکن جس نے معاف کیا اور صلح کر لی تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘(الشورٰی: 40)یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اگرچہ بدلہ لینا جائز ہے، لیکن معاف کر دینا افضل اور بہتر ہے۔نبی کریمؐ کی حیاتِ طیبہ اس خوبی کی سب سے روشن مثال ہے۔ جب آپ ؐ مکہ فتح کرتے ہیںتو وہی لوگ جو اُن پر ظلم کرتے رہے، طعنہ زنی کرتے رہے، یہاں تک کہ وطن چھوڑنے پر مجبور کیا، اُن کے سامنے سر جھکائے کھڑے ہیں۔ وہ چاہتے تو بدلہ لے سکتے تھے، لیکن اُنہوں نے فرمایا: ’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘ یہ الفاظ تاریخ کے سینے پر رحم و درگزر کی روشن مثال بن کر ثبت ہو چکے ہیں۔ بدلہ لینے سے وقتی تسکین ضرور ملتی ہے، لیکن وہ روحانی سکون اور اطمینان حاصل نہیں ہوتا جو معافی دینے سے ملتا ہے۔
انسانی فطرت میں انتقام لینے کا عنصر موجود ہوتا ہے۔ جب کوئی ہمیں تکلیف دیتا ہے تو ہمیں فطری طور پر بدلہ لینے کا خیال آتا ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے اندر ضبط اور حلم پیدا کریں تو ہم نہ صرف ایک عظیم انسان بن سکتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بھی۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں: ’’تم میں سے سب سے زیادہ بہادر وہ ہے جو غصّے کے وقت اپنے نفس پر قابو پا لے۔‘‘ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ معاف کرنا ہی بہادری ہے۔
معاشرتی سطح پر معاف کرنا بہت سے بگاڑ سے بچاتا ہے۔ خاندانوں میں اختلاف، رشتوں میں دراڑ، دوستیوں کا ٹوٹ جانا، یہ سب اسی وجہ سے ہوتے ہیں کہ ہم معاف کرنے کی عادت کو ترک کر چکے ہیں۔معاف کرنا نہ صرف ایک دینی حکم ہے بلکہ نفسیاتی اعتبار سے بھی مفید ہے۔ جو لوگ دوسروں کو معاف کرتے ہیں، ان کے اندر ذہنی سکون، اطمینان اور مثبت جذبات زیادہ ہوتے ہیںاور وہ کم ذہنی دباؤ کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس بدلہ لینے کی خواہش انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔آج جب ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ بدلہ لینے کا رواج بڑھتا جا رہا ہے۔ سوشل میڈیا، فلمیں، ڈرامے سب میں یہی دکھایا جا رہا ہے کہ بدلہ لینا طاقت کی علامت ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس لئےہمیں اپنے بچوں کو بھی معاف کرنے کی تربیت دینی چاہیے۔ اگر وہ بچپن سے ہی درگزر کا سبق سیکھیں گے تو بڑے ہو کر ایک بہتر انسان بنیں گے۔ بدلہ لینے کی سوچ نسلوں کو تباہ کر سکتی ہے، جبکہ معافی نسلوں کو جوڑ سکتی ہے۔ معاف کرنا دل کو کشادہ کرتا ہے، روح کو بلندی عطا کرتا ہے اور انسان کو اللہ کے قریب لاتا ہےاور اللہ تعالیٰ اُسے دنیا و آخرت میں عزت عطا فرماتا ہے۔معاف کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم ظلم کو برداشت کریں یا ظالم کو بے لگام چھوڑ دیں۔ اسلام انصاف کا علمبردار ہے، لیکن جب معاف کرنے کا موقع ہو تو معاف کرنا افضل قرار دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ انسان کو خود کرنا ہوتا ہے کہ کب بدلہ لینا ہے اور کب درگزر کرنا ہے۔بہتر یہ ہے کہ ہم دلوں کو جوڑنے والے بنیں، دل توڑنے والے نہیں۔ زبان سے نکلے ہوئے معافی کے الفاظ بعض اوقات وہ کام کر جاتے ہیں جو سالوں کی گفت و شنید سے بھی ممکن نہیں ہوتے۔
اسلام کی روح دراصل محبت، نرمی، معافی اور حلم میں پوشیدہ ہے۔ حضرت یوسف ؑ کی زندگی اس کا ایک عظیم نمونہ ہے۔ اُن کے بھائیوں نے اُن کے ساتھ جو ظلم کیا، اُسے فراموش کرنا ممکن نہیں تھا، لیکن جب وہ طاقت میں آئے تو بدلہ نہیں لیا بلکہ فرمایا: ’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (سورہ یوسف: 92)۔آج کے اس بے چین معاشرے میں معاف کرنا ایک انقلابی عمل بن چکا ہے۔ آپ کسی کو معاف کرتے ہیں تو دراصل آپ اس دائرہِ نفرت سے باہر آتے ہیں، جہاں صرف زہر، تکلیف اور تلخ یادیں بسیرا کرتی ہیں۔ معاف کرنا دراصل خود کو آزاد کرنا ہے۔ یہ معافی صرف دوسروں کے لیے نہیں بلکہ اپنے نفس کی سلامتی کے لیے بھی ضروری ہے۔اگر ہم معاف کرنا نہ سیکھیں، تو رشتے ختم ہوتے چلے جائیں گے، اور انسان تنہا رہ جائے گا۔آج ہمیں اگر معاشرے میں امن چاہیے، رشتوں میں محبت چاہیے اور دلوں میں سکون چاہیے تو ہمیں لازماًمعاف کرنا سیکھنا ہوگا۔
(مضمون نگار پیشہ سے اُستاد ہیںاوربونیار بارہمولہ سے تعلق رکھتے ہیں)
رابطہ۔8082403001