Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

معاشی نابرابری جمہوریت کے لئے سمِ قاتل !| جمہوری نظامِ حکومت چلاناآسان کام نہیں اظہار خیال

Towseef
Last updated: October 18, 2024 9:04 pm
Towseef
Share
11 Min Read
SHARE

سید مصطفیٰ احمد

دیر آید درست آید کے مصداق اب نیشنل کانفرنس اور کانگریس اتحاد نے جموں و کشمیر میں اپنے فرائض انجام دینے شروع کئے ہیں۔ یہ ہمارے لیے مسرت کی بات ہے۔ یہاں پر ایک بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں کسی سیاسی پارٹی کا نمائندہ ہوکر بات نہیں کر رہا ہوں۔ایک آزاد قلمکار ہونے کی شکل میں اپنی دل کی باتوں کو قلم کے ذریعے گنے چنے لوگوں تک پہنچانے کی ہمیشہ کوشش کرتا ہوں۔ موجودہ دنیا میں سیاسی نظاموں کی بہتات ہیں۔ ہر نکڑ پر ایک نیا سیاسی فلسفہ ہمارا استقبال کرتا ہے لیکن جتنے بھی نظام آج کی دنیا میں موجود ہیں، ان میں سے آمریت اور جمہوریت کا بول بالا ہیں۔ دسویں کلاس کی Political Science نصابی کتاب میں آمریت اور جمہوریت کا موازنہ کیا گیا ہے۔ کئی معاملات میں آمریت پر سکون زندگی گزارنے کی سند ہیں لیکن زندگی کے دیگر معاملات میں جمہوریت کا پلڑا بھاری ہے۔ جمہوریت کا سب سے بڑا نقصان معاشی نابرابری ہے۔ دولت کا کچھ ہاتھوں میں مرکوز ہونا جمہوریت کا سب سے بڑا نقصان ہے۔ آمریت میں اظہار رائے پر قدغن ہے۔ کھل کر اظہار کرنا آمریت کے منافی ہے۔ بے روزگاری دونوں قسم کے سیاسی نظاموں کے لئے دردِسر ہے۔ ان ہی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے مضمون کا عنوان بھی مختص کیا گیا ہے۔ نئی جمہوری حکومت کا چھ سال کے بعد وجود میں پھر سے آنا ایک خوش آئند بات ہے لیکن جیسے کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ جمہوریت کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ ہَوا میں گھمانے سے ساری مصیبتوں کا ازالہ ہوجائے۔ جموں و کشمیر باقی مرکز کے تحت یونین ٹریٹریز سے ہر رنگ سے مختلف ہے۔ یہاں نظام حکومت چلانا آہنی چنے چبانے کے مترادف ہے۔ یہ nuclear flashpoint ہونے کے علاوہ geo-strategic اور geo-economic حیثیت کو بھی اندر سموئے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کرنے والی حکومت کے لئے مشکلات کا دروازہ اور زیادہ کھل گیا ہے۔ سارے مسائل کا حل ڈھونڈنا کوئی ہنسی مذاق کی بات نہیں ہے۔ اس کے لئے دوراندیشی، صبر، جذبات کی پختگی، لوگوں کی مشکلات کا ہر وقت آنکھوں کے سامنے رکھنا،وغیرہ جیسی باتیں مدنظر رکھنا ضروری ہیں۔سب مسائل میں جو مسئلہ پورے سماج کی ناؤ کو بھنور میں ہمیشہ کے لئے پھنسا سکتا ہے ،وہ ہے نوجوانوں کا بیروزگار ہونا۔ یہ ایک کانٹا ہے جو خوبصورت پھول پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے اچانک اس ہاتھ میں چھبتا ہے جو اس پھول کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوگیا تھا۔ اسی زہریلے کانٹے کو میں نئی سرکار کے سامنے رکھنے کی کوشش کروں گا۔ مجھے امید ہے کہ اس کام کو میں پایہ تکمیل تک پہنچانے میں ضرور کامیاب ہوجاؤں گا۔

یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ نوجوانوں کسی بھی سماج کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ان کی ترقی، قوم کی ترقی ہے لیکن ان کا بگاڑ سماج کی ناؤ کو طوفانوں کے حوالے کرسکتا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کے اندر بھی کچھ حاصل کرنے کا جذبہ ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ محنت اور لگن کے بغیر کبھی بھی کامیابی کسی بھی انسان کے دروازے پر دستک نہیں دے سکتی ہے۔ اس کے لئے کاٹ کے سخت مراحل سے گزرنا نہایت ضروری ہیں۔ میں خود بھی نوجوانوں کے جوش و جذبے سے واقف ہوں۔ وہ کرنا تو چاہتے ہیں لیکن ان کے راستوں میں رکاوٹوں کے پہاڑ کھڑے ہیں، جو ان کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ ان رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ سرکاری نوکریوں کا غائب ہوجانا ہے۔ ہر سال سرکاری نوکریاں جیسے ختم ہوتی جارہی ہیں۔ اس کے برعکس پڑھے لکھے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ The Indian Express کے مختلف مضامین جو نوجوانوں کے روزگار اور ان کی قابلیت کے حوالے سے لکھے گئے تھے، یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ ہر سال گریجویشن کی ایک لمبی فوج مارکیٹ میں جوش و خروش کے ساتھ اپنے آمد کا بغل بجاتے ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہے۔ وہ موجودہ زمانے کی ضروریات سے خالی ہیں۔ ایک طرف گھٹتی ہوئی نوکریاں اور دوسری طرف labour-intensive کی جگہ capital-intensive کے دبدبے کا عام ہوجانا ،نوجوانوں کی زندگیوں میں قہر برپا کررہے ہیں۔ یہی حالت کشمیری نوجوانوں کی ہیں۔ ان حالات میں سرکار کو اس معاملے کی طرف بھرپور دھیان دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی نجی سیکٹر کا معاملہ بھی جڑا ہے۔ کچھ دن پہلے معاشی مسائل پر ایک مضمون نظروں سے گزرا۔ اس مضمون میں ہندوستان کے anomalous economic nature کی بات کی گئی تھی۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہاں گیا تھا کہ ہر کوئی معیشت زراعت کے شعبے سے ہوتے ہوئے manufacturing یا secondary sector کے شعبے سے گزر گر tertiary،quaternary اور دیگر شعبوں میں داخل ہوجاتی ہے۔ اس مضمون کا موازنہ میں نے Yojana اور اسی جیسے دوسرے جریدوں کے ساتھ کیا تو عقل دھنک رہ گئی۔ کہنے کا مطلب ہے کہ آج تک ہم سب کو یہ بات ذہین نشین کرائی گئی ہے کہ ہندوستان کی معیشت زراعت کے شعبے سے نکل کر سیدھے tertiary sector کے دور سے گزر گئی ہے۔ یعنی manufacturing sector کے ضروری دور سے گزرنے کے بغیر سیدھے tertiary sector کے شعبے میں پہنچ گئی ہے۔ اس کے برعکس جس مضمون کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے، اس میں اس بات کی تردید کئی گئی ہے کہ ہندوستان نے سیکنڈری سیکٹر کو نظرانداز کرکے یا پھر اس کی ضرورت کو نظرانداز کرکے معیشت کے تیسرے شعبے میں چھلانگ ماردی۔ اس تضاد کا ہم بھی شکار ہے۔ آج self-employed اور daily wagers کو لیجیے۔ ان کی تعداد معیشت میں سب سے زیادہ ہیں۔ اس کو ہم informal Economy کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ وہ معیشت جس میں روزگار کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ہے۔ کشمیری نوجوانوں سے اگر ہم پوچھے کہ manufacturing یا secondary sector کیا ہوتا ہے، تو بیشتر نوجوان جواب دینے سے قاصر ہوںگے۔ اس کی وجہ ہندوستان سے لے کر جموں و کشمیرتک میں اس شعبے کا دن بہ دن پست ہوجانا ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں اس شعبے کا پچیس سے زیادہ حصہ سرکاری خزانے کو جاتا ہے، لیکن ہمارے یہاں پندرہ سے لے کر اٹھارہ فیصدی کا حصہ سرکاری خزانے کو جاتا ہے۔ پچھتر سال گزرنے کے باوجود جب قومی خزانے میں secondary sector کا رول کم ہوتا جارہا ہے، تو ریاستی سطح پر اس کا حال کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہوسکتا ہے۔ مزید برآں سرکاری نوکریوں میں دھاندلیاں بھی نوجوانوں کی امنگوں پر پانی پھیرتے ہیں۔ NEET سے لے کر NET, لگ بھگ سارے امتحانات میں دھوکہ دہی کا عنصر سب سے زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ جموں و کشمیر میں سرکاری نوکریوں کے لئے جانے والے امتحانات کبھی بھی اپنے وقت پر پورے نہیں ہوتے ہیں۔ پہلے پرچے لیک اور آخر پر فرضی اسناد کی وجہ سے قابل اور لائق طلباء کی امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ UPSC بھی پاک نہیں رہا۔ فرضی اسناد کے بل بوتے پر کتنے civil servants شیخی بگاڑ رہے ہیں، کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اب جب ایسے حالات ہوں تو نوجوانوں کی فکر کرنے کے ساتھ ساتھ ہوشیاری کتنی ضروری ہے۔

