کسی بھی معاشرے کے لوگوں کی نظامِ زندگی اُن چھوٹی چھوٹی باتوں اور عادات سے جانچنے میں مدد ملتی ہے۔ جنہیں عرفِ عام میں تمدنی و معاشرتی رویے کہا جاتا ہے۔ فی الزمانہ اگر ہم اپنے گرد و پیش پر نگاہ ڈالتے ہیں توعام لوگ یہی کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ سماجی قواعد اور اخلاقی ضابطوں پر عمل کیا جانالازمی ہے۔ لیکن عملاً بہت کم لوگ ایسا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یقیناًقواعدوضوابط وہ بنیادی چیزیں ہیں جو کسی بھی فردکے اخلاق اور اس کے معاشرتی رویے کی عکاس ہوتی ہیںاورجب ہم اپنے معاشرے کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اپنی اخلاقی اقدار اور معاشرتی رویے زوال اور گراوٹ کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔اگرچہ بحیثیت مسلمان ہمارے پاس معاشرتی زندگی گزارنے کی تعلیمات و ہدایات اور معاشرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق و فرائض کی ادائیگی کا پورا نظام العمل موجود ہے، جس پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو آسان ترین طریقے پر بسر کر سکتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہم اپنے اندر شعورِ شہریت پیدا کر کے ایک اچھا، باشعور، متمدن و مہذب انسان بننے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ظاہر ہےکہ ایک مسلمان کو جہاں اقرار ، عہد و پیمان پورے کرنے، رشتے داروں ، مسافروں اور محتاجوں کو ان کا حق ادا کرنے اور اس طرح دیگر انفرادی معاشرتی ذمہ داریاں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، وہیں ایک دوسرے کا مال نا حق کھانے، فضول خرچی کرنے،اپنے و سائل ضائع کرنے، بد گوئی کرنے، نا حق کسی کی جان لینےیہاں تک کہ بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل ہونےسے منع کیا گیا ہے۔ اس طرح کی بے شمار تعلیمات دراصل ہمیں دنیوی زندگی کو خوبصورت و آرام دہ بنا کر اور دوسرے کے لئے آسانیاں پیدا کرکے اللہ کی رضا حاصل کرنے پر اُبھارتی ہیں،تاہم روز کے مشاہدہ میں اسکے برعکس ہوتا رہتا ہے۔مثلاًہم جب اپنی گلی یا کسی سڑک پراپنی کار یا موٹر سائیکل کو پارک کرتے ہیں تو اسے اُس جگہ کھڑا کر تے ہیں جو لوگوں کے چلنے گزرنے کی جگہ ہوتی ہے ۔جہاں کسی گلی یا سڑک کے درمیان میں گٹر کا پانی بہہ رہا ہے تو ہم اپنی کار یا بائیک کو سڑک کے کنارے یا گلی کے دونوں اطراف میں اُس خشک اور گندے پانی سے خشک جگہ کھڑی کرتے ہیں،جو انسانوں کے چلنے کے لئے ہوتی ہےاور انسانوں کے چلنے کے لئے گندے پانی کی جگہ چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہم مرکزی اور ترسیلی شاہراہوں پر اپنی دکانوں کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ مناظر نظر آتے ہیں کہ ہم نے ان دکانوں کا اکثر سامان فٹ پاتھوں پر سجا کر رکھا ہے، حالانکہ یہ فٹ پاتھ تو پیدل چلنے والوں کے بنائے گئے ہیں، لیکن ہم نے ان فٹ پاتھوں پر اپنا سامان خرید و فروخت کے لئے رکھ دیا اور پیدل چلنے والوں کو سڑک کے بے رحم ٹریفک کے درمیان چلنے پر محبور کردیا۔ یہ اور ایسی بہت سی مثالیں ہما رے معاشرتی رویوں کی خرابی اور ہمارے معاشرتی وشہری شعور کو منہ چڑاتی نظر آتی ہیں۔حالانکہ مسلمان تو وہی کہلاتا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے انسان محفوط رہیں،چاہے وہ انسان کتنا ہی فقیر اور گیا گذرا کیوں نہ ہو۔ہمارے مشاہدے میں یہ صورت حال بھی دیکھنے میںآتی رہتی ہے کہ اگر ہمارے گھر میںجگہ کی گنجائش نہیں ہے اور ہم اس کے لئے مجبور ہو کر گھر کے باہر جہاں لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے، اپنے ملنے والوں یا ملاقاتیوں سے گفتگو کرتے ہیں تو پھر ہمیں راستے کا حق ادا کرنا ہوگا اور وہ حق یہ ہے کہ ہم اپنی نظروں کو نیچا رکھیں، آنے جانے والی خواتین سے اپنی نگاہیں بچا کر رکھیںاور ہماری وجہ سے لوگوں کو اذیت اور تکلیف نہ ہو اور حسبِ موقع امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض بھی ادا کرتے رہیں۔ اس لئےضرورت اس بات کی ہےکہ ہم اپنے معاشرے کےایک ذمہ دار فرد ہونے کے ناطے نہ صرف سرکاری قوانین و ضابطوں کی پاسداری کریں بلکہ اپنی دینی تعلیمات کے تحت حقوق العبادکی ادائیگی کے تحت اپنے اندرایک بہترین شہری بننے کا احساس جگائیں ۔اگر ہم اپنا اور اپنے معاشرے کا وقار بلند کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے گھروں، اپنے محلوں،اپنے شہراور دیہاتوں میں مثالی معاشرتی ماحول کے شعور کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اس عزم و ارادے کو روبعمل لانے کے لئے حقوق العباد کے تحت عملی مظاہرہ کرنا ہوگا،ورنہ ہم احساس و شعور ِ شہریت کے بغیرایک اچھے مسلمان کہلائے نہیں جاسکتے۔