مختار احمد قریشی
محاورہ زندگی میں عزت و وقار کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں آپ کی عزت نہ ہو، وہاں جانا مناسب نہیں، چاہے وہاں کی دولت، آسائشیں یا سہولیات کتنی ہی پرکشش کیوں نہ ہوں۔ یہ پیغام دیتا ہے کہ انسان کی خودی اور عزتِ نفس کو ہر صورت میں مقدم رکھنا چاہیے۔انسان کے لیے دنیا میں سب سے اہم چیز اس کی عزت و وقار ہوتی ہے۔ اگر کوئی انسان کسی ایسی جگہ موجود ہے جہاں اس کی عزت نہ کی جائے، اسے حقیر سمجھا جائے، یا اس کی موجودگی کی قدردانی نہ ہو، تو وہاں زیادہ دیر رکنا اس کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ عزت کے بغیر زندگی میں سکون نہیں آ سکتا، چاہے ظاہری طور پر کتنے ہی آسائشیں موجود کیوں نہ ہوں۔مال و دولت، سونا چاندی، آسائشوں سے بھرے دسترخوان اور قیمتی برتن سب کچھ عارضی اور فانی ہیں۔ اگرچہ یہ چیزیں زندگی کو آسان بناتی ہیں، مگر حقیقی خوشی کا راز ان میں نہیں بلکہ اس عزت و احترام میں ہے جو آپ دوسروں کی نظروں میں رکھتے ہیں۔ کھانا اگر سونے کی تھالی میں بھی دیا جائے، مگر اس کے ساتھ عزت نہ ہو تو وہ کھانا بے قدر اور بے مزہ محسوس ہوتا ہے۔
عزت کی بنیاد پر رشتے مضبوط ہوتے ہیں اور لوگ آپ کی صحبت میں خوش رہتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کسی جگہ آپ کو صرف مال و دولت کے لیے برداشت کیا جا رہا ہو یا آپ کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچائی جا رہی ہو تو وہاں سے دور رہنا ہی عقل مندی ہے۔عزت ایک ایسی دولت ہے جو ہر انسان کے دل کی خواہش ہوتی ہے اور اس کے بغیر کوئی بھی چیز مکمل نہیں۔ انسان کو ہمیشہ وہ جگہ اور وہ لوگ تلاشنے چاہئیں جہاں اس کی عزت ہو اور اسے انسانیت کے مقام پر فائز سمجھا جائے۔یہ محاورہ ہمیں زندگی میں اصولوں اور وقار کی ترجیحات قائم کرنے کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ عزت نفس ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر کوئی بھی انسان حقیقی طور پر مطمئن نہیں رہ سکتا۔ زندگی میں بعض اوقات ایسے لمحات آتے ہیں جب دولت اور آسائشیں انسان کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں، مگر ان سب کے باوجود اگر وہاں عزت و وقار نہ ہو تو وہ سب بے سود ثابت ہوتا ہے۔انسان کو اپنی زندگی میں ایسے لوگوں اور ماحول کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں اس کی قدردانی کی جاتی ہو، جہاں اس کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا جاتا ہو، اور اس کو ایک مکمل انسان کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہو۔ عزت ایک ایسی شے ہے جو خریدی نہیں جا سکتی بلکہ یہ دوسروں کے رویے، احترام اور خلوص سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک ایسی جگہ، جہاں انسان کو بے عزت یا حقیر سمجھا جائے، اس کے لیے روحانی اور ذہنی اذیت کا سبب بن سکتی ہے۔یہ بات بھی سچ ہے کہ جہاں عزت ہوتی ہے وہاں کے لوگ دل سے قریب ہوتے ہیں، رشتے خلوص پر مبنی ہوتے ہیں اور انسان کو ایک مثبت ماحول ملتا ہے جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں بروئے کار لا سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر انسان کو دولت کے بل بوتے پر تسلی دی جاتی ہو مگر دل سے اس کی عزت نہ کی جاتی ہو تو اس کی قدر کم ہوتی ہے۔
یہ محاورہ ہمیں زندگی کے ان اہم اصولوں کی یاد دہانی کراتا ہے کہ ہمیں اپنے فیصلے اپنے وقار کی بنیاد پر کرنے چاہئیں اور ہمیشہ اس ماحول کا انتخاب کرنا چاہیے جہاں دل سے قدر کی جاتی ہو۔ سونے کی تھالی میں ملنے والی آسائشیں عارضی ہوتی ہیں، مگر عزت و وقار ہمیشہ ساتھ رہتا ہے اور ہمیں ایک مکمل اور بامقصد زندگی جینے کا ہنر سکھاتا ہے۔
