سید لاریب عنایت
موت کے بعد کیا ہوگا؟ موت کا فرشتہ آتے ہوئے انسان کی کیا کیفیت ہوتی ہوگی؟کیا انسان موت کے فرشتے کو دیکھ کر اس سوچ میں پڑتا ہوگا کہ ابھی دنیا کا فلاں فلاں کام کرنا باقی رہ گیا ہے؟کیا وہ یہ سوچتا ہوگا کہ ابھی میری وہ خواہش ادھوری رہ گئی ہے؟کیا وہ یہ سوچتا ہوگا کہ ابھی اس شخص نے کیا وعدہ پورا نہیں کیا؟کیا وہ اس سوچ میں کھو جاتا ہوگا کہ یار ابھی تو فلاں شخص نے معافی بھی نہیں مانگی؟کیا یہ تصور اس کی آنکھوں کو نم کرتا ہوگا کہ اب وہ اپنے عزیزوں کو ، اپنے دل کے قریب لوگوں کو ہمیشہ چھوڑنے والا ہے؟
یہ سوالات ایک معصوم بچے کے دل میں آتے ہیں ۔جب وہ اپنے عزیز دادا جان کی قبر پر پہلی بار جاتا ہے۔یہ سوالات پورے راستے میں اسے خاموش کرنے پر مجبورکرتے ہیں ،باپ کے یہ پوچھنے پر کہ’’ بیٹا بتائو کیا کھائو گے‘‘وہ جھوٹی مسکان چہرے پر سجا کرکہنے لگتا ہے ’’کچھ نہیں بابا‘‘۔گھر پہنچ کر ادھر ادھر کھیلنے لگتا ہے مگر یہ خیالات اس کے ذہن سے نہیں نکلتے۔اسی دوران اپنی ماں کی اور جاتا ہے اور یہ سارے سوالات پوچھنے لگتا ہے کچھ سوالات کے جوابات ماں اسے دے دیتی ہے مگر بہت کچھ کہہ نہیں پاتی کیونکہ ایک معصوم بچے کو سمجھانا آسان نہیں تھا۔بہت سال گزر جاتے ہیں ،یہ معصوم بچہ اب ایک قدآور ،مضبوط اور خوبصورت آدمی کی شکل میں تبدیل ہو گیا ہوتا ہے جو دس سال ملک سے باہر رہ کر گھر لوٹتا ہے۔کچھ دن بعد باپ کے ساتھ مقبرے پر جاتا ہے تو اچانک سے وہ سوالات پھر اس کے ذہن میں آتے ہیں۔مگر اس بار وہ ایک معصوم بچہ نہیں بلکہ ایک عقلمند آدمی ہے اور ان سوالات کے جوابات دینے کے اہل ہو چکا ہے۔اُدھر اس قبر کے پاس بیٹھتا ہے تو ایک ہی بات دماغ میں آنے لگتی ہے وہ یہ کہ انسان کو اس وقت شاید ہی دنیا سے جڑی ہوئی کوئی بھی چیز یاد رہتی ہوگی، تب کی کیفیت کیسی ہوگی وہ انسان کے اعمال پر منحصر ہوتا ہوگا۔ہاں انسان سوچ میں پڑتا ہوگا مگر اس سوچ میں نہیں کہ فلاں فلاں کام باقی رہ گیا بلکہ اس سوچ میں کہ فلاں فلاں نیکی باقی رہ گئی۔ یہ بات اسے ستاتی نہیں ہوگی کہ اس شخص نے وعدہ پورا نہیں کیا بلکہ یہ بات ستاتی ہوگی کہ میں نے بھی کوشش نہیں کی ۔اسے یہ بات رونے پر مجبور کرتی ہوگی کہ ابھی تو میں نے فلاں سے معافی بھی نہیں مانگی کیونکہ بندہ ناراض ہو تو اللہ بھی ناراض ہوتا ہے۔جب تک بندہ معاف نہیں کرتا اللہ بھی معاف نہیں کرتا ۔اور پھر رہی بات اس کے عزیزوں کی تو تب بھی وہ یہی سوچتا ہوگا کہ کیا ان کے حقوق کو میں نے پورا کیا؟ کسی کا دل تو نہیں دکھایا؟اسی سوچ میں ملوس وہ ادھر ادھر دیکھتا ہے تو اس کا باپ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہے کہ’’ غلطی انسان سے ہو جاتی ہے مگرانسان کو چاہیے کہ اپنی غلطیوں کی معافی مانگے ،کوشش کرے کہ کسی کا دل نہ دکھائے کیونکہ دلوں سے انسان اللہ کی عبادت کرتا ہے۔اس لئے چاہیے کہ لوگوں کو بھی اتنا ہی جلدی معاف کرے جتنی جلدی وہ اللہ سے معافی کی توقع رکھتے ہیں‘‘۔یہ سن کر اُس کا چہرہ کھل اٹھتاہے وہ دونوں وہاں سے نکلتے ہیں اور وہ راستے میں وہ یہ سوچتا ہے کہ اب آگے کی زندگی اِس طرح گزاروں گا کہ موت آئے تو اپنی غلطیوںپر پچھتانا نہ پڑے بلکہ نیکیوں کی وجہ سے دائمی مسرت حاصل ہو۔
رتنی پورہ،پلوامہ، کشمیر