حال و احوال
ملک توفیق حسین
آج کا انسان ظاہری ترقی کی دوڑ میں اتنا آگے نکل گیا ہے کہ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ سائنسی ایجادات، جدید سہولیات اور اعلیٰ تعلیمی اداروں سے آراستہ یہ سماج بظاہر ترقی یافتہ نظر آتا ہے، لیکن اندر سے خالی اور تنہا ہے۔ ہر فرد اپنے خول میں بند، اپنی ذات کے اندر قید ہے۔ رشتے کمزور، تعلقات مصنوعی اور بات چیت بس رسمی رہ گئی ہے۔ روزمرہ کے سفر، دفاتر، اسکولوں اور گھروں میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بے خبر ہوتے جا رہے ہیں۔ اونتی پورہ سے بڈگام تک کے ٹرین سفر میں اکثر مشاہدہ کرتا ہوں کہ تین سیٹوں پر ایک شخص بیٹھا ہو، تب بھی کوئی بلا مجبوری اُس کے قریب بیٹھنے سے ہچکچاتا ہے۔ اگر بیٹھ بھی جائے تو دونوں اپنی اپنی موبائل اسکرین میں گم ہوتے ہیں، جیسے آس پاس کی دنیا سے کوئی سروکار ہی نہ ہو۔ یہ بڑھتی ہوئی تنہائی ایک خاموش وبا بن چکی ہے۔ اس کا انجام ذہنی تناؤ، بے سکونی، ڈپریشن اور سماجی ربط کی مکمل شکست کی صورت میں ظاہر ہو رہا ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ آیا ہم واقعی ترقی کر رہے ہیں یا خود ساختہ تنہائی کے اندھے کنویں میں اترتے جا رہے ہیں؟ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمیں ڈگریوں کا بخار ذہنوں پر مسلط ہوا ہے، کوئی کسی سے کم درجہ سمجھنے کے لئے تیار نہیں۔ ہم نے علم کو صرف روزگار کا ذریعہ سمجھ لیا ہے، انسانیت کا ذریعہ نہیں۔ ہم بچوں کو وہ تربیت دینے میں ناکام ہو رہے ہیں، جہاں وہ ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھیں، دوسروں کے لیے بھلا سوچیں اور کسی کا حق نہ ماریں۔ آج کے والدین کی ترجیح یہ ہے کہ ان کا بچہ اعلیٰ اداروں میں داخل ہو جائے، بڑی ڈگری لے آئے، مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ وہ اخلاقی طور پر کیسا انسان بن رہا ہے۔ ہم نے دوسروں کا حق چھین کر کامیابی کو فخر سمجھ لیا ہے۔ تعلیم اور نوکری کے لیے جعلی سرٹیفکیٹ، جھوٹے دعوے اور سفارشات معمول بنتی جا رہی ہیں۔ ایسے میں ہمیں خود سے یہ سوال کرنا ہوگا:
کیا ایسی کمائی حلال ہے؟
کیا یہ فخر کے قابل ہے؟
کیا ہماری ترقی واقعی باوقار ہے؟
کس بنیاد پر ہم ایک دوسرے کا احترام بجا لاتے ہیں۔ میں نے’’ معرفتک دام ‘‘ گروپ پر ایک پوسٹ لکھا تھا، کوئی اگر ہمارے بارے میں پوچھتا ہے کہ میں آجکل کیا کرتا ہوں؟ وہ میرا دُکھڑا نہیں سننا چاہتا ہے، وہ میرا قیمت دیکھنا چاہتا ہے، میری کتنی عزت ہے جو کہ سماجی نقطہ نگاہ سے گورنمنٹ جابز اور پیسوں پر منحصر ہے! اسی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے الگ تھلگ ہو چکے ہیں۔ گفتگو مر چکی ہے، دلوں میں جگہ تنگ ہو گئی ہے اور سماجی تعلقات صرف ضرورت تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہی رویے ہمیں ایک بے حس، خودغرض اور بے روح سماج کی طرف لے جا رہے ہیں۔ ہم نے خدا کے نظام خلقت پر اپنا پلہ بھاری کیا ہے ،ورنہ ہماری ساخت ایک دوسرے کے لئے تعمیر ہوئی تھی۔ بقول سعدی شیرازی ؎
بنی آدم اعضای یک دیگرند کہ در آفرینش ز یک گوہرند
ہم سب ایک جسم کے اعضا کی مانند ہیں۔ مگر آج ہم نے اسی فطری نظام کے خلاف ایک انفرادی، خود پرست اور جداگانہ طرزِ زندگی اپنا لیا ہے۔ نتیجتاً بے چینی، اضطراب اور ذہنی بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب وقت ہے کہ ہم اس دوڑ سے رُک کر، پلٹ کر اپنے معاشرے کے اصل مسائل کی طرف دیکھیں۔ ہمیں پھر سے ایک ایسا ماحول بنانا ہے ،جہاں انسان، انسان سے جُڑا ہو۔ جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بھی ہو۔ اور جہاں ترقی کے ساتھ انسانیت بھی پروان چڑھے ۔ہمیں وہی کلچر واپس لانا ہے جہاں سفر میں ہمسفر کی طلب ہو، جہاں رشتوں میں محبت ہو اور سماج میں ایک دوسرے کی خیرخواہی ہو۔ ہمیں صرف ذہانت نہیں، دیانت بھی چاہیے۔ صرف کامیابی نہیں، کردار بھی چاہیے اور صرف تعلیم یافتہ افراد نہیں، انسان درکار ہیں۔ سماج کی بقاء اور فلاح اسی میں ہے کہ ہم تنہائی کے اس مصنوعی خول سے باہر نکلیں، ایک دوسرے کی طرف ہاتھ بڑھائیں اور انسان کو انسان سے جوڑنے والی اقدار کو دوبارہ زندہ کریں۔ یہ صرف ایک انفرادی ذمہ داری نہیں بلکہ اجتماعی فریضہ ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام، خاندانی تربیت اور سماجی سوچ کو اس نہج پر استوار کرنا ہوگا، جہاں انسانیت کو مقدم جانا جائے۔ کیونکہ آخرکار، ہمیں انسان بننا ہے، صرف تعلیم یافتہ نہیں۔
[email protected]