میم دانش
قانون اور اس کو نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی معاشرے کے بنیادی ستون ہوتے ہیں۔ یہ تمام لوگوں کے لئے انصاف اور تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک واضح قانونی نظام اور ایک مضبوط نفاذی ادارے کے بغیر معاشرہ بے ترتیبی اور لاقانونیت کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔قانون، انصاف اور مساوات کو برقرار رکھنے کے لئے ایک طریقہ کار کے طور پر کام کرتا ہے جو حقوق اور ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے۔ تمام افراد خواہ ان کا درجہ کچھ بھی ہو، منصفانہ سلوک کے مستحق اور اپنے اعمال کے جوابدہ ہوں، قانون اس بات کو یقینی بنانے کے لئے اپنا بھر پورکردار ادا کرتا ہے۔مختلف قوانین کسی بھی معاشرے میں قابلِ قبول اور ناقابلِ قبول رویوں کو متعین کرتے ہیں۔اس سے شہریوں کو واضح اصولوں کے ذریعے اخلاقیات اور سماجی ہم آہنگی کی طرف رہنمائی فراہم کی جاتی ہے۔
ایک مستحکم قانونی نظام لوگوں کے بنیادی حقوق جیسے آزادیٔ اظہار، مذہب اور جائیداد کی ملکیت کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ یہ نظام اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ کسی کو بھی قانونی طریقہ کار کے بغیر اس کے حقوق سے محروم نہ کیا جائے۔مزید یہ کہ ایک مضبوط قانونی فریم ورک سے معیشت پروان چڑھتی ہے ،اس سے نہ صرف کاروباروں کی حفاظت ممکن ہوتی ہے، معاہدے نافذ ہوتے ہیں ، منصفانہ تجارت کو یقینی بنایا جاتا ہے بلکہ سرمایہ کاری اور اختراع کے لئے ایک مناسب ماحول پیدا ہوتا ہے۔منظم قوانین کی غیر موجودگی میں معاشرے افراتفری کا شکار ہو سکتے ہیں۔اس قانونی نظام کی وسیع پیمانے پر عمل درآمد کے لئے پولیس کی خدمات ہمیشہ میسر رہتی ہے۔ پولیس قانون کا بنیادی نفاذی ادارہ ہے۔ ان کی موجودگی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ قوانین پر عمل کیا جائے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے تاکہ امن اور استحکام کو برقرار رکھا جا سکے۔پولیس کا ایک اہم فرض جرائم کی روک تھام ہے جس میں گشت، نگرانی اور کمیونٹی کے ساتھ رابطہ شامل ہے۔ ان کی ذمہ داریوں میں جرائم کی تحقیقات کرنا، شواہد اکٹھے کرنا اور مجرموں کو گرفتار کرنا ہیں ۔یہ ادارہ قانونی نظام کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ قوانین کو نافذ العمل لانے کے لئے ہمیشہ کمر بستہ رہتا ہے۔جدید پولیسنگ میں کمیونٹی کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا بڑی اہمیت کا حامل ہے تاکہ اعتماد اور تعاون کی فضا قائم رہ سکے۔ کمیونٹی پولیسنگ کی حکمت عملی سے شہریوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر جرائم جیسے مسائل کو حل کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
اس کے برعکس قانون نافذ کرنے میں ایک بڑا چیلنج بے ضابطگی ہے۔ اختیارات کے غلط استعمال سے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عوام کا اعتماد کم ہو جاتا ہے۔ ان اداروں میں شفافیت، جوابدہی اور کمیونٹی کی شمولیت اس اعتماد کو بحال کرنے کے لئے ضروری ہے۔اس کے علاوہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ، سائبر کرائم، دہشت گردی اور منظم جرائم مزید پیچیدہ ہوتے جا رہے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مسلسل اپنی حکمت عملیوں کو اپنانا اور اَپ گریڈ کرنا ہوگا تاکہ ان خطرات سے مؤثر طریقے سے نمٹا جا سکے۔
