Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

معاشرے کے بیمار لوگوںکے لئے علاج کی اشد ضرورت ذہنی مریضوں سےغیر اخلاقی، غیر دینی ا ورغیر انسانی حرکات و کلمات کا ارتکاب عجب نہیں!

Towseef
Last updated: February 9, 2025 11:01 pm
Towseef
Share
14 Min Read
SHARE

معراج زرگر

صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدینہ شریف میں ایک دفعہ ایک ذ ہنی طور کمزور عورت ملنے آئیں اور ان سے کہا کہ مجھے آپ سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔ آپ ؐ نے نہایت شفقت کے ساتھ فرمایا کہ آپ جہاں چاہو مجھ سے بات کرسکتی ہو اور میں تم سے تمہاری بات سننے کو تیار ہوں۔ روایت میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کے ساتھ گئے اور ان کی پوری بات توجہ اور محبت سے سنتے رہے، یہاں تک کہ اس عورت نے خود ہی بات مختصر کی۔ صحیح مسلم اور سنن ابو داود کی ایک روایت میں بھی ہے کہ ایک پاگل شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا اور اس نے رسول اللہؐ سے دعا کی درخواست کی تو رسول اللہؐ نے ان کے لئے دعا کی اور ان کے ساتھ بہترین سلوک کیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیر ؒ کے زمانے میں ایک بار کسی مجذوب یا پاگل شخص کو لوگوں نے بُرا بھلا کہا۔ اس پر ایک بزرگ نے فرمایا کہ ’’اگر تم نبی کریمؐ کے زمانے میں ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ کس قدر نرمی برتتے تھے۔‘‘

تو معلوم ہوا کہ سیرت نبی کریم ؐ اور طریقہ نبی کریم ؐ فطرت اور انسا نی قدروں کی اعلی منہج ہے۔ اس منہج اور طریقہ کے مقابل کوئی بھی دوسری منہج یا طریقہ ایمان والوں کے لئے نہ ہی قابل قبول ہے اور نہ ہی اس سے بڑھ کر کوئی اعلی قدروں والا انسانی اقدار کا خاکہ کہیں سے میسر آسکتا ہے۔ اور جو بھی شخص نبی کریمؐ کے اس طریقے اور اس سنت سے انحراف کرے گا یا اس کے مقابل کوئی علمی یا عقلی دلیل سامنے لائے گا، تو وہ رد دلیل ہوگی اور قریب ہے کہ اس شخص کے نبی کریمؐ پرایمان پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔

اب آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ ذہنی اختلال یا ذہنی خلل، جسے انگریزی میں ’’شیزوفرینیا‘‘کہتے ہیں، ایک شدید ذہنی بیماری ہے، جس میں مبتلا شخص حقیقت سے دور ہوتا ہے اور عام انسانوں کے مقابلے میں عجیب و غریب اور غیر معمولی خیالات، احساسات اور جذبات کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس قسم کا شخص عجیب و غریب حرکات کرسکتا ہے اور عجیب و غریب باتیں وغیرہ بھی کر سکتا ہے۔ ایسا مریض دو صورت حالات میں مبتلا ہوتا ہے۔ ایک غیر موجود آوازیں سننا یا غیر موجود چیزیں دیکھنا جسے ’’ہیلوسینیشن‘‘ اور دوسرا ایسے وہم یا آوازوں کو محسوس کرنا جو حقیقت میں موجود نہیں ہوتی ہیں۔ اسے انگریزی میں ’’ڈیلوژین‘‘ کہتے ہیں۔ مجموعی طور ایسا شخص اُلجھا ہوا اور بے ترتیب خیالات اور احساسات کا حامل شخص ہوتا ہے۔

