فکرو ادراک
قیصر محمود عراقی
شادی بیاہ ، منگنی یا مہندی کے اوقات پر عورتوں کا حد سے گذرجانا اب ایک عام سی بات ہے۔ نئی نویلی دلہن کا لباس ،نا محرم مردوں کا عورتوں کو مختلف زاویوں سے فوکس کرکرکے فلمیں بنانااور باپ وبھائی کا تماشائی بن جانا، اور تو اور بعض دیندار گھرانوں میں بھی اس موقع پر شرم و حیاء کا جنازہ اُٹھنا ،سے دل خوف سے کانپ جاتا ہے۔ مووی میکر یا فوٹوگرافر آج کل ایسے بن ٹھن کر شادی کے پروگرام میں آتے ہیں جیسے کہ شادی ہی اُن کی ہو، تعجب ہے کہ شادی والے گھرانوں میں ایک غیر مرد گھر کی نئی نویلی دلہن کوسب سے پہلےدیکھتا ہےاور مختلف اسٹائلوں سے اس کا فوٹوسیشن کرتا ہے۔ افسوس صد افسوس!اس موقعے پر کس کس چیز کو رویا جائے۔ دُلہا میاں خود مووی میکر اور فوٹوگرافر کو گائڈلائن دے رہا ہوتا ہے کہ یہ میری بہن ہے ، میری کزن ہے، میری خالہ ہے، یہ دلہن کی بہن ہے اور یہ میری ماں ہے وغیرہ وغیرہ۔لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ غریب ہو یا امیردونوں زیادہ سے زیادہ پیسہ اِن فضول اور نازیبا رسموں پر خرچ کرتا ہے۔
اسلام کی حدود کو دیکھیں تو اسلام نے تو شادی کو انتہائی آسان بنایا ہے، ان مٹی کےپُتلوں(انسانوں)کو نا جائز خوش کرنے کیلئے گنہگار مت بنوبلکہ جہاں تک ہوسکے شادی بیاہ کے موقع پر صرف اور صرف سنت طریقے سے ہر کام کو انجام دو۔ اللہ تعالیٰ کو خوش کروگے تو آپ کی شادی کامیاب ہوگی۔ آپ نے دیکھا ہوگا بہت سے لوگ شادیوں کے موقع پر گھروں ، پلاٹوںاور سڑکوں پر ٹینٹ لگاتے ہیںاور عورتوں کا ناچ دیکھتے ہیں، نکاح کا ان ناچنے والی عورتوں سے کیا تعلق ہے؟ آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ بہت سی شادیوں میں گھروں کے بزرگ بھی ان بے شرم محفلوں میں شامل ہوتے ہیںاور ان بے حیا عورتوں سے نا زیبا حرکت سرِعام کرتے ہیںاور بہت سی جگہوں پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ’’دلہامیاں‘‘خود ان عورتوں کے ساتھ رقص کے ساتھ ساتھ نازیباحرکات کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ آ پ خود فیصلہ کریں کہ شادی کے موقع پر آپ تو اللہ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں یا نہیں؟ ایسی شادی میں برکت کیسے آسکتی ہے؟ ذرا سوچیں، بے حیا عورت کے ناچ میںجو گناہ اور خرابیاں ہیں ان کو سب جانتے ہیں۔ اب ڈھولک کی بات کریںتو عورتیںڈھولک ساری ساری رات ایسے بجاتی ہیں جیسے پتہ نہیں یہ ڈھولک نہیںبلکہ ان کے ’’بے رحم شوہر کا سر‘‘ہے ، ڈھولک کی خوب دُھلائی کرکے اپنا سارا غصہ ڈھولک پر نکال دیتی ہیں۔ ڈھولک کی آواز سے آس پاس کی لوگوں کی نیند میں خلل پڑتا ہے کہ نہیں؟ ڈھولک سے دل کو راحت نہیں ملتی تو بڑے بڑے اسپیکر لیکر اس پر ساری ساری رات اور سارا سارا دن گانے بجائے جاتے ہیں، گویااس طرح سارےعلاقے کو پتہ چل جائے کہ فلاں صاحب کے یہاں شادی کی تقریب ہورہی ہے۔ جب سارا علاقہ آپ کی ان حرکتوں سے تنگ ہوگا تو کیا آپ کو لوگ دعا دینگے؟ہمارے اڑوس پڑوس میں بہت سے بیمار ایسے بھی ہیںجو بیچارے اپنی ہی کھانسی کی آواز برداشت نہیں کرسکتے تو کیا وہ آپ کے گھر لگے اسپیکروںسے نکلتی ہوئی گانوں کی آوازیں کیسے برداشت کر پائینگے؟ آپ خود اندازہ کریں کہ وہ بیمار انسان آپ کو کتنی بددعائیں دیگا؟ بھلا بتائیں ایسی شادی میں برکت کیسے آئیگی؟ مقصد صرف یہ ہے کہ شادی کو آسان بنائواور طلاق وخلع کے رواج کو اپنے سماج سے ختم کرو۔ فضول رسم ورواج کے جھنجھٹ کی وجہ سے بہت سے غریب گھروں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بھی غیر شادی شدہ بیٹھے ہیں۔ میری بزرگوں سے گذارش ہے کہ ان فضول رسم ورواج کو اپنی زندگی ہی میں ختم کرجائیں، نہیں تو قبروں میں عذاب کا باعث بنے گا۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ حیاء کی ترویج کا خاص خیال رکھا جائے، ایمانی زوال کے اس دور میں ہمیں قرآن وسنت رسولؐ کی طرف رجوع کرنا ہے اور اپنے مردوں اور عورتوں میں حیاکے وہ بیج بونے کی کوشش کرنا ہے جو معاشرے کو واپس پاکیزگی کے اس معیار کے قریب لے آئیں، جو اہل بیت اور صحابہ کرامؓ کے دور کا خاصہ تھا۔ گھر کے اندر مرد نگراں ہے، ان کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اور گھر والوں کی صحیح تعلیم کا بندوبست کریں، حقیقت یہ ہے کہ تقدس نسواں کا محافظ دراصل مرد ہی ہے۔ اگر مرد اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہوجائیں تو معاشرے سے ان برائیوں کا خاتمہ ہوجائے،جو عورتوں کی بے مہاری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ لیکن ہوتا ایسا ہے ، جو مرد غیرت کا پیکر بنا ہوتا ہے، اس کی غیرت بھی ایسے موقعوں پر پتہ نہیں کہاں غائب ہوجاتی ہے۔ اکثر نے بس یہی بات رٹی ہوتی ہے، کونسی شادی روز روز ہوگی، بہت سے لوگوں کو میری بات سے اختلاف ہوگا لیکن جو سچ تھا اور جو آج کل ہورہا ہے اس کی طرف توجہ دلانا بہت ضروری تھا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان فالتورسم ورواج سے بچنے کی اور سنت کے مطابق زندگی گذارنے کی توفیق عطافرمائے۔
رابطہ۔6291697668