اسی تناظر میں اگر یہاں جموں وکشمیر پولیس کے کردار کا ذکر کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔یہ سن 1873 عیسوی کی بات ہے جب جموں و کشمیر میں باقاعدہ پولیس فورس کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس وقت سری نگر شہر کے لئے ایک پولیس آفیسر جسے کوتوال کہا جاتا تھا اور14 تھانیدار مقرر کئے گئے۔ یہ محدود سی فورس جرائم پر قابو پانے اور امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے کام کرتی تھی۔ اس کام میں انہیں یہاں کے چوکیداروں کی مدد حاصل ہوتی تھی۔1913 ءمیں پہلی بار برطانوی دور کے امپیریل پولیس کے ایک آفیسر کی خدمات حاصل کیں گئیں اور جون 1913ءمیں مسٹر براڈوے کو پہلا انسپکٹر جنرل آف پولیس مقرر کیا گیا۔ وہ 1917ء تک پولیس کے سربراہ رہے۔ ان کے بعد دیگر امپیریل پولیس آفیسران یہ عہدہ سنبھالتے رہے۔ 1913ءسے 1947ءکے درمیان صرف ایک موقع آیا جب جموں و کشمیر میں کوئی ہندوستانی پولیس چیف تعینات ہوا اور وہ کرنل گندھرب سنگھ تھے جو 1927ءسے 1931ءتک اس عہدے پر فائز رہے۔ پرتھی نندن سنگھ پہلے ہندوستانی پولیس چیف تھے، جنہوں نے یکم جون 1946ء کویہ عہدہ سنبھالا۔اس کے بعد جموں و کشمیر پولیس میں کئی تنظیمی تبدیلیاں عمل میں لائیں گئیں۔ 1889-90عیسوی میں جموں و کشمیر پولیس کی قوت محض 1040؍ افراد پر مشتمل تھی جو 1903ءمیں بڑھ کر 1570؍ ہو گئی۔ چالیس سال بعد 1943-44 عیسوی میں پولیس کی افرادی قوت 3179؍ ہو گئی اور آج اس کی تعداد 83,000 سے تجاوز کر چکی ہے۔
1980 عیسوی کے بعد کشمیر میں اُبھرنے والی شورش کے بیچ جموں و کشمیر پولیس نے خطے میں قانون و نظم کے قیام، شورش پسندی کا مقابلہ کرنے اور عوامی سلامتی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس عرصے کے دوران، خطے کو انتہا پسندی، ماردھاڑ، ہلاکتوں اور شہری بے چینی جیسے چیلنجز کا سامنا رہا جس سے یہاں کی پولیس کا کردار جموں و کشمیر کے استحکام کے تحفظ میں مزید اہم ہو گیا۔1980ءکی دہائی کے اواخر سے جموں و کشمیر میں انتہاپسندی میں اضافہ ہوا جس سے سنگین سیکیورٹی خدشات پیدا ہوئے۔ مسلسل احتجاج، ہڑتالوں اور شہری بے چینی کے دوران جموں و کشمیر میں قانون و نظم کا قیام پولیس کی ایک اہم ذمہ داری رہی۔انہوں نے احتجاجی مظاہروں، پتھراؤ کے واقعات اور کرفیو کے نفاذ کو سنبھالتے ہوئے سیکیورٹی اور عوامی سلامتی کے درمیان توازن قائم کیا۔خاص طور پر انہوں نے شورش کے عروج کے دوران شہریوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے بہترین کام کیا۔ انہوں نے سرکاری عمارتوں، ٹرانسپورٹ نیٹ ورکس اور مذہبی مقامات جیسے اہم بنیادی ڈھانچے کو ممکنہ خطرات سے محفوظ رکھا ہے۔ عوامی اعتماد حاصل کرنے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے یہاں کی پولیس نے کمیونٹی پولیسنگ جیسے کاموں میں حصہ لینا شروع کیا۔ پولیس عوامی ملاقاتیں، نوجوانوں کی مختلف سرگرمیوں میں شمولیت اور کھیلوں کے مقابلوں جیسے پروگراموں نے قانون نافذ کرنے والے اس ادارے اور مقامی آبادی کے درمیان خلا کو پُر کرنے میں مدد کی۔ سنہ 2000ءکے بعد سے،جموں و کشمیر پولیس نے جدیدیت پر توجہ مرکوز کی اور ٹیکنالوجی کو اپنے روز مرہ کے معاملات میں استعمال کیاجس سے یہ ادارہ مزید فعال بنا۔
قانون اور پولیس کسی بھی معاشرے کے لئے ناگزیر ہیں۔ قوانین انصاف اور تحفظ فراہم کرتے ہیں جبکہ پولیس ان کے نفاذ کو یقینی بناتی ہے اور عوامی سلامتی کو برقرار رکھتی ہے۔ ایک ایسا معاشرہ جو ان اداروں سے محروم ہو انتشار، عدم تحفظ اور ناانصافی کا شکار ہو سکتا ہے۔ لہٰذا قانونی ڈھانچے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط بنانے کے لئے مسلسل کوششیں کسی بھی ملک کی ترقی اور استحکام کے لئے بہت ضروری ہیں۔ جموں و کشمیر پولیس ایک روایتی قانون نافذ کرنے والے ادارے سے ترقی کر کے پیچیدہ سیکیورٹی چیلنجز کا مقابلہ کرنے والی ایک خصوصی فورس بن چکی ہے۔ انسداد شورش، قانون نافذ کرنے اورعوام کے ساتھ شراکت خطے میں استحکام برقرار رکھنے میں سود مند ثابت ہواہے۔
[email protected]