ایسے شخص سے کوئی بھی غیر اخلاقی، غیر دینی، غیر انسانی حرکت یا اناف شناف سو فیصد متصور ہے اور ایسا شخص کسی بھی وقت ہیجان میں مبتلا ہوکر دشنام، گالی گلوچ یا بے ترتیب کلام کر سکتا ہے، جس میں کسی بھی شخص، کسی بھی کمیونٹی یا کسی بھی دین دھرم یا کسی بھی دین دھرم کی شخصیت کے متعلق کچھ بھی عجیب و غریب کہہ سکتا ہے۔ یہاں تک کہ ایسا ذہنی مریض خدا اور خدا کی بر گزیدہ ہستیوں کے متعلق بھی دشنام یا گستاخی کر سکتا ہے۔ یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا شخص کبھی کبھی اچھی اچھی اور بڑی بڑی معنی خیز باتیں بھی کر سکتا ہے۔ جن کو سننے والا ایسے ذہنی مریض کے متعلق کسی واہمے یا دھوکے میں مبتلا ہو سکتا ہے۔

ایسے ذہنی مریضوں کو اچھے علاج سے کسی حد تک ٹھیک کیا جا سکتا ہے یا ان کی زندگی میں ایک مثبت بدلائو لایا جاسکتا ہے۔ ہمارے جیسے سماج میں ایسے ذہنی مریضوں کو پاگل کہا جاتا ہے۔ ایسے پاگلوں یا ذہنی مریضوں کو اگر تنگ کیا جائے یا ان کے گرد لوگ جمع ہوجائیں یا ان کے ذہن پر کسی بھی قسم کا دباو ڈالا جائے تو ان کی ذہنی حالت اور زیادہ خراب ہوسکتی ہے اور ایسے افراد غیر معمولی حد تک پاگل پن یا غیر اخلاقی حرکات کے مرتکب ہو سکتے ہیں اور انسانوں کے لئے نقصان دہ بھی ہو سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے بڑے سے بڑے انسانوں اور مذاہب کا یہی موقف ہے کہ پاگلوں یا ذہنی بیماری کے شکار افراد کو معافی، ہمدردی اور عزت کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔ ان کی حالت کو سمجھا جائے اور علاج کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ وہ بھی معاشرت میں عزت کی زندگی گزار سکیں۔ یہ ایک اہم اخلاقی ذمہ داری ہے کہ ہم ذہنی طور پر بیمار افراد کو الگ تھلگ یا معاشرتی طور پر نظرانداز نہ کریں، بلکہ ان کی مدد کریں تاکہ وہ اپنی حالت میں بہتری لا سکیں۔

عمومی طور ایسے افراد کو ایک مخصوص جگہ رکھا جانا چاہیے جو یا توکوئی ذہنی امراض کا ہسپتال ہو سکتا ہےیا اگر اس ذہنی مریض کے خاندان والے ایسے فرد کی بیماری کو لیکر سنجیدہ ہیں تو وہ اس مریض کو ایک کمرے میں رکھ کر یا کسی ایسی جگہ رکھ کر اسے دوسرے انسانوں کے شر سے اور دیگر مضر رساں اشیا سے دور رکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ ایسے افراد کو آپ جتنا انسانی سپیس دیں گے یا چیزوں کی طرف راغب کریں گے، ان کی بیماری اتنی شدید ہوگی اور یہ حالات اور افراد کی غیر ضروری اور متشدد مداخلت سے اور بھی ذیادہ ہیجان اورواہیات حرکات کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔ ایسے افراد اپنے آپے میں نہیں ہوتے اور ان سے کوئی بھی ناشائشتہ یا غیر اخلاقی سرگرمی یا حرکت بالکل متصور ہے۔ ایسے انسانوں سے غیر ضروری میل جول یا قربت رکھنا بالکل نقصان دیہہ ہے۔