امید ہے کہ نئی حکومت نوجوانوں کے لئے کچھ ایسے اقدامات اٹھائی گی جس سے وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔ سماجی اور گھریلو اُمیدوں نے ان کی زندگیوں میں طرح طرح کی مصیبتوں کو جنم دیا ہے۔ منشیات سے لے کر جنسی آوارہ گردگی میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں سر کے بل ڈوبتے جارہے ہیں۔ وقت کاٹنے کے خاطر کرکٹ سے لے کر آن لائن گیمز میں آج کے بیشتر نوجوان اپنا قیمتی وقت ضائع کررہے ہیں۔ ایک جامع پالیسی کو ترتیب دیا جانا چاہیے جس سے نوجوانوں کی زندگیوں میں سکون کے لمحات میسر ہوں۔ ان کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے بھی صلح مشورہ کرکے آگے کی پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔ مرہم اور سوجھ بوجھ کے ساتھ بگڑے ہوئے کام بھی بنائے جاسکتے ہیں۔ خوف کے عالم سے بھی نجات دلانے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے۔ بےجا زیادتیوں سے بھی پرہیز کیا جانا چاہیے۔ پہلی جماعت سے لے کر یونیورسٹی سطح تک تعلیم کو مفت کرنے کے وعدے پر عمل کرنا نہایت ضروری ہوگیا ہے۔ JKAS,JKPS اور دوسرے امتحانات کی فیس بھی بہت زیادہ ہے۔ اس سال جموں و کشمیر ایڈمنسٹریٹو سروس کا فیس بارہ سو روپے رکھا گیا ہے۔ اتنی مہنگی فیس ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ ہم CGL اور Indian Railways کا امتحان اس لیے آرام سے دے پاتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعے لیے جانے والے امتحانات کا فیس سو روپے ہوتا ہے۔ آخر پر یہی امید رکھتا ہوں کہ نوجوانوں کی دادرسی کی جائے گی اور یہی وقت کی ضرورت بھی ہے۔
(رابطہ: حاجی باغ، بڈگام ۔7006031540)
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
ریاستی درجے کی بحالی کا مناسب وقت آگیا ہے: تنویر صادق
تازہ ترین
کپواڑہ میں آتشزدگی، دو منزلہ مکان خاکستر
تازہ ترین
ضلع میں ورثے کے تمام مقامات کی تاریخی شان کو بحال کیا جائے گا: ضلع مجسٹریٹ سری نگر
تازہ ترین
کرائم برانچ کشمیر کی جانب سے سرینگر اور بڈگام کے مختلف مقامات پر چھاپے
تازہ ترین

Related

کالممضامین

رسوم کی زنجیروں میں جکڑا نکاح | شادی کو نمائش سے نکال کر عبادت بنائیں پُکار

July 16, 2025
کالممضامین

! عالمی حدت اور ہماری غفلت | ہوا، زمین اور پانی کو ہم نے زہر بنا دیا گلوبل وارمنگ

July 16, 2025
کالممضامین

والدین کی قربانیوں کی کوئی انتہا نہیں

July 16, 2025
کالممضامین

اپنے مستقبل سے جوا بازی کی بھیانک صورتحال | معاشرے کی نوجوان نسل کس سمت جارہی ہے؟ توجہ طلب

July 16, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?