عزت و وقار کو برقرار رکھنے کے لیے ہمیں زندگی میں کچھ اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہونا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو ان لوگوں کے سامنے خودداری سے پیش کرے جو اس کی حقیقی قدر و منزلت کو سمجھتے ہیں۔ جہاں یہ اصول و اقدار پس پشت ڈال دیے جائیں، وہاں انسان کی شخصیت کی توہین ہوتی ہے اور اس کا وقار مجروح ہوتا ہے۔
زندگی میں عزت نفس کا خیال رکھنا انسان کو کامیابی اور خوشی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔ یہ انسان کو یہ طاقت عطا کرتا ہے کہ وہ مشکلات کا سامنا کر سکے اور اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھار سکے۔ ایسے ماحول میں رہنا جہاں آپ کو بے عزتی کا سامنا ہو، آپ کی شخصیت کو دیمک کی طرح کھا جاتا ہے اور آپ کی خوداعتمادی کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔
مزید یہ کہ، عزت وہ قیمتی اثاثہ ہے جو انسان کو دوسروں کے دلوں میں جگہ فراہم کرتا ہے۔ اگر کسی کو دولت، شہرت، یا طاقت مل بھی جائے، مگر اسے لوگوں کے دلوں میں عزت کا مقام نہ ملے، تو وہ اکیلا رہ جاتا ہے اور اس کی زندگی میں حقیقی خوشی اور اطمینان نہیں رہتا۔ ایسی جگہوں پر جانا جہاں آپ کی عزت نہ ہو، آپ کی شخصیت کو گراوٹ کی طرف لے جاتا ہے اور آپ کی قدر کم کر دیتا ہے۔
لہٰذا، اس محاورے میں چھپا پیغام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ زندگی میں سچائی، خلوص اور عزت نفس کے ساتھ جینا سب سے بڑی دولت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دل و دماغ میں اس بات کو جگہ دیں کہ جہاں ہمیں وقار اور احترام نہ ملے، وہاں سے دوری اختیار کریں، چاہے وہاں کی ظاہری رونقیں کتنی ہی دلکش کیوں نہ ہوں۔ عزت و وقار وہ بنیاد ہے جو انسان کو معاشرے میں مقام دلاتی ہے اور اس کے وجود کو بامقصد بناتی ہے۔یہ محاورہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ دولت اور آسائشیں کبھی بھی انسان کی عزت کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں۔ عزت وہ قیمتی سرمایہ ہے جو عمر بھر انسان کے ساتھ رہتا ہے اور جس سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔
عزت و وقار کی اہمیت کو سمجھنا اور اس کو برقرار رکھنا زندگی کی کامیابیوں میں سے ایک عظیم کامیابی ہے۔ انسان کی حقیقی پہچان اس کے کردار اور وقار سے ہوتی ہے، نہ کہ اس کے مال و دولت سے۔ عزت وہ لازوال دولت ہے جسے ایک بار کھو دینے کے بعد دوبارہ حاصل کرنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔ جہاں آپ کی عزت کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے، وہاں رہ کر آپ کبھی خوش نہیں رہ سکتے، کیوں کہ دل کا سکون اور ذہنی اطمینان ہمیشہ عزت کے ماحول میں ہی حاصل ہوتا ہے۔
یہ محاورہ ہمیں اس بات کی بھی نصیحت کرتا ہے کہ ہمیں اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو رکھنا چاہیے جو ہمیں قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور ہماری عزت کو سمجھتے ہیں۔ جو لوگ ہمیں محض دولت، شہرت یا فائدے کے لیے اپناتے ہیں، وہ درحقیقت ہماری قدر نہیں کرتے اور ایسے لوگ ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اپنے تعلقات میں عزت و وقار کو اولین ترجیح دینی چاہیے۔عزت کا تعلق انسان کی خودداری سے ہے۔
رابطہ۔8082403001
[email protected]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