کچھ دنوں سے ایک ایسے ہی شخص کے متعلق لگ بھگ ہر شہری بات کر رہا ہے اور ہمارے پڑھے لکھے دانشور طبقے کے ساتھ ساتھ ہمارے علما بھی ایک غیر معمولی رد عمل دکھا رہے ہیں۔ ہم اچھی طرح اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایک شخص بالکل پاگل ہے اور اناف شناف بک رہا ہے۔ ایسے انسان سے ہمدردی کا معاملہ کیا جانا چاہیے اور اسے پہلی فرصت میں کسی مینٹل ہسپتال میں داخل کرانا تھا یا ایک ایسی جگہ رکھنا تھا جہاں پہ یہ مریض دیگر انسانوں کی مداخلت وغیرہ سے محفوظ رہ سکتا۔ مگر یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس پاگل شخص کو کئی افراد نے کوئی پہنچی ہوئی شخصیت جان کر اس کو ایک ایسی سچویشن میں ڈال دیا، جہاں اس پاگل یا ذہنی مریض نے ایسی ہی حرکا ت کی جو ایک پاگل کر سکتا ہے۔ اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ اگر ایک دو ڈھائی سال کا بچہ ایک زندہ سانپ دیکھ کر اس کے ساتھ کھیلنے لگے یا جلتے ہوئے آگ میں اپنا ہاتھ ڈال دے تو اس بات پر اس بچے کو نہ ہی مارا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کا احتساب کیا جاسکتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ اسی طرح ایک پاگل سے واہیات اور اناف شناف بالکل ممکن ہے کیونکہ وہ دماغی طورمعذور ہے اور اسے اپنے آپ کا کچھ بھی پتہ نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے۔

ہماری غیر ذمہ داری کا معاملہ ایسا ہے کہ صحافیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے ایک پاگل کے کئی انٹرویو کئے اور اس سے اللہ اور اس کے رسولؐ، قرآن کریم، صوفیا وغیرہ کے متعلق سوال کرتے رہے اور وہ اپنی دھن میں کچھ بھی بکتا رہا۔ حد یہ ہے کہ ایک مانے جانے والے مولانا صاحب ویڈیو کال پر ایک پاگل سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو مینٹل ہسپتال جانا چاہیے، یا کسی ڈاکٹر سے اپنا علاج کرانا چاہیے۔ کس قدر عجیب بات ہے کہ ایک ہوش مند اور پڑھا لکھا طبقہ ایک ذہنی مریض یا ایک مکمل پاگل سے ایسے سوالات یا مشورے کرتا ہے جو کسی بھی طور صحیح نہیں ہے۔ اللہ جل شانہ کا قرآن کریم میں صاف حکم ہے کہ جاہل سے دور رہو، اور یہاں تو معاملہ ایک پاگل اور ذہنی مریض کا ہے۔ کیا ایک پاگل سے ہوشمندی کی باتیں کرنا یا اسے صلاح دینا پاگل پن نہیں، بالکل ہے۔

ہم مجموعی طور اپنی ذمہ داریوں سے دستبردار ہوکر ایسی سچویشنز اور ایسے معاملات میں الجھ جاتے ہیں جو ہمارا میدان ہی نہیں۔ اس پاگل کے سلسلے میں ہماری ذمہ داری بحیثیت اس کی بیوی، اس کے رشتے دار، اس کے ہمسایے یا ایک صحافی یا ایک عالم کے اس کی حالت یا پاگل پن کو محسوس کرنا تھا ور اسے بہتر علاج کے لئے متعلقہ محکمے کے حوالے کرنا تھا۔ اس ضمن میں پولیس یا انتظامیہ کی مدد بھی حاصل کی جا سکتی تھی۔ مگر چونکہ ہم خود ایک متشدد اور خود کو ہر عیب سے پاک و صاف گرداننے والے انسان ہیں اور فتوے صادر کرنا، لوٹ مار کرنا، تماشا کرنا، مذاق اڑانا اور شریعت مظہرہ کے آفاقی اصولوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو پرے دھکیلنا ہمارا شیوہ ہے، اس لئے ہم سب ایسا نہیں کرتے۔ ہم تب تک ایک مجبور عورت کی مدد نہیں کرتے جب تک کہ وہ غلط دھندے میں مبتلا نہ ہو۔ ہم ایک لڑکے یا جوان کے درد کا مداوا نہیں کرتے جب تک کہ وہ نشے کی لت میں گرفتار نہ ہو۔ ہم ایک پاگل یا ذہنی مریض کا علاج نہیں کراتے جب تک کہ وہ ایسا بحران نہ کھڑا کرے جس سے افراتفری پھیلنے کا اندیشہ ہو۔ ہم ہر کام میں دیر کردیتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا اور مساجد کے ممبروں کے چمپئین بن جاتے ہیں۔

’’ڈی ہیومنائیزیشن ‘‘یا انسانی اہمیت سے کسی کو محروم کرنا آج کل ایک فینامینن ہے۔ جس کا مقصد انسانی عظمتوں کو ناکارہ بنانا یا ختم کرنا ہے اور اس کا سب سے بڑا ٹارگیٹ دین کامل یا دین محمد صلی علیہ وسلم ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں کسی انسان یا گروہ کو انسانوں کی طرح نہیں دیکھا جاتا۔ اس میں ان کی عزت اور حقوق کی نفی کی جاتی ہے۔ انہیں بے زر اور بے حس سمجھا جاتا ہے۔ اس فینامنن کا چلن ساری دنیا میں رائج ہو چکا ہے اورانسانوں کو جانووں کی طرح یا ان سے بھی کمترسمجھا جاتا ہے۔ فلسطین اس کی ایک تازہ اور زندہ مثال ہے۔

انسانی کمزوریوں اور سماجی ناسوروں کا علاج وقت پر کیا کیجئے۔ ایک پاگل اور ایک ہوش مند سے ایک ہی سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ ایک پاگل کے ساتھ غیر انسانی سلوک کسی بھی مذہب یا انسانی یا اخلاقی آرڈر کا حصہ نہیں۔ ہمارے سماج کے ٹھیکیداروں اور متشدد علماء کو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے اور انسانی رواداری کے اسباق اور اعمال کا ذکر کیا کریں۔ معاشرتی برائیوں کو اخلاقیات اور اچھائیوں سے دور کیا جاسکتا ہے نہ کہ تشدد اور غیراخلاقی رد عمل سے۔ اس کے علاوہ پولیس اور انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ ایسے معاملات کو بہتر انداز میں سنبھالنے کا کام کیا جائے اور ایسے معاملات کو بالکل ہی عوام کے حوالے نہ کیا جائے تاکہ ایک صحت مند سماجی آرڈر برقرار رکھا جاسکے۔
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
صحت سہولیات کی جانچ کیلئے ڈائریکٹر ہیلتھ سروسز کاپونچھ دورہ تعمیراتی منصوبوں اور فلیگ شپ پروگراموں کی پیش رفت کا جائزہ لیا
پیر پنچال
پولیس نے لاپتہ شخص کو بازیاب کر کے اہل خانہ سے ملایا
پیر پنچال
آرمی کمانڈر کا پیر پنجال رینج کا دورہ، سیکورٹی صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا آپریشنل برتری کیلئے جارحانہ حکمت عملی وہمہ وقت تیاری کو ضروری قرار دیا
پیر پنچال
سندر بنی میں سڑک حادثہ، دکاندار جاں بحق،تحقیقات شروع
پیر پنچال

Related

کالممضامین

فاضل شفیع کاافسانوی مجموعہ ’’گردِشبِ خیال‘‘ تبصرہ

July 11, 2025
کالممضامین

’’حسن تغزل‘‘ کا حسین شاعر سید خورشید کاظمی مختصر خاکہ

July 11, 2025
کالممضامین

! ’’ناول۔1984‘‘ ایک خوفناک مستقبل کی تصویر اجمالی جائزہ

July 11, 2025
کالممضامین

نوبل انعام۔ ٹرمپ کی خواہش پوری ہوگی؟ دنیائے عالم

July 11, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?